سائیں مراد علی شاہ کے نام کھلا خط


\"Sarwat

سندھ کی نویلی سرکار کے بیس دن ، نووارد وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سر تا پا شہریوں میں اِن ۔ جی ہاں ! پہلے دن سے لے کر اب تک مراد علی شاہ بہت تیزی سے صوبائی صورت حال کا جائزہ لینے شہر شہر دوروں ہر ہیں ۔ سندھ پولیس و رینجرز کی تعیناتی و اختیارات کے معاملے پر اپنا کردار ادا کیا ۔ کراچی کی بارش میں سڑک پر جمع پانی میں بھی اترے اور شہر میں جاری صفائی آپریشن کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا ۔ سی ایم ہاؤس کے اطراف سیکیورٹی کے نام پر کھڑے کنٹینرز ہٹوا کر عوام کو ٹریفک مسائل سے نجات دلائی ۔ اپنے سرکاری پروٹوکول میں کمی کردی ۔ شجرکاری مہم کے آغاز پر پودا بھی لگایا تو لیاری میں فٹ بال ٹورنامنٹ میں گول کرکے اپنے کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا۔ سڑک کنارے چائے خانے سے پراٹھے کا ناشتہ کرکے عوامی کہلائے اور میڈیا کی توجہ کے ساتھ ساتھ اور عوام کے دل بھی جیت لیے ۔ شاہ صاحب مختلف سرکاری اداروں کی متعلقہ انتظامیہ کے سربراہوں کے ساتھ میٹنگز اور بیانات کے باعث نمایاں ہیں ۔ نہ صرف پھرتی سے احکامات جاری کرتے ہیں بلکہ اقدامات اور پیش رفت پر بھی کڑی نظریں رکھے ہوئے ہیں ۔ پھرتی سے یاد آیا، پھرتیوں کے لیے مشہور خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کی اپنے صوبے کے عوامی معاملات و مسائل میں اعلیٰ کارکردگی پر واہ واہ مچی ہوئی ہے ۔ ایسا نہیں کہ وہاں مسائل نہیں مگر ایسا ضرور ہے کہ پنجاب حکومت ایکشن لینے پر آجائے تو پھر وہ مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہ پاتا۔

گذشتہ ماہ سے لاہور اور قریبی اضلاع سے بچوں کے لاپتہ، اغواء اور گمشدگی کے واقعات کی خبریں بہت نمایاں ہیں ۔ لاپتہ بچوں کے حوالے سے خادم اعلیٰ نے اسٹیرنگ کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے اور احکامات جاری کیے کہ بچوں کے تحفظ میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے ۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سال 2015 سے 2016 کے دوران 1134 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 1093 بچے برآمدگی کے بعد گھروں کو واپس بھیج دیئے گئے ۔ رپورٹ کے مطابق لاپتہ بچوں میں سے اکثر بچے خود گھروں کو چھوڑ گئے تھے، انہیں اغواء نہیں کیا گیا تھا ۔ لاہور کے بعد یہ خبر کراچی اور حیدرآباد میں بھی خوف کے پنجےگاڑ رہی ہے ۔ اس موقع پر ان عوامل کو بھی نظر انداز کیا جانا درست نہیں ہوگا کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے کوئی بچہ اپنا گھر اور والدین کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے ؟

\"lost-children-of-the-sea\"

کراچی میں بچوں کے اغواء اور گمشدگی کے بارے میں حالیہ افواہوں کے بارے میں کراچی پولیس چیف مشتاق مہر نے بتایا کہ بچوں کے اغواء سے متعلق افواہیں شہر میں محض پولیس کی کارکردگی کو متاثر کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں ۔ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ۔ عوام ان خبروں اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہوں پر کان نہ دھریں اور بچوں کو اسکول اور پارک جانے سے نہ روکیں ۔ سوال یہ ہے کہ سائبر کرائم بل قومی اسمبلی میں منظور ہونے اور اس کی متعین سزاؤں کے باوجود بے لگام سوشل میڈیا بالکل بھی نہیں سہما، بلکہ بے بنیاد خبریں یعنی جھوٹ ہمارے معاشرے میں اب مزید تیزی سے نہ صرف پھیل رہا ہے بلکہ عوام کی بڑی تعداد اس پر اندھا دھند یقین بھی کررہی ہے ۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد بغیر صبر اور تحقیق کے چند لمحوں میں خبر شیئر کررہی ہے ۔ یعنی میں اور آپ اسمارٹ فون کے ذریعے معاشرے میں جھوٹ پھیلانے کے لیے استعمال ہورہے ہیں ۔ ملک کے دو بڑے صوبے تقریبا ایک سے مسائل سے دوچار ہیں جن کا براہ راست تعلق بچوں سے ہے یعنی ہمارے مستقبل کے معماروں سے ہے ۔ اب وہ وقت سر پر ہے کہ ہمارے حکمران، سیکیورٹی ادارے اور ہم عوام خود اس مسئلے کو مزید بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو گھر میں محفوظ ماحول فراہم کریں ، والدین بچوں پر غیر ضروری روک ٹوک،بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں ۔ سماج میں انہیں بے خوف و خطر آزادانہ فضاء میں جینے کے مواقع فراہم کریں تاکہ نا پختہ ذہن گھر جیسی محفوظ پناہ گاہ سے نکل کر کسی سنگین مسئلے کو گلے نہ لگا لیں ۔

کسی بھی معاشرے میں مسائل یا پریشانیوں کا ابھرنا کوئی خاص بات نہیں یہ تو موقع اور حالات دیکھ کر کہیں بھی سر اٹھا لیتے ہیں ۔ خاص بات تو تب ہو جب اس مسئلے کی تشویشناک صورتحال کا بروقت احساس کیا جائے، اور اس مسئلے کو روکنے اور پھر جڑ سے ختم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے ۔ دورِ جدید میں سندھ کی صوبائی حکومت کو جدید اور تیز ترین وزیر اعلیٰ میسر آگئے ۔ جناب کو چند روز کے اندر سندھ کے مسائل نظر بھی آگئے اور آپ نے قبول بھی کیا کہ ہاں سندھ مسائل کا گڑھ تو برسوں سے ہے اور ان مسائل کا حل کابینہ اور عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔ خاص طور پر معاشی ہب ، کراچی تو کوڑے کے ڈھیر میں کہیں منہ چھپا کر کب سے منتظر ہے کہ کوئی آئے جو اس کی حالت سدھارے ۔ اسے سنوارے ، اس کی کھوئی ہوئی شناخت ،اس کا امن ، اس کی روشنی، اس کی رنگینیاں اسے واپس کرے ۔

\"murad-ali-shah-2\"

بات جب دورِ حاضر کے تقاضوں اور ضروریات یعنی سوشل میڈیا کی چل پڑی ہے تو خیال آیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے گدی سنبھالتے ہی تمام انتظامی اداروں کے سربراہوں سے مسلسل رابطے میں رہنے اور احکامات جاری کرنے کےلیے واٹس ایپ پر ایک گروپ بنایا تھا ۔ سابق صوبائی وزیر خزانہ کو اب شہر میں ہر طرف کچرے کے خزانے نظر آنے لگے تو ماضی میں میڈیا سے دور بھاگنے والے وزیر نے پرانی روایت توڑی اور کھل کر بیان دے ڈالا ۔ کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کے لیے پرعزم مراد علی شاہ نے بلدیہ افسران کی کارکردگی سے نامراد اور نالاں ہوکر حکم جاری کردیا کہ کل سے بلدیہ کے افسران اپنا دفتر کچرے کے اسی ڈھیر پر لگائیں جسے ہٹانےمیں وہ ناکام نظر آرہے ہیں ۔ جذبات میں آکر عوام سے ایک گذارش بھی کر ڈالی ۔ مراد علی شاہ نے کہ دیا کہ عوام کو سندھ حکومت سے متعلق جو بھی مسئلہ ہو، اسے لکھ کر بھیجیں ۔ ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اسے پڑھیں گے ۔ چلیں سرکار، کوئی بات نہیں ، وائی فائی کے دور میں ہم قلم سے آپ تک حالِ سندھ پہنچائیں گے ، واٹس ایپ اور برقی خطوط کے دور میں ہم آپ کو چٹھی ارسال کرنے کو بھی تیار ہیں ۔ بس التجا صرف اتنی ہے کہ ہم عوام کے مسائل ناکام عاشق کے محبت ناموں کی مانند کسی کچرے کے انبار کی صورت نہ اختیار کر جائیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments