دین میں جبر نہیں البتہ رمضان میں سزا ہو سکتی ہے


یار دنیا میں ہر جگہ لوگ رمضان کا احترام کرتے ہیں، روزہ دار کے سامنے نہیں کھاتے۔ میں نے پھر سے کوشش کی کہ اسے کنوینس کر سکوں۔

احترام کرتے ہیں، سامنے نہیں کھاتے لیکن ان کو مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ کھا سکیں، اگر بے روزہ دار چند ہیں تو وہ باہر جاکریا سائیڈ پر ہوکر کھا سکتے ہیں، اگر بے روزہ دار زیادہ ہیں تو روزہ دار کا فرض بنتا ہے کہ ان کے کھانے پینے کے دوران باہر چلا جائے۔ سر روزہ انسان اپنے لئے رکھتا ہے، دوسروں پر رعب جمانے، بلاوجہ ڈانٹنے اور سزا دینے کے لئے نہیں۔ اگر رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے تو جومسلمان نہیں ہیں یا مسلمان ہوکر بے روزہ دار ہیں ان پر کیسا جبر؟ کیسی زور زبردستی کہ آپ باہر کھانا پینا نہیں کر سکتے؟ آپ دھکے سے کھانا پینا بند کرواتے ہو لیکن اگر یہی کام ہم ہندوستان میں کریں تو؟ ہر ہندوصوبے، شہر، علاقے میں قانون نافذ کر دیں کہ جب جب ہندو دھرم میں روزہ ہوگا کسی بھی دھرم کا ماننے والا باہر کھانا پینا نہیں کرے گا تو؟

ایسے تھوڑی ہوتا ہے، انسانیت بھی کوئی چیز ہے، خواہ مخواہ آپ کسی ایسے مذہب کے ماننے والوں پر جبری پابندی کیسے لگا سکتے ہیں جو کہ ہندو دھرم کو مانتا ہی نہ ہو؟ میں ہڑبڑا سا گیا

آرتی قہقہ لگا کے ہنسنے لگی اور بولی۔ یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ میں ہندو ہوں، سکھ ہو سکتی ہوں، عیسائی ہو سکتی ہوں تو پھر مسلمان میرے کھانے پینے پر پابندی کیسے لگا سکتے ہیں؟ جبکہ میں اسلام کو مانتی ہی نہیں۔ اگر مانتی ہوتی تو یقینا اک مسلمان ہوتی۔

دیکھو آرتی۔ ایسا کہیں بھی نہیں لکھا کہ غیر مسلم اگر کھائے پیے تو اس کو مارو پیٹو، اسلام ہر انسان کو آزادی دیتا ہے، اگر وہ کسی عذر کا حامل ہے تو روزہ نہ رکھے بلکہ اس کے بدلے پھر کبھی روزہ رکھ سکتا ہے، کسی کو کھانا کھلا سکتا ہے، اپنے روزوں کا کفارہ ادا کر سکتا ہے۔ تم جب ایک مذہب کو جانتی ہی نہیں ہو، تم نے ٹھیک سے اسلام کو پڑھا ہی نہیں ہے تو تم یہ کیسے کہہ سکتی ہوکہ اسلام بطور مذہب کسی بھی غیر مسلم یا مسلم کو بھی روزہ نہ رکھنے پر سزا دیتا ہے؟ تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ اگر کوئی روزہ دار نہیں ہے اور وہ باہر کھانا پیتا پکڑا جاتا ہے، چاہے وہ دوسرے روزہ داروں کے احترام کی وجہ سے چھپ کر ہی کیوں نہ کھا پی رہا ہو اس کو مارا پیٹا جاتا ہے؟

اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ مظہر سر ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ سب آپ نے ہی تو کہا ہے۔ آپ پہلے خود طے کر لیں کہ جبر اسلام کی وجہ سے ہے یا اسلام کے ماننے والوں میں برداشت، صبر، بردباری اور انسانیت ناپید ہے۔ مظہر سر مسئلہ عقیدے سے زیادہ عقیدے کے ماننے والوں اور جن کے ہاتھ میں عقیدوں کے اصول ہیں ان کا ہے۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ میں بھارت کے مسلمان شہریوں کے سامنے پانی پی رہی ہوں، کسی نے اعتراض کیا نہ ان کے چہرے پر کوئی شکن آئی کیونکہ کم سے کم ہمارے معاشرے میں یہ دستور ہے کہ ہر دھرم کی عزت کرو، دوسرا کوئی بھی دھرم اور دھرم کا ماننے والا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی سارا دن جبری روزہ رکھے، وہ ہندو نہ ہوتے ہوئے بھی سارا دن اپواس کرے، وہ سکھ نہ ہوتے ہوئے بھی کیس رکھے اور وہ عیسائی نہ ہوتے ہوئے بھی چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنے پر مجبور کر دیا جائے۔

دنیا کو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے والوں کی نہیں بلکہ اک دوسرے کو عزت دینے کی ضرورت ہے، برداشت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اپنی آخرت سنوارنے کے لئے روزہ رکھا ہے تو میرا کھانا حرام کرنے کا ثواب ہرگز نہیں ملے گا، اگر آپ نے جنت کا حصول چنا ہے تو مجھے کھاتا پیتا دیکھ کر میرا سر پھاڑنے، مجھے گنجی کرنے، مجھے جیل میں ڈالنے سے آپ کا خدا راضی ہوکر آپ کو ڈبل جنت الاٹ نہیں کرے گا۔

میرا غصے اور بے بسی کے مارے برا حال تھا۔ میں نے بھڑکتے ہوئے کہا کہ مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی، تم کافر لوگ ہوتے ہی کنفیوز کرنے کے لئے ہو۔ آرتی مسکرائے جا رہی تھی، میں غصے میں اٹھا اور باتھ روم میں سگریٹ سلگاتے ہوئے اس سے نفرت کی کوئی وجہ ڈھونڈنے لگا لیکن اس کم بخت کی مسکراہٹ اور مجھے اس کی طرف کھینچے چلے جا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2