کیا جی ڈی پی کا ہندسہ ترقی ناپنے کا درست پیمانہ ہے؟


گھر کی عورت زمانہ قدیم سے لیبر فورس میں ہے لیکن وہ پیسے کمانے کی بجائے بچا رہی ہے جو کہ جی ڈی پی میں شامل نہیں کیا جاتا۔ بزرگوں کا خیال، بچوں کا پالنا، کھانا پکانا، گھرداری، کپڑے سینا سب کام ویلیو یا قدر بناتے ہیں لیکن جی ڈی پی کا زور صرف تنخواہ کما کر لانے پر ہوتا ہے۔ اگر یہ کام پیسے دے کر کروانے پڑ جائیں تو تب اندازہ ہو کہ گھر میں کام کرنے والی سُگھڑ خواتین کتنی بڑی معاشی ذمہ داری سرانجام دے رہی ہیں۔

اب چونکہ جی ڈی پی اس کام کی قدر کو حساب میں نہیں لاتا تو اگر عورت اپنے گھر کام کرتی ہے تو جی ڈی پی پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر دوسرے کے گھر کام کرے گی تو تنخواہ لے گی اور جی ڈی پی بڑھے گا۔ یہ مسئلہ دراصل قیمت اور قدر کے فرق کا ہی ہے۔ حالات تو تقریباً ایک جیسے رہیں گے لیکن ملک ’ترقی‘ کر رہا ہو گا۔ جی ڈی پی بڑھانے کی کوشش میں ماہرین معاشیات نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جنہوں نے عورت کو گھر سے باہر نکل کر نوکری اور تنخواہ یا کیش منافع کمانے کی ترغیب دی اور consumerism کو فروغ دیا۔ نتیجے میں مغرب میں فیملی کا یونٹ بالکل تباہ ہو چکا ہے اور اب مشرق بھی اسی روش پر چل نکلا ہے۔ جی ڈی پی ضرور بڑھائیں لیکن ایسی پالیسیوں سے نہیں کہ جن کے ذریعے بڑھاتے بڑھاتے مغرب، جاپان اور کوریا والا حشر ہو جائے جہاں فیملی، شادی اور بزرگوں کے خیال کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

جی ڈی پی کے نقائص کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اگر آپ کم کماتے ہوں لیکن بچت کر کے تھوڑے میں گزارا کر لیں تو جی ڈی پی کم ہو گا لیکن اگر آپ دن رات اندھا کام کر کہ زیادہ کمائیں اور برانڈڈ کپڑے خریدیں، اچھی گاڑی چلائیں اور باہر مہنگا کھانا کھائیں تو جی ڈی پی بڑھے گا۔ حتیٰ کہ آپ بنک سے قرضہ لے کر پیسہ اُڑائیں تو بھی جی ڈی پی بڑھتا ہے۔ اسی وجہ سے جی ڈی پی تو سنگاپور کا بہت زیادہ ہے لیکن میاں بیوی دن رات کام کر کے بھی بچے افورڈ نہیں کر پاتے۔

سیلاب آنے کی صورت میں انفراسٹرکچر تباہ ہونے سے جی ڈی پی کم نہیں ہو گا بلکہ دوبارہ تعمیراتی کام سے بڑھے گا۔ نیو یارک ٹائمز نے ایک کارٹون شائع کیا جو زیادہ جی ڈی پی شخص اور کم جی ڈی پی شخص کی عکاسی کرتا ہے۔ زیادہ جی ڈی پی شخص زیادہ کماتا ہے اور زیادہ خرچ کرتا ہے اور کم جی ڈی پی شخص کم کماتا ہے اور مختلف طریقوں سے بچت کر کے گزارا کرتا ہے جیسا کہ ہیٹر آن کرنے کی بجائے جرسی پہن لے، اے سی آن کرنے کی بجائے صحن میں سو لے، باہر کھانا کھانے کی بجائے گھر میں پکا لے وغیرہ وغیرہ۔

اب اخبار یہ کہتا ہے کہ معاشی طور پر تو زیادہ جی ڈی پی شخص بہتر ہے لیکن کیا وہ کم جی ڈی پی شخص سے بہتر زندگی گزار رہا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب شاید نفی میں ہے۔ ماحول کی تباہی کا جی ڈی پی پر کوئی اثر نہیں پڑتا لہذا گورنمنٹ اور پالیسی ساز ماہرین معاشیات اس پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش جس کی مثال ہم ہر وقت سنتے ہیں کا زیر زمین پانی آرسینک سے شدید آلودہ ہو چکا ہے اور بہت بڑی تعداد میں اموات اسی وجہ سے ہو رہی ہیں لیکن جی ڈی پی تو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان بھی ماحول کی تباہی میں کچھ پیچھے نہیں اور اگر ماحول کی قیمت لگائی جا سکے (جس پر بہت سے ماہرین معاشیات کام کر رہے ہیں ) تو شاید دنیا دراصل تنزلی کا شکار ہی دکھائی دے گی۔

1974 میں ماہر معاشیات رچرڈ ایسٹرلن نے اس معمے پر کام کیا کہ اگرچہ امیر ملکوں کے عوام زیادہ مطمئن ہوتے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی خوشحالی عوام کو زیادہ اپنی زندگی سے خوش نہیں کرتی۔ چین کی جی ڈی پی کی شرح نمو کی مثال ہمارے موجودہ وزیر اعظم بھی دیتے ہیں، لیکن اقوام متحدہ کی عالمی خوشی سروے کے مطابق چین میں خوش رہنے کی سطح غربت کے پرانے دور سے نیچے چلی گئی ہے اور روس اور حتی کہ جنگ سے تباہ شدہ لیبیا سے بھی نیچے۔

چین کا جی ڈی پی 1990 سے اب تک فی کس پانچ گنا بڑھ چکا ہے لیکن خوشی ناپنے کے سروے اس کا لیول 1990 سے نیچے بتا رہے ہیں۔ ماہرین معاشیات تو کہتے ہیں کہ سیاحت کو فروغ دینے سے ملک ترقی کرتا ہے (جی ڈی پی بڑھتا ہے ) لیکن بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک نے سیاحت پر پابندی لگا رکھی ہے جو کہ ماحول کو تباہ کرتی ہے اور رہنے والوں کا خوشی کا لیول نیچے لے جاتی ہے۔ جسے ماہرین معاشیات خوشحالی کہتے ہیں وہ مادی بہتر حالی تو ہوتی ہے لیکن روحانی و ذہنی مسائل پیدا کر کے خوش نہیں رہنے دیتی۔

موقر انگریزی جریدہ دی اکانومسٹ بھی اپنے جون 2018 کے شمارے میں جی ڈی پی پر شدید تنقید کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان مسائل کا فوری حل کیا جائے ورنہ جی ڈی پی کی بنیاد پر تیار کیے گئے حل عوام کے لئے مزید مشکلات کا ہی باعث بنیں گے۔ اکانومسٹ مزید کہتا ہے کہ نقادوں کی طرح ماہرین معاشیات بھی سمجھتے ہیں کہ چیز کی صرف قیمت جاننا کافی ہے لیکن یہ سوچ ان کے نتائج کو غلط طرف دھکیل دیتی ہے اور ان کے دیے گئے حل، انسانیت کے مسائل سے مطابقت چھوڑ جاتے ہیں اور مزید مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

اب ہمارے پالیسی سازوں اور ٹاک شوز ماہرین معاشیات کو بھی چاہیے کہ وہ تصویر کا ہر رخ بیان کریں نہ کہ صرف جی ڈی پی کی پوجا کرتے کرتے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیں۔ جی ڈی پی بڑھانا غلط نہیں لیکن اس میں وہ پالیسیاں استعمال کریں جو دوسری طرف سے نقصان نہ پہنچائیں جسے جی ڈی پی ناپ نہیں ریا۔ ابھی بھی خاندانی اقدار اور بچت کی عادات کی وجہ سے ہم مغرب کی تباہی تک نہیں پہنچے لیکن اگر بغیر سوچے سمجھے ہم اس راستے پر چلتے گئے تو سب چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ترقی ایک سراب کی مانند دود سے دور بھاگتی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2