صنف نازک پر نزاکت کا اضافی بوجھ


\"Sadia\"ابھی کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے کہ آپ کے اور ہمارے ایڈیٹر صاحب کا برقی پیغام موصول ہوا۔ ہم حسب معمول، حسب منشا اور حسب روایت اپنے شکن زدہ بستر پر آنکھیں نیم وا کئے پڑے تھے۔ قبلہ کا شکوہ بالکل بجا تھا۔ غیر حاضری پر تھوڑے نہیں خاصے برہم تھے، شکوہ بجا تھا۔ ابھی کل ہی آپ بھی تو یہی کہہ رہے تھے کہ سعدیہ تو دو بلاگ لکھنے کے بعد ہی یوں سستانے لگی کہ جیسے گھوڑوں کے سب ہی اصطبل بک چکے، کوہ سموری کے سب ہی قلعے فتح ہو چکے، عرب کے صحراؤں اور یورپ کے کلیساؤں میں بھی اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ چکی۔ لیکن حضور قبر کا حال تو مردہ ہی جانا کرے۔ آپ اور وہ کیا جانیں کہ اس چمن پر کتنی بجلیاں گر چکیں۔ جی میں فوری سے پیشتر انور مسود صاحب کا مشہور زمانہ وہی مصرع کودا

توں کی جانیں بھولیے مجھے نار کلی دیاں شاناں

لیکن دانستہ طور پر چوک گئے۔ صاحب گنہگار ہیں کافر نہیں۔ ابھی اتنے زیاں کار بھی نہیں کہ اپنی سستی جگت بازی کے پیچھے جو کبھی دو، چار کالم چھپ جاتے ہیں ان کا بھی گلا اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹ ڈالیں۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں ماریں بھلا۔ ایڈیٹر صاحب کو ناراض کریں ہمارے دشمن۔ مصنوعی ہنسی دکھاتے اور کھسیانے ہوتے دستی طور پر ایک کھڑکی توڑ کالم لکھنے کے قول و قرار پر خلاصی پائی۔

چلئے ایڈیٹر صاحب سے تو مروت کا رشتہ ہے۔ لیکن آپ سے کیا پردہ داری اور کیا دنیاداری۔ انہیں کیا بتاتے کہ  ہم تو اس قدر مصروف ہیں کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ آج کل تو ہماری والدہ ماجدہ بھی بات کم کرتی ہیں اور طنز کے نشتر زیادہ چلاتی ہیں (اور قسم لیجئے جو کوئی بھی نشانہ خطا ہوا ہو۔ ) کہ بھلا ایسی بھی کون سی فصل کاشت ہو رہی ہے جو یہ نالائق اولاد بات چیت سے بھی گئی۔ ذرا کان ادھر لایئے گا۔ ارے سب کے سامنے نہیں بتا سکتے نا۔ آپ کی ہماری راز کی بات ہے۔ سرپرائز دینا ہے یار۔ سمجھا کیجئے نا۔ آپ بھی بس۔۔

سرگوشی سنائی دی کیا؟ \’ڈائٹنگ\’ پر ہیں ہم۔ سارا دن ورزش اور ڈائٹ غذا کی تیاری میں یوں دن گزرتا ہے کہ پوچھیے ہی مت۔ دن اور دل دونوں یکایک ڈوب جاتے ہیں۔

ہمیں بھی معلوم ہے جو کہنے کو آپ کا دل مچل رہا ہے۔ لیکن آپ بھی بہت بےصبرے ہیں۔ بات پوری طرح تو سنتے نہیں۔ فوری سے پیشتر ہمارے کچھ رفقا کی طرح یہ کہنا نہ شروع ہو جایئے گا \’لو بھلا، تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے؟ \’ \’خدا کا خوف کرو بی بی۔ \’ \’تم موٹی ہو تو ہم کیا ہیں؟\’جان بوجھ کر کرتی ہو ناٹک۔ تمہارا سدا کا وطیرہ ہے۔ \’ اجی جتنے منہ اتنی باتیں۔ خدارا اب آپ بھی ایسا کچھ نہ کہئے گا۔ ورنہ ابھی جو دل پر منوں بوجھ ڈال کر جو گھاس پھوس کے موافق سلاد کھایا ہے خدا کی قسم انہی آنکھوں کے راستے بہنے لگے گا۔ خاکسار کے پیروں میں چھالے پڑ گئے اس صحرا کی تپتی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے اور آپ کہتے ہیں کہ اتنا کشٹ ہی کیوں؟ آپ کو میری آنکھوں کے گرد پھیلے حلقوں کی قسم، یہ ستم نہ توڑئیے گا۔ ہمارا دل ایک بار پھر ڈوب جائے گا۔ آپ نہ نکال پائیں گے ان عمیق گہرائیوں سے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم بچپن سے ہی اپنے نادیدہ وزن کو گھٹانے کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔ عمر یہی کوئی سات سال تھی جب یہ جملہ پہلی بار اپنے کانوں میں پڑا \’ارے اس کا کھانا پینا نظر میں رکھو۔ لڑکی ذات ہے۔ موٹی ہو جاوے گی تو کیسے سنبھالو گی؟\’ صحیح پہنچے۔ زمانہ قدیم یعنی بچپن سے کھانے پر یوں ٹوٹتے تھے جیسے کوئی پرانی دشمنی ہو۔

والدہ زیرک خاتون تھیں۔ ہماری خالہ کی پھوپھی ساس کی بہو کی منجھلی بہن کی اس دور اندیشی کو جھٹ سے بھانپ گئیں۔ ویسے ہماری رشتے کی ان خالہ نے کہا تو امی حضور سے تھا لیکن یہ سوچے بغیر کہ اپنے ننھے سے منہ کو مرغی کے ٹکڑوں اور کباب سے ٹھونسے بیٹھی یہ سات سال کی بچی نہ صرف سنتی تھی بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق سمجھتی بھی تھی۔ عمر بھی ننھی تھی اور دل اس سے بھی نازک۔ جھٹ سے سہم گیا۔ ابھی بھی وہ کیفیت یاد آتی ہے تو دل اچک کر پیٹ میں ڈوب جاتا ہے، بالکل اسی دن کی طرح۔ یوں لگا جیسے ابھی ہم سے یہ دونوں خواتین ہماری سب سے عزیز متاع چھین کر اس موذی عفریت موٹاپے کے حوالے کر دیں گی۔ یوں جانئے کہ اس طوفان کا پیش خیمہ سنایا گیا جو کبھی کسی نے دیکھا تو نہ تھا لیکن اس کی ہیبت سب پر آشکار تھی۔ سات سال کی اس ننھی بچی کو ایک لمحے کو تو یوں لگا کہ شاید موٹا ہونا جھوٹ بولنے سے بھی بری بات ہے۔ اور اگر ہم سے اس کا ارتکاب ہو گیا تو امی حضور اپنی ایڑی والی نئی جوتی سے بہت پیٹیں گی۔ کمرے سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہماری سات سالہ زندگی کا پہلا دن تھا جب والدہ نے ہمارے سامنے سے سموسوں سے بھری چینی کی نازک پلیٹ کھینچ لی تھی۔ آج بھی سوچتے ہیں تو آنکھوں کے ساتھ ہتھیلیاں بھی بھیگ جاتی ہیں۔

عام مشاہدہ یہی ہے کہ بچے ذرا سی بات پر رو پڑتے ہیں۔ مگر کتنے ہی آنسو پی جاتے ہیں یہ کوئی اس سات سال کی بچی سے پوچھے جس نے اپنے ننھے سے دل کو یوں بھینچا کہ جیسے ایک ماں اپنے تڑپتے بچے کو یکلخت سینے سے لگا لیتی ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ موٹاپے کے عفریت سے بچنے کی کوشش بھی بڑھتی گئی۔ صبح شام اپنی قمیض جسم پر چست کرتے کہ کہیں کمر پر گوشت نہ دکھنے لگا ہو۔ اسکول میں چلتے چلتے ایک دم سے رفتار بڑھا دیتے کہ شاید اسی بہانے ہاف ٹائم میں کھایا ہضم ہوجاوے۔ ٹی وی پر ہمیشہ گلاب سی نازک ہیروئن کو ہی اپنی سکھیوں کے طور پر دیکھا۔ کبھی کوئی فربہی مائل انسان دیکھا بھی تو کامیڈین کے روپ میں۔ کبھی اپنا مذاق اڑاتا اور کبھی اوروں سے اڑواتا۔ افسانوں میں بھی ہمیشہ عورت کو نزاکت کا پیکر ہی پایا کہ جیسے فربہ ہونا ہی نسوانیت کی اصل  تذلیل ہو۔ آخر کو صنف نازک جو ٹھہری۔

ارے، کیا کہا؟ اپنے بھاشن اپنے پاس ہی رکھیے صاحب۔ ہم سے یہ بوجھ نہ سہا جاوے۔ ہم تو یوں ہی اپنے پیر چھلنی کرتے رہیں گے۔ اپنی قمیض کو یوں ہی چست کر کر کے اپنی پشت پر چڑھتا گوشت ماپتے رہیں گے۔ یوں ہی گھاس پھونس کے موافق سلاد کو اپنے ہی خون کے آنسوؤں کے مشروب کے ساتھ کھاتے رہیں گے۔ صنف نازک ہیں، نزاکت تو برقرار رکھیں گے ہی۔

یہاں یہ بھی آپ کے گوش گزر کرتی چلوں کہ اس کہانی میں کوئی کردار فرضی نہیں۔ کسی سے بھی سچویشن سے مطابقت اتفاق نہیں، حقیقت ہے۔ یہ اس مصنوعی معاشرے کی ہر لڑکی کی کہانی ہے جس کی تمام عمر موٹاپے کے عفریت سے بھاگنے میں ہی گزر جاتی ہے۔ اس بھوکے ننگے معاشرے میں فربہی ایک ایسا نا قابل تلافی جرم ہے جس کی سزا عمر بھر کی تذلیل کا سنجوگ ہے۔ اجی ذہانت گئی تیل لینے! سوسائٹی کے مقرر کردہ معیار سے زیادہ تولی جانے والی عورت کو جینے کا حق ہی کیا ہے؟ لڑکی ہو تو نازک ہو ورنہ نہ ہو۔ بلکہ ہمارا تو یہی کہنا ہے کہ بہتر ہے نہ ہی ہو۔

اب آپ ہی دیکھئے گا، ہوائی اڈے پر ہمیں بھینچتے ہی والدہ ماجدہ فخر سے چمچماتی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے پہلا جملہ یہی کہیں گی \’ارے میری گڑیا تو بہت پتلی ہو گئی۔ دیکھنے سے ٹوٹتی ہے۔ کمال کر دیا مرے لعل۔\’ ہمارا خون بھی سیروں بڑھ جاوے گا۔

اب ایڈیٹر صاحب کیا جانیں کہ جو کچھ نہیں کرتے کمال ہی کیا کرتے ہیں۔

توں کی جانیں بھولیے مجھے نار کلی دیاں شاناں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments