مضحکہ خیز موضوع عورت کے حقوق


\"Sajjadپاکستانی معاشرے میں صنفی امتیاز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ عام لوگ عورتوں کے حقوق قسم کے موضوعات سے قطعی ناآشنا ہیں۔ اکثریتی آبادی دیہی ہے اور تعلیم سے نابلد ہے۔ ان کے لئے یہ موضوعات مضحکہ خیز ہیں۔ خصوصاً دیہی سماج سے متعلق لوگ عورت مرد کے حالیہ کردار کو نہ صرف آفاقی تسلیم کئے ہوئے ہیں۔ بلکہ برقیائی ذرائع ابلاغ (الیکڑانک میڈیا) پہ نظر آنے والی جدت پسندی کو نا پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اور عورت مرد کے اختلاط کو غیر فطری سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہماری جامعہ بہاءالدین زکریہ کے شعبہ جینڈر سٹڈیز(مطالعہء جنس ) کے کچھ اساتذہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور اس حوالے سے عام لوگوں کی رائے جاننی چاہی کہ وہ عورتوں کے حقوق نامی اس موضوع سے کتنی آگاہی رکھتے ہیں۔

گروہی مباحثے (group discussion ) کا اہتمام کیا گیا۔ سوالات کچھ یوں تھے۔

1۔ آپ کے خیال میں عورت اور مرد برابر ہیں؟

2۔ عورت کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے، اور کہاں تک حاصل کرنی چاہئے؟

3۔ عورت کو نوکری کرنی چاہئے؟

وغیرہ وغیرہ

جواب دلچسپ تھے۔ چند گرگان باراں دیدہ بوڑھوں نے نمائندگی کے فرائض سنبھالتے ہوئے اپنے تئیں حکمت سے جواب دئیے، پڑھئے

1۔ عورت مرد کی شان ہے، اس کے برابر نہیں۔

2۔ عورت کو زیادہ سے زیادہ دسویں تک تعلیم لینی چاہئے۔ (درمیان میں ایک ادھیڑ عمر آدمی نے تُک لگائی \”زیادہ پڑھی لکھی لڑکیاں گھر سے بھاگ جاتیں ہیں)

3۔ باہر کے کام کاج مرد کی ذمہ داری ہیں نہ کہ عورت کی۔ ہاں سکول کی نوکری اچھی ہے (مطلب استاذ کی نوکری کے علاوہ کوئی دوسری نوکری عورت کے لئے موزوں نہیں)

اس تناظر میں اس طرز فکر کے لوگوں کے پاس اپنے مؤقف کے حق میں ڈھیروں مضبوط ثقافتی جواز ہیں۔ جو صدیوں پرانی اقدار، روایات سے لئے جاتے ہیں۔

 یہ تو خیر بات ہوگئی قصبات اور چھوٹے شہروں کے دیہی، نیم دیہی سماج کی۔ اگر ہم گنجان آبادی والے بڑے شہروں کی طرف دیکھیں، وہاں بھی نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ چند دہائیوں سے ہونے والی زبردست نقل مکانی نے شہری ثقافت کو دیہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ باہر سے آنے والے دیہی آبادکار شہری جدت پسند کلچر کو اپنا لیتے مگر یہاں معاملہ الٹ پڑا ہے۔ دور دراز میدانی، پہاڑی، صحرائی خطوں سے آنے والے قبائلی، جاگیردارانہ مزاج کے حامل دیہاتی اپنے ساتھ لائے عقائد و نظریات سے سختی سے جڑے ہوئے ہیں اور پوری قوت سے مقامی شہری آبادی پہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ شہر آکے بسنے والوں کی مادی کیفیات میں تو تبدیلی رونما ہوئی ہے لیکن ان کے مردانگی اور نسوانیت بارے نظریات اور رویوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔

یہ صورت حال ہمارے گلی محلوں سے آگے علمی درسگاہوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری جامعات کے معدودے چند شعبہ جات کے جہاں سماجیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ جہاں پہ انسانی سماج کی تاریخ و ارتقا، صنفی امتیاز اور عورت پر ہونے والے سماجی تشدد کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ وہاں کے طلباء میں کسی حد تک صنف نازک کے حقوق بارے کشادہ دلی نظر آتی ہے۔

ورنہ ملکی، غیر ملکی سیاست، معیشت پہ مباحثے کرتے ہوئے بہتوں ملیں گے۔ برقیائی ذرائع ابلاغ کے انقلاب کے بعد عام لوگوں کو سیاسی بحثوں کا چسکا پڑ گیا ہے لیکن حقوق نسواں عوام الناس کے لئے ابھی تک غیر مانوس موضوع ہے۔

سرمایہ داروں کا میڈیا سیاست، معیشت، فلمی صنعت اور اس سے وابستہ افراد کو تو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہے لیکن حقوق نسواں جیسے اہم موضوع سے غیر دلچسپی دکھا رہا ہے۔ اسی میڈیائی عدم دلچسپی کی بدولت ہمارا سماج قدیمی زن بیزار رویوں سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments