چمگادڑ کہاں کھڑا ہے؟


\"zafar

دانشوران کرام سے دست بدستہ گزارش ہے کہ ذرا ضمیر کا دیا جلا کر بتائیں کہ گزشتہ تیس سال ہم جس راہ پر گامزن ہیں اس میں نقصان کس کا ہوا؟ گزشتہ 69 سالوں سے یہی سن رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ نازک دور ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اس بیچ کسی ظلم پر، کسی ناانصافی پر، کسی خود احتسابی کے لئے کہیں سے آواز اٹھے تو دانشوران کرام فرماتے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں تو ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ صاحب ہم تو ہمیشہ سے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کس کے ساتھ ہیں اس کے بارے میں راوی خاموش ہے۔ کبھی ان سے بھی کہیے کہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ نقشہ سامنے ہے۔ بتائیں کیا کھویا کیا پایا؟

پشتو لوک داستانوں میں ایک داستان ہے کہ ایک بار جنگل میں پرندوں اور چرندوں کی کسی بات پر ٹھن گئی۔ صفیں آراستہ ہونے لگیں۔ چرند اپنے ہم جنسوں کے پاس صف بندی کے لئے جانے لگے اور پرندوں نے اپنی نسل کے اڑنے والوں کو پیغام بھیجے۔ ایک کوا آڑتا آیا تو چمگادڑ پر نظر پڑی۔ پاس آیا۔ بولا میاں چمگادڑ۔غدر مچا ہے۔ چرندوں اور پرندوں کی لڑائی ہونے والی ہے۔ پرندوں کے بادشاہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ اپنی نسل کو کہو ہماری مدد کو آئے۔ چمگادڑ تھوڑی دیر دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔ میاں کوئے۔ تم کبھی کسی پرندے کو بچے جنتا دیکھا ہے؟ کوے نے کہا نہیں۔ چمگادڑ بولا۔ یہ دیکھو میں نے کل چار بچے جنے ہیں۔ میں پرندہ نہیں ہوں بھائی صاحب۔ میں دراصل چوہا ہوں۔ بس یہ پر اضافی ہیں۔ کوا مایوس ہو کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد لومڑی آئی۔ بولی میاں چمگادڑ۔ تم ہماری نسل سے ہو۔ جنگل کے بادشاہ نے مدد طلب کی ہے۔چمگادڑ تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر بولا۔ بی لومڑی۔ تم نے کبھی کسی چرند کو اڑتے دیکھا ہے؟ لومڑی بولی نہیں۔ چمگادڑ نے پر پھیلائے اور بولا۔ تو یہ کیا ہیں؟ بی لومڑی میں پرندہ ہوں چرندہ نہیں۔

ہوا یوں کہ لومڑی نے شیر سے کہا۔ بادشاہ سلامت! یہ پرندے زمین پر تو آئیں گے نہیں۔ اور ہم ہوا میں اڑ نہیں سکتے۔ کیا خیال ہے مذاکرات کی کوشش نہ کی جائے؟ شیر نے تھوڑی دیر سوچا۔ پھر مان گیا۔ چرندوں کی طرف سے بندر اور پرندوں کی طرف سے کوا مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ جشن کی منادی کر ا دی گئی۔ شیر اور باز ایک میز پر دعوت اڑانے میں مصروف تھے کہ چمگادڑ پہنچ گیا۔ شیر کے قریب پہنچ کر سلامی دی اور کہا مبارک ہو بادشاہ سلامت۔ شیر نے منہ دوسری طرف پھیر کر کہا کہ میاں تم تو پرندے ہو باز کے پاس جاﺅ۔ ہم سے کیا لینا۔ چمگادڑ منہ لٹکائے باز کے باز پہنچا۔ ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ باز بولا۔ ہاں میاں پروں والے چوہے۔ تم کیا لینے آئے ہو؟

تو نقشہ سامنے ہےصاحب۔ کبھی اسامہ ہمارا تھا۔ اب القاعدہ ہمارا دشمن ہے۔کبھی طالبان ہمارے دوست تھے۔ اب جانے کیا ہیں؟ کبھی کرزئی دوست تھا۔ پھر ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ امریکی بیڑا چالیس برس پہلے سمندر میں کہیں راستہ بھٹک گیا مگر ہماری مد د کو نہ پہنچ سکا۔ ایف سولہ ملے ہیں نہ کولیشن سپورٹ فنڈ ملنے کا امکان ہے۔ ایران کے بارے میں دوستی کا دعوی جرم ہو گا۔ افغانستان کی سڑکوں ہمارے پرچم جلائے جاتے ہیں۔ بھارت تو خیر سے نصاب میں لکھا دشمن ہے۔ یو اے ای تک نے دھمکی دے دی۔ شاہان حرمین ناراض ہیں۔ سکول محفوظ نہیں۔ ائیر پورٹ محفوظ نہیں۔ یونیورسٹی محفوظ نہیں۔ ہسپتال محفوظ نہیں۔ کچہری محفوظ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ہم ٹھیک ہے۔ خیالوں میں اب بھی تلواریں چل رہی ہیں۔ مفروضوں اور خود ستائشی کا ایک انبار ہے جس میں قوم غوطہ زن ہے۔ نہ آگے کی بن رہی ہے اور پیچھے دیکھنا تو خیر سے ہمیں گوارا نہیں۔ دانشوران کرام ہیں کہ ابھی تک لال قلعے اور کابل پر سبز ہلالی پرچم لہرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر سویت یونین کی شکست پر جگالی کر رہے ہیں۔ اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اٹھنے والی ایک دو آوازوں سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ بھائی صاحب۔ گزارش یہ ہے کہ کبھی سچ کا سانس بھی لے لیں۔ اپنا گریبان بھی جھانکنے کے لئے ہوتا ہے۔خود احتسابی جرم نہیں ہے۔

دیکھیے دلیل نہ امید کے قلعوں پرچڑھ کر دی جاتی ہے۔ نہ آروزوں کے نقشے پھیلا کر دی جاتی ہے اور نہ ہی دلیل کے لئے جذبات ابھارے جاتے ہیں۔ جذباتی تجزیوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ گورباچوف کا ایک جملہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ مذہب کو انسان کا خوف قرار دینی والی ریاست کا سربراہ ایک بار چرچ گیا تو واپسی پر کہنے لگا۔ آج میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سچائی پر کسی ایک گروہ کا قبضہ نہیں ہوتا۔

سچائی پر قبضے کے دعوے سے باز آئیں اور سچ بولنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ سچ سے آنکھ چرانے سے چمگادڑ نہ چرند رہتا ہے اور نہ پرند۔ معلوم کرنا چاہیے کہ چمگادڑ کہاں کھڑا ہے؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments