کچھ \’ڈان \’ کے ادارتی معیار کے بارے میں


\"CMندیم پراچہ ذہین اور با صلاحیت کالم نگار ہیں۔ ان کا \’ڈان \’ میں پابندی سے شائع ہونے والا کالم میں عموماً پڑھتا ہوں۔ وہ جب طنزیہ انداز اختیار کرتے ہیں تو مزید لطف آتا ہے کیونکہ اس طرح کی تحریروں میں ان کی مخصوص صلاحیتیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن ان کے پچھلے اتوار کے کالم نے بہت مایوس کیا جو سر سید احمد خان کے بارے میں ہے، اور فکاہیہ نہیں تھا۔ چونکہ وہ واحد شخص ہیں جو کالم کے آخر میں اپنے ماخذات بھی درج کر دیتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ قصور ان کا کم اور ان کے ماخذات کا زیادہ ہے، جن میں کوئی اردو کتاب نہیں شامل ہے اور جو زیادہ تر پوسٹ کولونیل قسم کی کوتاہ ذہنی کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ دو مثالیں کافی ہوں گی۔ انھوں نے ہر جگہ جہادی قائد سید احمد شہید کو سید احمد بریلوی لکھا ہے۔ اگر پراچہ صاحب نے شیخ محمد اکرام کی \’موج کوثر \’ سے استفادہ کیا ہوتا تو وہ یہ عام غلطی نہ دہراتے۔ سید صاحب کا وطن رائے بریلی تھا، بریلی نہیں۔ مزید یہ کہ ان کے ساتھی مجاہدین زیادہ تر غیر سرحدی تھے۔ پراچہ صاحب کا انھیں سرحدی بتانا درست نہیں۔

 اسی طرح پراچہ صاحب ایک جگہ وثوق سے لکھتے ہیں کہ سرسید کے مذہبی مخالفین میں سے بیشتر علی گڑھ مدرسہ میں بار نہ پاسکے:

 \’…. most of his religious opponents could not find a place in the school that he set up in Aligarh.\’

حقیقت برعکس ہے۔ خود سر سید کو ان کے مدرسہ کے مذہبی نصاب میں کوئی جگہ نہیں دی گئی تھی۔ مدرسہ کے اولین صدر دینیات مولانا عبدالله تھے، جو مدرسہٴ دیوبند کے بانی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، کے داماد تھے۔ اور مدرسہ قائم کرتے وقت سرسید کو ہر طرح سے اپنی ذات اور اپنے مذہبی تحریروں کو مدرسہ کے دینیات کے نصاب سے باہر رکھنے کا وعدہ کرنا پڑا تھا۔ چنانچہ ان کی تفسیر اب بھی علی گڑھ میں نہیں پڑھائی جاسکتی۔ محمد سرور اور محمد اکرام کی اردو تحریروں سے واقف لوگ یہ غلطی نہیں کرتے۔

مجھے افسوس اس کا ہے کہ \’ڈان \’ نے یہ تحریر نہ صرف اسی طرح شائع کر دی جس طرح انہیں ملی، بلکہ اس میں جو تصویریں شامل کیں ان کے نیچے کی عبارت بھی اتنی ہی غلطیوں بھری رکھی۔ لگتا ہے پاکستان کا سب سے پرانا انگریزی اخبار بھی ادارتی ذمہ داریوں کو اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے انہیں ایک مختصر سا نوٹ بھیجا، جو انھوں نے شائع نہیں کیا۔ وہ نوٹ درج ذیل ہے:

The captions under too many pictures are not based on reality and reflect only the ignorance of the copy editor. \’Tahzib-al-Akhlaq\’ was not a literary journal; it was a journal of ideas; poetry and fiction were not published in it. The men in the group outside a house are the servants, or the household staff, of some colonial officer. And the world will be grateful to know the source of the portrait of a 20-yrs old fashion plate young man, and how the copy editor was able to identify him as Syed Ahmad in 1837.

(تصاویر کے نیچے دی گئی تفاصیل حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور کاپی ایڈیٹر کی کم علمی کا ثبوت ہیں۔ \’تہذیب الاخلاق\’ ادبی رسالہ نہیں تھا بلکہ فکری جریدہ تھا؛ اس میں شاعری اور افسانہ شائع نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے باہر جو گروپ فوٹو لی گئی ہے وہ کسی نو آبادیاتی افسر کے خادموں کی ہے یا گھریلو نوکروں کی تصویر ہے اور دنیا یہ جان کر بہت خوش ہوگی اگر بتا دیا جائے گی بیس سالہ فیشن پلیٹ لڑکے کی تصویر کا کیا ماخذ ہے اور کیسے کاپی ایڈیٹر نے اس کی شناخت 1837 کے سر سید کے طور پر کی؟)

جس تصویر کا اوپر ذکر ہے اور جسے اخبار نے سرسید کی شبیہ بعمر بیس سال قرار دیا تھا وہ در اصل ان کے بڑے بیٹے سید حامد کی تھی۔ لگتا ہے کسی اور نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی کیونکہ اب وہ تصویر ہٹا دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ہٹانے اور اپنی غلطی کا اعتراف جو تمام ذمہ دار اخبار کرتے ہیں پھر بھی نہیں کیا گیا۔ یہی حشر اس دوسری تصویر کا بھی ہوا جس کا ذکر اوپر کیا گیا تھا۔ وہ بھی ہٹا دی گئی ہے، لیکن اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔

میری \’پرابلم \’ یہ ہے کہ میں بر صغیر کے نمایاں انگریزی اخباروں سے توقع کرتا ہوں کہ وہ \’فیکٹ چیکنگ\’ اور \’کاپی ایڈٹنگ \’ بھی ضرور کریں۔ آخر ان کے اسٹاف کے لوگ غیر ملکی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان سے کچھ سیکھیں بھی۔ لیکن میں نے جب بھی کسی اخبار کو اس کی ناقص کاپی ایڈٹنگ یا کسی ادارتی کوتاہی کی طرف توجہ دلائی رد عمل وہی ملا جو \’ڈان \’سے ملا۔

اب اسی مضمون کو لیں۔ اس میں ایک جگہ یہ عبارت آئی ہے:

\"DawnThe project began when the British introduced the whole idea of conducting a consensus. A lot of emphasis was stressed upon the individual\’s faith; and the results of the consensus were then segmented more on the bases of religion than on economic or social status.

The outcome was the rather abstract formation of communities based on faith, constructed through an overwhelmingly suggestive consensus, undertaken, not only to comprehend the complex nature of Indian society, but to also devise a structural way to better control it.

اس میں \’رائے شماری \’ کے مترادف انگریزی لفظ census  کی جگہ ایک بالکل مختلف لفظ تین بار استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ کاپی ایڈٹر کو یہ غلطی پہلی دفعہ ہی درست کر دینی چاہئے تھی۔

\"Dawnجو تصویریں اب بھی شائع ہو رہی ہیں ہنوز اصلاح طلب ہیں۔ ان کی اصلاح کے لئے محقق ہونا ضروری نہیں۔ کوئی بھی تعلیم یافتہ لیکن ذمہ دار کاپی ایڈیٹر ان کو درست کر سکتا تھا۔ ایک تصویر ہے جس میں انگریز فوجیوں کو ہندوستانیوں سے جنگ کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کے نیچے لکھا گیا ہے کہ یہ اس وقت کی شبیہ ہے جب 1833 میں انگریزی فوجیں سید احمد شہید کے ساتھیوں سے جنگ کر رہی تھیں۔ اب اتنا تو ہر پاکستانی کو معلوم ہوگا کہ انگریزوں کا لاہور پر قبضہ 1849 میں ہوا اور سندھ میں ان کا راج 1842 کے بعد ہوا۔ پھر یہ انگریزی فوجیں سولہ برس پہلے بالا کوٹ کیسے پہنچ گئیں؟

ایک دوسری تصویر کے نیچے لکھا ہے، \’سر سید کچھ مسلمان دانشوروں کے ساتھ ایک خوشگوار شام گذارتے ہوئے۔ \’ آپ تصویر کو دیکھیں۔ اس میں صدر میں معروف انگریز پروفیسر تھامس آرنلڈ تشریف فرما ہیں۔ ایک تصویر کے نیچے درج کیا ہے: \’سر سید پہلے مسلمان ہائی کورٹ جج اور اپنے بیٹے کے ساتھ۔ \’ سر سید کے دو بیٹے تھے، سید حامد اور سید محمود۔ تصویر میں سید محمود ہیں، اور ان کے نام کی وضاحت ضروری تھی۔ اس میں جو جج صاحب ہیں وہ بھی کم اہم اور معروف شخص نہیں۔ جسٹس سید کرامت حسین نے مسلمان بچیوں میں جدید تعلیم کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کیا اب ان کا نام یاد دلانا اہم نہیں؟ کیا اتنے عرصے سے شائع ہونے اور اتنا سرمایہ رکھنے کے باوجود \’ڈان \’ کے پاس کوئی Archive اور Archivist نہیں؟

\"Dawnسب سے زیادہ دکھ تو یہ دیکھ کر ہوا کہ \’تہذیب الاخلاق \’ کے سرورق کے نیچے اس کو literary journal  یا ا\’دبی جریدہ \’ بتایا گیا ہے۔ کچھ نہیں تو اس تصویر کو ہی توجہ سے دیکھ لینا چاہئے تھا۔ صاف صاف اس کا انگریزی نام بھی درج ہے: The Mohammedan Social Reformer۔ اسی سے سمجھ لینا تھا کہ یہ رسالہ ادبی نہیں۔ لگتا ہے انگریزی اخباروں کے نزدیک اردو رسالے یا تو مذہبی ہوسکتے ہیں یا ادبی، یا پھر نسوانی اور تفریحی۔ خالص علمی رسالے اردو میں چونکہ اب عام نہیں ہیں تو ایسا نہیں کہ کبھی بھی عام نہ تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ابتدائی دور میں کوئی رسالہ محض ادبی نہیں ہوتا تھا۔ \’زمانہ \’، \’الناظر \’ ، \’مخزن \’، \’ہمایوں \’ وغیرھم کو محض ادبی رسالے کہنا ان کے اور ان کے قارئین کے ساتھ ستم کرنا ہوگا، جو ایسا کرنے والے دراصل خود اپنے ساتھ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments