انڈیا، مودی اور ارون دھتی رائے


\"Ejaz-Mangi\"آج ہم بھارت کی اس مڈل کلاس کی بات نہیں کریں گے جو سرکاری ملازمت کے لیے پریشان ہے۔ ہم اس مڈل کلاس کی بات نہیں کر رہے جو بیک وقت بارہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ ہم اس مڈل کلاس کی بات نہیں کر رہے جس کے وجود میں بھارت کسی بھوت کی طرح بستا ہے۔ یہ تذکرہ اس بھارتی مڈل کلاس کا ہے جو اپنے اتیت سے؛ اپنے ماضی سے دامن چھڑا کر اس دور میں اپنے دل اور دماغ کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جو انگلش میں سوچتی ہے۔ جو بہت محنت کرتی ہے۔ جس کو اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کا صرف اندازہ نہیں بلکہ مکمل علم ہے۔ وہ جانتی ہے کہ آج تک حکمران طبقات نے کس طرح دھرم اور کرم کے چکروں میں پھنسا کر ان کے آبا و اجداد کو پسماندہ رکھا۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جس کی لڑکیاں ’’مدر انڈیا‘‘ کی ہیروئن بن کر جینا نہیں چاہتیں۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جو تنہا ہے مگر اس نے تنہائی کو طاقت میں تبدیل کیا ہے اور اس کے لیے ریاست کوئی دیوی نہیں جس پر اپنے حقوق کا بلیدان چڑھایا جائے۔

وہ چکنے چپڑے نعروں میں آنے والی نسل نہیں۔ اس نسل کو’’ بھارت ماتا‘‘ کے نام پر بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ مڈل کلاس بیسویں صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے کی مڈل کلاس نہیں۔ یہ مڈل کلاس اکیسویں صدی کی مڈل کلاس ہے۔ یہ مڈل کلاس تاریخ کو ایک کامپلیکس کی طرح اپنا اعتماد چھیننے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ مڈل کلاس جس کی لڑکیاں اور لڑکے جینز پہن کر سکون کے ساتھ سوتے ہیں اور جو اپنے وطن میں جلاوطن بن کر جیتے ہیں۔ اس مڈل کلاس کوکوئی پروا نہیں کہ گاندھی کا گیان کیا تھا؟ یہ مڈل کلاس نہرو کی پیروکار نہیں۔ اس کی راہ اپنی ہے۔ وہ راہ جو اس مڈل کلاس نے چل کر بنائی ہے۔ یہ مڈل کلاس اس وقت سوا ارب بھارت میں اتنی تعداد کی مالک نہیں کہ سرکار اس کی مرضی سے وجود میں آئے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نہ ہوتے۔

\"modi-praying\"

وہ نریندر مودی جو اکھنڈ بھارت کی آخری ڈوبتی ہوئی صدا ہیں۔ وہ نریندر مودی جو وزارت اعظمی کے مسند پر بیٹھ کر خود بھی محسوس کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کا مستقبل تو کیا اس کا حال بھی نہیں۔ وہ بھارت کا ماضی ہیں۔ وہ ماضی جو زیادہ دیر تک زمانہ حال کو نہیں دبا سکتا۔ اب تو مودی کو پرائم منسٹر کی مسند پر براجمان کرانے والی قوتیں بھی سوچ رہی ہیں کہ شاید ان سے غلطی ہوگئی۔ کیوں کہ ایک سینئر ٹیچر کی طرح بھاشن دینا اور بات ہے مگر ایک ماڈرن اسٹائل سے دیس چلانا اور بات ہے۔ اگر آپ بھارت کی ماڈرن نسل سے پوچھیں گے کہ انہیں مودی کیسے لگتے ہیں ؟ تب وہ اپنے چہرے پر تھوڑی پریشانی بکھیر کر کہیں گے ’’ٹھیک ہیں۔ مگر تھوڑے پرانے پرانے ہیں‘‘۔

نیا بھارت نریندر مودی کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے گذشتہ ڈھائی برس نریندر مودی اور بھارت کی مڈل کلاس کا تعلق ایسا ہی ہے جیسا نریندر مودی اور ان کی دھرم پتنی جاشو دبن نریندرابائی کے درمیاں ہیں۔ جس طرح وہ پتی پتنی ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں؛ ویسے بھارت کی ماڈرن مڈل کلاس نے ایک پل کے لیے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے آدرشی کارکن اور لیڈر نریندر مودی کو اپنا پرائم منسٹر تسلیم نہیں کیا۔ اس بات کا احساس نریندر مودی کے دل میں گھر کر گیا ہے۔ اس لیے وہ بھی اس مڈل کلاس سے دور دور رہتا ہے جس مڈل کلاس کے بارے میں اس کو معلوم ہے کہ وہ اسے پسند نہیں کرتی۔یہ ایک حقیقت ہے نریندر مودی پہلی بار پاور میں نہیں آئے۔ اس سے پہلے وہ گجرات کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں مگر کہاں ایک ریاست کا سی ایم ہونا اور کہاں پورے بھارت کا پی ایم ہونا! نریندر مودی چھوٹے تالاب کی مچھلی ہیں ۔ پاور کے مہاساگر میں وہ اس طرح خوش نہیں جس طرح ان کا خیال تھا۔ اور یہ ناخوشی ان سے چھپائے نہیں چھپتی۔اگر کبھی کبھار مودی اقتداری توازن کھو بیٹھتے ہیں اس کا بنیادی سبب نہ امریکہ ہے نہ چین اور نہ پاکستان! اس کا سبب اس کی اپنی مڈل کلاس ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کے روکھے رویے سے مودی کو ایک مستقل ٹھیس پہنچ رہی ہے۔

\"rajkot-modi-mandir-pooja-1\"

اس مڈل کلاس کی ایک پرت ایسی بھی ہے جس میں جارحیت ہے۔ اس مڈل کلاس کے نظر نہ آنے والے دباؤ میں آکر بھارت کے ادیبوں ؛ شاعروں اور دانشوروں نے سرکاری اعزازات واپس کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ احتجاج نریندر مودی پر پہلا بڑا حملہ تھا۔ وہ مودی جن کا خیال تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے ہٹلر بن جائیں گے۔ ان کو یقین تھا کہ وہ پورے بھارت کو ہندو قوم پرستی کے سحر میں جکڑ لیں گے۔ جس طرح پوری جرمن قوم ہٹلر کے ایک اشارے کی منتظر ہوا کرتی تھی ؛ نریندر مودی کا بھی یہی خواب تھا۔ وہ خواب جو اقتدار میں آتے ہی کٹی ہوئی پتنگ بن گیا۔ اب مودی کے ہاتھ میں ایک ڈور ہے۔ جس سے وہ کسی کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ کو بھی نہیں!

یہ ایک گہرا صدمہ ہے۔ مگر اس کا کوئی مداوا نہیں۔ کیوں کہ انڈیا کی ماڈرن مڈل کلاس کو اپنے پردھان منتری سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ایک عبوری دور سے گذرنے کی وجہ سے اس کلاس کے اپنے بہت سارے مسائل ہیں ۔ وہ ابھی تک ان مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ وہ مڈل کلاس جو میڈیاکے سامنے کھلے ڈھلے انداز سے انگریزی لہجہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’ہمارے خواب مختلف ہیں۔ ہمیں اپنے خواب پیارے ہیں۔ ہم کسی اور کے خواب پورے کرنے کے لیے کوئی قربانی کیوں دیں؟‘‘ نریندر مودی محسوس تو کرتا ہے مگر وہ ماضی کی مورت ہونے کی وجہ سے یہ بات سمجھ نہیں پاتے کہ ان کے ملک کی مڈل کلاس ایسا کیوں سوچتی ہے؟ وہ مڈل کلاس جس کے لیے ہندو قومپرستی اور دیش بھگتی کا پرانا تصور ایک تنگ جوتے کی طرح ہے۔ کوئی جوتا کتنا ہی خوبصورت اور بیش قیمت کیوں نہ ہو! بھلے اس پر بڑا نازک کام کیا گیا ہو! لیکن اگر وہ تنگ ہے تو کس کام کا؟ ایک تو تنگ ہونے کی وجہ وہ تکلیف دیتا ہے اور دوسرا سفر کو مشکل بنا دیتا ہے!

\"arundhati-rai\"

بھارت کی جدید مڈل کلاس قدیم خیالات اورپیچیدہ احساسات کے مالک نریندر مودی سے قربت کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہے۔ اس مڈل کلاس کا خیال ہے کہ ملک کی بہت بڑی اور پس ماندہ آبادی کی وجہ سے اس جدید دور میں انہیں ایک ہندو شاؤنسٹ حکمران مل گیا ہے۔ وہ ہندو فاشسٹ حکمران جس کی وجہ سے جدید مڈل کلاس کا سیکولر بھارت خطرے سے دوچار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مذکورہ مڈل کلاس کبھی اس کو اگنور کرتی ہے اور کبھی اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کی نمائندہ سشما سوراج نہیں ۔ جو ارون دھتی رائے کی آواز میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ جو کہتی ہے کہ نریندر مودی کی سیاست سماج کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ وہ ارون دھتی رائے جو نہ صرف کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی گھسی پٹی سیاست سے واضع الفاظ میں بیزاری کا اعلان کرتی ہیں بلکہ اس کے لیے اروند کجریوال کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ میں بھی کوئی کشش نہیں۔ وہ ارون دھتی جو ماؤ باغیوں کی ہمدرد اور ان کے آواز کو پوری دنیا میں پھیلانے والی ہے ۔ وہ ارون دھتی جو بھارت میں بننے والے بڑے ڈیمز کی مخالف ہے۔ وہ ارون دھتی رائے جب کشمیر کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتی ہے۔ جب وہ کہتی ہے کہ ’’بھارت نے دنیا کی خوبصورت سرزمین کو دنیا کی خطرناک سرزمین بنا دیا ہے‘‘۔ وہ ارون دھتی جو بھارت کی ناراض اقوام کے گلے شکوے سننے کی حمایت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’ان کی باتیں صرف اس لیے نہ سنی جائیں کہ ان کا اظہار ان کے لیے باعث سکون بنا جائے۔ وہ سب کچھ کہہ کر ہلکے ہوجائیں۔ اس طرح ان کے جذبات کی توہین نہ کی جائے۔ ان کی پوری بات سنی جائے ۔ اور نہ صرف سنی جائے بلکہ سمجھی بھی جائے۔ اور ہو سکے تو محسوس بھی کی جائے!‘‘

وہ ارون دھتی رائے جو تاریخ کی کسی غلطی کو نظرانداز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جو گاندھی کے خلاف دلائل پیش کرتی ہے اور دلت لوگوں کے سیاسی اور سماجی مسیحا ڈاکٹر امبیدکر کی کتاب ’’دی ڈاکٹر اینڈ دی سینٹ‘‘ کا تفصیلی پیش لفظ لکھ کر ایک نئی بحث کی بنیاد رکھتی ہیں۔ وہ ارون دھتی رائے جو صرف اقتداری سیاست کرنے والی جماعتوں کے ہی خلاف نہیں بلکہ این جی اوز کو بھی بے رحم تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ جو بھارت کے مڈل کلاس کو ان کے ساتھ کی گئی تاریخی ناانصافی کی پوری کہانی سناتی ہیں۔ وہ ارون دھتی جو ریاستی مندر کی دیوداسی دانشور بننے کے بجائے ذات پات کے بنیاد پر سماجی حیثیت کا تعین کرنے والے سسٹم پر اپنے قلم کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔

بھارت کی ماڈرن مڈل کلاس کے افراد بلیک ان وائٹ اور گنگھریالے بالوں والی ارون دھتی کی باتیں بڑی محبت سے سنتے ہیں اور انہیں بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ غلط جگہ پیدا ہوگئے ہیں یا پھر نریندر مودی تاریخ اور جغرافیے کی غلطی سے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ وہ وزیر اعظم جو جدید نسل کو قدیم بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments