’’اب انتظارِ مہدی و عیسی بھی چھوڑدے‘‘


\"farnood\"پچھلی نصف صدی سے دنیا کا مولا جٹ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلسل دو ہی کام کیے جارہا ہے
جنگ کا مذہبی جواز پیدا کرنے کے لیے کفار تخلیق کرتا ہے
کفار کے پیچھے لگانے کے لیے مجاہدین فی سبیل اللہ تشکیل دیتا ہے
ایک عشرے تک مسلسل اسی سمت میں رہ کر الٹی زقند لگاتاہے اور پھر دو کام اور کرتا ہے
خود کے تشکیل دیئے ہوئے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیتا ہے
خود کے تخلیق کیے ہوئے کفار کو ان کے گرم تعاقب میں لگا دیتا ہے
جنگی چالوں کی اس الٹ پھیر میں جہاں اسے ضرورت پڑے وہاں حسب ضرورت ایک کام اور کرتا ہے
’’اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کی چھانٹی شروع کردیتا ہے‘‘
اس پورے منظر نامے میں عالمی طاقتوں کے لیے جو ہتھیار بالکل بے خطا ثابت ہوا ہے وہ مسلمان کا عقل و فہم سے عاری جذبہ ہے۔ مسلمان کا کندھا کرائے کی سیڑھی ہے۔ اس میں سالاروں کا معاوضہ کچھ دنیاوی ضروریات کی صورت بھی ہے البتہ لڑاکوں کا معاوضہ آخرت میں کیے گئے کچھ وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دودھ کی ایک نہر شہد کا ایک ڈپو اور ستر حوروں کا ایک حرم امریکہ ایسے الاٹ کرتا ہے جیسے جنت میں اسی کی حکومت ہو۔ دنیا میں فقط نعرہ تکبیر کی تیلی سلگا دو یہ جوان مسلم بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے گا۔ سفید ہاتھی کے ساتھ مل کے سرخ ریچھ سے متھا مارے گا پھر ریچھ کے ساتھ مل کر ہاتھی سے بھڑے گا۔ اسی کو یہ پلٹنے جھپٹنے اورپھر جھپٹ کر پلٹنے کے آرٹ سے بھی تعبیر کرے گا۔ اس رد و کد میں منافع اور خسارے کا اندازہ لگانے کے لیے جمع منفی اور ضرب تقسیم کرنے لگ جائے تو دنیا اسے مسلمان کیوں کہے؟ کسی بھی جنگ کے لیے اتنا سستا لڑاکا دستیاب انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی کو میسر رہا ہو۔ ان ہول سیل لڑاکوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ مر جائیں گے برباد ہوجائیں گے، مگر اسباب و عوامل پہ غور نہیں کریں گے۔ ہر بار کی رسوائیوں کے بعد سارا ملبہ خدا پر ڈالتے ہوئے کہہ دیں گے
’’یہ تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہے‘‘۔
آزمائش اور ذلت و ہزیمت کے اس طویل عرصے میں اگر عالمی منظر نامہ یا پھر خطے کی صورت حال نے انگڑائی لی، اور اسی پس منظر میں بہار کے کچھ جھونکے ڈالر پونڈ یورو یا ریالوں کو اڑاتے ہوئے اس طرف کو لے آئیں، تو بھی خود کو کرائے کا کارتوس ماننے کے بجائے خدا پر ہی الزام رکھتے ہوئے کہیں گے
’’یہ تو غیبی نصرت ہے‘‘
یہ اچھی نصرت ہے، جو شرق و غرب میں پھیلے سویت یونین کے حصے بخرے تو دس برس میں کردیتی ہے اور دیڑھ انچ کے مقبوضہ کشمیر میں برہمن کا حساب نصف صدی میں بھی نہیں چکا سکتی۔
دراصل!
فی زمانہ مذہب کی نفسیات یہی رہ گئی ہیں کہ جس قدر آپ راسخ ہوں گے اتنا ہی عقل کو زحمت دینے سے آپ اجتناب کریں گے۔ یہ سطر میں نے کسی افسانے سے نہیں چرائی بلکہ سامنے کی دیوار سے اکھیڑی ہے۔ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیجیئے،جس کی دستار باون گز کی ہوگی اسی کی للکار مضحکہ خیز ہوگی۔ جو جتنا گنہگارو سیاہ کار اور خطاکار ہوگا وہ معاملات میں اتنا ہی سمجھدار ہوگا۔ مشکل مگر یہ ہے کہ عقل و شعور سے عاری راسخ العقیدہ ہستیوں کا کہا اور لکھا ہی صحیفہ آسمانی کا درجہ رکھتا ہے۔ جب وہ اپنے مالکان کے لیے ’’ عالم کفر‘‘ کے خلاف شعوری وغیر شعوری جنگ لڑتا ہے تو اپنے گرد وپیش میں ہراس شخص کو بھی نشانے پہ لے لیتا ہے جو عقل کی تذلیل کسی صورت گوارا نہ کرتا ہو۔ یہ عقل و شعور کی مسلسل توہین کے ہی نتائج ہیں کہ ہم پاگل پن میں اپنا ہی وجود نوچتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے دانت اپنے ہی بازووں میں پیوست ہیں۔ المیہ یہ نہیں کہ منشیات کے عادی لوگوں کی طرح آپ اپنی ہی رگوں سے خون کھینچ بیچ کر افیم کا اگلا کوٹہ خریدنے پہ مجبور ہیں، المیہ یہ ہے کہ آپ سوچنے سے شعوری طور پہ انکار کر چکے ہیں۔ خود ہی نشیمن پہ بجلیاں گراتے ہیں اور پھر دنیا سے کہتے ہیں کہ میرے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ بتلایئے کتنا ماتم کیا جائے نرگسیت کی ماری اس شکست خوردہ قوم پر کہ جس کو ان کے اکابر نے صدیوں سے یہ کہہ کر تسلی دے رکھی ہے کہ
اے مسلمانو !
’’سوچنا نہیں، تدبر مت کرنا، تخمینہ مت لگانا، محنت سے دست کش رہنا، تم اپنی خدمات دنیا کے لیے بشارتوں کے عوض وقف رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا حضرت مہدی بس آتے ہی ہوں گے‘‘
انتظار کی یہ گھڑیاں، جو صدیوں کو محیط ہیں، کیا کچھ ہے جو اس میں نہیں گنوایا۔ آخر کو علامہ ایسوں کے اعصاب بھی کس بری طرح سے چٹخ جاتے ہیں

مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
اب انتظار مہدی وعیسی بھی چھوڑ دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments