اسلام دشمنی میں اضافہ


\"edhi2\"یورپ اور امریکہ سے وصول ہونے والی مختلف رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ مغرب میں دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اس قسم کی نفرت میں اضافہ نوٹ کیا جاتا ہے لیکن اس میں دو باتیں تشویش کا سبب ہیں ۔ ایک یہ کہ لوگوں کی نفرت کا نشانہ اسلامی دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں داعش یا القاعدہ کی بجائے مسلمان اور اسلام بن رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران نیویارک میں ایک مسلمان امام اور ان کے ساتھی کا قتل اس رجحان کی نمائیندگی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار عام بات ہوگئی ہے۔ اس قسم کے پیغامات ان لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں جو نہ تو کسی مسلمان کو جانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کے بارے میں کوئی خاص معلومات رکھتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک تنظیم ڈیموس نے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران کئے جانے والے اسلام دشمن ٹویٹس کا جائزہ لیا ہے ۔ اس تنظیم نے بتایا ہے کہ جولائی کے دوران روزانہ اسلام دشمن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی ٹویٹس کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جولائی میں روزانہ سات ہزار سے زائد اسلام دشمن ٹویٹس روانہ کئے گئے۔ یہ اضافہ نیس میں دہشت گردی کے واقعہ اور ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد خاص طور سے دیکھنے میں آیا ہے۔ نفرت انگیز ٹویٹس بھیجنے والوں کی ذیادہ تعداد کا تعلق برطانیہ کے باشندوں سے ہے ۔ اس کے بعد نیدر لینڈ، فرانس اور جرمنی کا نمبر آتا ہے۔ تنظیم کے ترجمان کارل ملر نے واضح کیا ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف انگریزی زبان میں بھیجے گئے ٹویٹ پیغامات کے بارے میں ہیں ۔ دوسری یورپی زبانوں میں ٹویٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور اسلام دشمن پیغامات اور سرگرمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

برطانیہ ہی کی ایک دوسری تنظیم مساوات اور انسانی حقوق The equality and human rights نے بھی اس دوران ایک جائزہ جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں سیاہ فام اور نسلی اقلیتوں کے خلاف تعصبات میں تشویشناک اضافہ ہؤا ہے۔ ان جائزے کے مطابق سفید فام کے مقابلے میں کسی سیاہ فام یا دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو روزگار کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ذیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کسی سفید فام باشندے کے مقابلے میں سیاہ فام باشندوں کے تشدد کا نشانہ بننے کا امکان تین گنا ذیادہ ہو گیا ہے۔ ان دونوں جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ نفرت اور تعصب کے اظہار اور تشدد میں یہ اضافہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت ذیادہ ہے۔

اس دوران امریکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ نیویارک کے ایک بارہ سالہ معذور بچے کے مسلمان والدین نے ایک اسکول کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے ان کے کمسن بچے کو مجبور کیا کہ وہ یہ لکھ کر دے کہ ’میں دہشت گرد ہوں‘۔ حالانکہ یہ بچہ بارہ برس کا تھا اور وہ ذہنی لحاظ سے معذوری کی وجہ سے اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں باتیں سمجھنے کا بہت کم شعور رکھتا تھا۔ یہ واقعہ اسکول میں کھیل کے دوران اس کے ہم جماعتوں کی طرف سے اسے ’دہشت گرد ‘ قرار دے کر تنگ کرنے کے بعد پیش آیا۔ بچوں نے اس مسلمان بچے کو عاجز کرنے کے لئے اسے دہشت گرد کہنا شروع کیا اور پوچھا ’بتاؤ تم اب کس جگہ دھماکہ کرو گے‘ بچے نے کوئی بات نہ سمجھتے ہوئے جان چھڑانے کے لئے کہا ’ میں اسکول کی باڑ میں دھماکہ کروں گا‘ ۔ اس بات کی بھنک انتظامیہ تک پہنچی تو پولیس کو طلب کرلیا گیا اور بچے کو یہ لکھ کر دینے پر مجبور کیا گیا کہ وہ دہشت گرد اور داعش کا رکن ہے۔

اس قسم کے واقعات اور رجحانات یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے لئے حالات کو مشکل بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان رجحانات کے منفی اثرات کے بارے میں متنبہ کررہی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ابھی تک معاشروں سے اسلام دشمنی کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے برعکس انتہا پسند نعرے لگانے والی سیاسی جماعتوں کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments