پاک بھارت تعلقات: الزامات سے مذاکرات تک


\"edit\"بھارت نے پاکستان کی طرف سے کشمیر پر بات چیت کرنے کی پیشکش کو اس شرط پر قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اگر یہ مذاکرات سرحد پار دہشتگردی تک محدود ہوں گے اور کشمیر میں ہونے والے مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے کئے گئے تشدد پر بات نہیں کی جائے گی۔ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر گوتم بامبا والا نے پاکستانی وزارت خارجہ کو بھارت کے سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا مراسلہ پہنچایا ہے جس میں بات چیت کو دہشتگردی تک محدود کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ خط پاکستانی سیکرٹری اعزاز چوہدری کے خط کے جواب میں وصول ہوا ہے۔ اب پاکستانی وزارت خارجہ اس مراسلہ کا جواب تیار کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو بات چیت شروع کرنے کےلئے جو خطوط روانہ کئے ہیں، ان میں دونوں ملکوں نے کشمیر کے سوال پر اپنے موقف سے سرمو انحراف نہیں کیا لیکن الزام تراشی اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے ماحول میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کی طرف سے اسلام آباد کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کرنا اور مذاکرات پر راضی ہونا بھی موجودہ کشیدہ اور سنگین صورتحال میں ایک پیشرفت ہے۔ تاہم بات چیت کے ذریعے اختلافات ختم کرنے اور کشمیر کے معاملہ پر کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کےلئے دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو سیاسی و سفارتی سوجھ بوجھ اور جرات سے کام لینے کی ضرورت ہو گی۔

پاکستان الزام تراشی کے ماحول میں بھی مسلسل بات چیت کی پیشکش کرتا رہا ہے۔ جبکہ بھارت کی طرف سے ہمیشہ کی طرح اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے کہ پاکستان ہی دراصل کشمیر میں مسئلہ کی جڑ ہے اور وہ سرحد پار سے دہشتگردوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ اگرچہ 8 اگست کو برہان وانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جو احتجاج شروع ہوا ہے، اس میں پاکستان کی مداخلت کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ کشمیری عوام کی خالصتاً مقامی تحریک ہے اور وہ بھارتی استبداد ، سکیورٹی فورسز کے مظالم اور حق خود اختیاری کےلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلسل کشمیری عوام کے احتجاج کو مسترد کر رہی ہے اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی یہ حکمت عملی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ کیونکہ بھارتی اپوزیشن پارٹیوں اور کشمیری لیڈروں کی طرف سے مسلسل سیاسی مذاکرات کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی نئی دہلی سرکار سے کہا ہے کہ وہ تشدد اور طاقت سے تحریک کو دبانے کی بجائے کشمیری لیڈروں سے بات چیت کا آغاز کرے۔ محبوبہ مفتی کو یہ موقف اس حقیقت کے باوجود اختیار کرنا پڑا ہے کہ ان کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی PDP مقبوضہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی BJP کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ اسی طرح کشمیر کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والے کارکن بھی بھارت سرکار کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ اسے کشمیر میں پائیدار امن کےلئے حریت سمیت سب کشمیری لیڈروں سے مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔ اپوزیشن کے دباؤ پر گزشتہ جمعہ کو حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی تھی لیکن نریندر مودی اپنی پالیسیوں کو ترک کرنے اور علیحدگی پسند کشمیری لیڈروں سے بات کرنے سے صاف انکار کرتے رہے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعہ کی وجہ سے تعلقات تاریخی طور سے کشیدہ رہے ہیں۔ دونوں ملک اس مسئلہ کو اپنے طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس مسئلہ کو 68 برس قبل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ ان قراردادوں میں بھارت سے کشمیر میں استصواب کروانے اور کشمیری عوام کی رائے کے مطابق مسئلہ حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ شروع میں بھارتی حکومت نے اس تجویز کو منظور کر لیا تھا لیکن بعد میں وہ اس سے منحرف ہو گیا اور کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس حوالے سے بھارتی حکومتوں کا موقف رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں باقاعدگی سے انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے لیڈر حکومت بناتے ہیں۔ اس لئے کشمیری عوام تواتر سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔

لیکن اس دعوے کو کشمیر کی صورتحال کی روشنی میں درست تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ بعض مقامی لیڈروں نے بھارت نواز پارٹیاں قائم کی ہوئی ہیں اور وہ فوج کی نگرانی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہو کر مقبوضہ وادی میں اقتدار بھی سنبھال لیتے ہیں لیکن کشمیری عوام کی اکثریت ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے۔ یا وہ مقامی مسائل سے نمٹنے کےلئے محدود تعداد میں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ کشمیر کی علیحدگی یا کشمیری عوام کو وادی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دلوانے کے حامی کشمیری لیڈر اور پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس لئے بھارت نواز پارٹیاں کسی مقابلہ کے بغیر ہی انتخاب جیت کر اپنی کامیابی کے اعلانات کرتی رہتی ہیں۔ ان انتخابات کو کسی بھی معیار سے کشمیری عوام کے حق رائے دہی کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم بھارت نے کشمیر میں انتخابات کو بہانہ بنا کر ایک طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس متنازعہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

اس دوران کشمیر کے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور وہ بھارت یا پاکستان کے مسلط کردہ فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ کشمیری عوام کی اکثریت اور ان کی نمائندگی کرنے والی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے کشمیری عوام کی طرف سے مسئلہ کے سیاسی حل کےلئے دباؤ میں اضافہ کے پیش نظر سات لاکھ کے لگ بھگ فوج اور دیگر مسلح اداروں کے اراکین کو مقبوضہ کشمیر میں متعین کیا ہوا ہے اور انہیں خصوصی قوانین کے تحت اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اس طرح بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کاروائی بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اگرچہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو نہیں کی جاتیں لیکن اسلام آباد نے ہمنوا سیاسی گروہوں کے ذریعے اس حصے پر حکمرانی کا ویسا ہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بعض کشمیری لیڈروں کا موقف ہے کہ اس علاقے سے مکمل طور سے فوجوں کو واپس بلایا جائے اور کشمیر کے دونوں حصوں میں آباد کشمیری عوام کو خود اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ کشمیری عوام کی بڑی اکثریت اب پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے آپشن پر عمل کرنے کی بجائے خود مختار مملکت کے تصور کی حمایت بھی کرتی ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کی قراردادیں کئی دہائیاں گزرنے کی وجہ سے مسئلہ کی نوعیت اور سنگینی کا کوئی قابل قبول حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے کشمیر کے سوال پر بات چیت کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ شملہ معاہدہ سمیت دونوں ملکوں نے متعدد اعلانات میں اصولی طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اس کو حل کرنا چاہئے۔ تاہم پاکستان کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی اور خواہش کے باوجود بھارت نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگانے کے بعد اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت و بلتستان کے علاقے بھی دراصل بھارت کا حصہ ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس دعویٰ کو ایک بار پھر دہرایا اور یہ بھی قرار دیا کہ بلوچستان اور آزاد کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ اس بیان کی روشنی میں ہی ایک بھارتی صحافی نے منگل کے روز امریکی وزارت خارجہ کے شعبہ اطلاعات کی ڈائریکٹر الزبتھ ٹروڈیو سے کہا کہ مودی کے اعلان کے مطابق پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے باشندے بھارتی شہری ہیں۔ اس لئے اب امریکہ کو اس مسئلہ پر واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔ امریکی ترجمان نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ امریکہ کشمیر کو مسلسل متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ بھارت اور پاکستان کو بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

گزشتہ نصف صدی کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر سفارتی اہمیت حاصل کی ہے۔ سوا ارب آبادی کے اس ملک کی پیداواری اوسط 7 فیصد سالانہ ہے۔ اس لئے امریکہ سمیت تمام اہم صنعتی ملک بھارت کی منڈیوں کو بے حد اہم سمجھتے ہیں۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ اور بھارت کے درمیان قربت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب یہ تعلقات اس حد تک قریبی ہو چکے ہیں کہ امریکہ ، پاکستان کے مقابلے میں عام طور سے بھارت کے موقف کی حمایت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ تاہم اس کےلئے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے موقف سے انحراف ممکن نہیں ہے کیونکہ کشمیری عوام مسلسل آزادی کی تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مفادات اور مصلحتوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم اور زیادتیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس مدت میں جبکہ بھارت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے عالمی سطح پر اہمیت حاصل کر رہا تھا، پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ اور جہادی گروہوں کے وجود نے پوری دنیا میں پاکستان کےلئے مشکلات پیدا کیں۔ سوویت افواج کے خلاف افغان مجاہدین کے طریقہ کار سے متاثر ہو کر 80 کی دہائی میں پاکستانی حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھی یہ تجربہ کرنے کی کوشش کی۔ افواج پاکستان کی سرکردگی میں سامنے آنے والے مذہبی جہادی گروہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جنگجو روانہ کئے۔ ان عناصر نے کشمیری عوام کی تحریک کو بھی بدنام کیا اور پاکستان کےلئے عالمی طور سے اپنی پالیسیوں کا دفاع کرنا ممکن نہیں رہا۔ 1988 میں ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد ملک میں جمہوری حکومتوں کا دور واپس آیا اور کشمیر میں مداخلت کا سلسلہ ترک کر دیا گیا۔ لیکن بھارت اب تک پاکستان پر کشمیر میں مسلح مداخلت کرنے اور دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرکے عالمی برادری میں خود کو درست اور پاکستان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ آزادی کی کسی بھی تحریک میں عوام کا ایک خاص گروہ مسلح جدوجہد کو بھی درست راستہ مانتے ہوئے قابض افواج کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بعض نوجوان بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن بھارت انہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ 5 ہفتے سے جاری تحریک کو بھی پاکستانی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی لئے کبھی کسی پاکستانی ایجنٹ کی گرفتاری اور اعترافی بیان کا چرچا کیا جاتا ہے اور کبھی سرحد پار کرنے والے دہشتگردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

بھارت نے لائن آف کنٹرول پر خاردار باڑ لگا کر سرحدیں عبور کرنے کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ پاکستان بھی مقبوضہ کشمیر میں عملی مداخلت کی پالیسی ترک کر چکا ہے۔ یوں بھی چند لوگوں کو سرحد پار بھیج کر کسی مسلح جدوجہد کو فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کے باوجود بھارت پاکستانی ایجنٹوں کو مارنے کے دعوے کر کے، ان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم سے لے کر اس کے وزیر تک پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز اور نفرت بھرے بیان دے رہے ہیں۔ اس کا جواب اسلام آباد سے کشمیری تحریک کی کھل کر حمایت اور یوم آزادی کو کشمیری عوام کی آزادی کے نام کر کے دیا گیا ہے۔ تاہم اس دوران پاکستان کی طرف سے مذاکرات کےلئے بھی پیشرفت کی گئی ہے۔ بھارتی جواب کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملک رسمی ملاقات کے ذریعے فوری طور پر تصادم کی موجودہ کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ مستقبل میں ٹھوس اور جامع مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments