بچوں کا عبدالستار ایدھی


’’خلق میں ایسے لوگ بھی ہیں جو غیر کے واسطے اپنا سکھ چھوڑ یں، اوروں کے کام میں دکھ بھریں ۔ فی الحقیقت دونوں جہان میں بھلے وہی ہیں، جینا مرنا بھی انھیں کا اچھا ہے۔‘‘

(آرایش محفل از حیدر بخش حیدری دہلوی)

یہ بات عبدالستار ایدھی پر پورے طور سے صادق آتی ہے۔ اس عظیم انسان کی توصیف میں بہت کچھ لکھا گیا، آنے والے وقتوں میں اور بھی لکھا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کی شخصیت اور کارناموں سے آگاہ کریں، اس کے لیے ہمیں معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ کے اس لکھے سے سوفیصدی اتفاق ہے ’’۔۔۔ سب سے پہلے تو ایدھی صاحب کا ذکر ہمارے سکولوں کے نصاب میں ہونا چاہیے، اگر یہ پہلے سے موجود ہے تو بہت اچھی بات ہے اور اگر نہیں تو ایدھی صاحب کی انسان دوستی پر مضامین نصاب میں شامل کئے جانے چاہییں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ 9جولائی کوسکولوں میں ایدھی ڈے منایا جانا چاہیے اور اس دن بچوں کو فلاحی کاموں کا پریکٹیکل کروانا چاہیے۔‘‘

عبدالستار ایدھی پر بچوں کے لیے دو عمدہ کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں، انھیں متعارف کرانے کا خیال ہی زیر نظر تحریرکا باعث بنا۔ ایک کتاب معروف ادیب اور صحافی انور احسن صدیقی کے قلم سے ہے، دوسری کتاب تصویری کہانی سلسلہ کی ہے، جس میں تصاویر اسلم بشیر، اور تحریر آمنہ اظفر کی ہے، جنھوں نے بچوں کے لیے بہت سی نصابی اور غیر نصابی کتابیں مرتب کر رکھی ہیں۔ یہ دونوں تصانیف جنھیں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے، بچوں کو ذہن میں رکھ کر تیار کی گئی ہیں مگر ان سے بڑے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں سے کشید کر کے ہم بچوں کو عبدالستار ایدھی کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں، لیکن اس سے پہلے ممتاز شاعر انور شعور کا یہ قطعہ پڑھ لیں :

جیسے اس دارِ فنا میں جئے ایدھی صاحب

ہم سے پوچھو تو حقیقت میں وہی جینا ہے

آدمی وہ ہے جو زندہ رہے اوروں کے لیے

صرف اپنے لیے جینا بھی کوئی جینا ہے

عبدالستار ایدھی کے ہاں انسانی ہمدردی کا جذبہ کسی خاص واقعہ سے متاثر ہوکر بیدار نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا سبق اولین انھیں بچپن میں اپنی والدہ محترمہ سے مل گیا تھا، جو انھیں جیب خرچ کے واسطے دو پیسے دیتیں تو ان میں سے ایک کسی ضرورت مند کو دینے کی تاکید کرتیں، اور پھر گھر واپسی پر اس سے متعلق پوچھا جاتا۔ بچپن میں وہ بانٹوا کی نواحی بستیوں میں دکھ درد کے ماروں سے ملتے، گھر پلٹنے پر اپنے تاثرات والدہ کو بتاتے تو وہ اپنی بساط کے لحاظ سے بیٹے کو ضرورت مندوں میں بانٹنے کے لیے سامان دیتیں۔ پیسے پس اندازکرنے کا گر بھی ایدھی نے والدہ ہی سے سیکھا جو شوہر سے روز مرہ خرچ کی مد میں ملی رقم کا کچھ حصہ بچا کر ایک برتن میں جوڑتی تھیں۔

سکول کے زمانے میں جب ایک دفعہ چند لڑکوں کو ذہنی طور پرمعذور شخص کو تنگ کرتے دیکھا تو ایدھی نے پہلے تو زبانی کلامی اس نازیبا حرکت سے منع کیا لیکن جب ان لڑکوں نے ایدھی کے کہے پر کان نہ دھرے تو وہ تنہا ان سے بھڑ گئے اور اس وقت تک لڑائی لڑے جب تک اس مجبور آدمی کو ان شریروں کے چنگل سے نجات نہ دلا دی۔ بیٹے کا یہ کارنامہ، ماں کے علم میں آیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔

ایدھی کی کامیابی کا اصل راز، لوگوں کے ان کی ذات پرکامل اعتماد میں پوشیدہ تھا۔ خلق خدا، ان پر اعتبار اوراعتماد کرتے ہوئے دل کھول کرچندہ دیتی۔ دیانت داری کا چلن بھی بچپن سے ان کے ساتھ چلا آتا تھا۔11 برس کی عمر میں کپڑے کی دکان پر ملازم ہوگئے، وہاں چند بدخواہوں نے ان پر چوری کا الزام لگا دیا تو دکان کے مالک نے اسے ماننے سے صاف انکارکر دیا، کیونکہ وہ جانتا تھا، ایدھی چور نہیں ہوسکتے۔

ایدھی زندگی بھر ہاتھ سے کام کرنے سے نہیں شرمائے ۔ بچپن میں پھیری لگا کر چیزیں فروخت کیں۔ پان بیچے۔کراچی میں ڈسپنسری قائم کی تو اس کی صفائی ستھرائی خود کرتے۔ آس پاس کی جگہوں پر بھی جھاڑو لگاتے یعنی ان کو خاکروب کا کام کرنے میں بھی عارنہ تھی۔ والدہ کی تقریباً آٹھ برس کی لمبی بیماری کے دوران انھوں نے گھر کا سارا انتظام خود سنبھال لیا۔ جھاڑو دینا، برتن دھونا، سبزی ترکاری کاٹنا، کھانا بنانا، یہ سب کام، ان نے اپنے ذمے لے لیے۔

ایدھی کی زندگی کے مطالعہ سے بچے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کے نام انھوں نے یہ خاص پیغام بھی دے رکھا ہے: ’’زندگی میں ترقی کے یہ چار اصول اپنا لیں: سادگی، سچائی، محنت اور پابندئ وقت، انشاء اللہ کامیاب رہیں گے۔‘‘

اور آخر میں چلتے چلتے یہ بات کہ ہمارے دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے جانوروں کو تنگ کرتے ہیں، اور انھیں ایذا پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایدھی کی زندگی اور کام سے سبق ملتا ہے کہ انسان ہی نہیں، جانور بھی ہماری ہمدردی اور پیار کے مستحق ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت ہسپتال میں بیماراور زخمی جانوروں کا علاج بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کے بانی کا یہ ایمان تھا:

’’میری خدمات خدا کی مخلوق کے لیے ہیں خواہ وہ انسان ہوں یا جانور۔ میری خدمات پر جانوروں کا بھی حق ہے، اس لیے کہ انسان کی طرح جانور بھی خدا ہی کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments