حاضر (سائیں اختر) اور غائب (سائیں مرنا )


\"erujچوک مزنگ بازار میں ہمارے ماضی کی چند مشہور دکانیں آج بھی موجود ہیں مگر وہ لوگ نہیں رہے جو اپنے کام، نیت اور مزاج کے سبب دوسروں سے مختلف تھے اور آج بھی کبھی کبھار خوابوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ بیچ چوک چھوٹے گوشت کی دوکان اپنے سرخ فرش کے سبب لال تھڑے کے نام سے موسوم تھی، بقول ابا ”جنہیں گوشت کی پہچان نہ ہو ان کے لیے یہ بہترین دوکان ہے“۔ وجہ اس کا اچھا مال لانا اور صحیح تول تھا۔ خاموشی سے اپنا کام کرتے اور صرف کارندوں سے خواتین کی غیر موجودگی میں ایک لفظ کی گالی سے مخاطب ہوتے، آدھ پاﺅ سے سوا سیر کے گاہک تک ایک جیسا سلوک کرتے اور مین میخ نکالنے والے کے اعتراض پر ٹوکے کو کونڈی پر زور سے گاڑ دیتے، ہاتھ جھولی میں سمیٹتے جیسے اب کبھی کام نہ کریں گے پھر چشم خانوں سے آنکھیں باہر کو نکالتے ہوئے کہتے ”کل ایک سو بہترروپے کا گھاٹا پڑا ہے“ بس تبدیلی پچاس سے بہتر روپے کی گنتی کے بیچ ہوتی رہتی۔ کبھی کبھار اگر کوئی گاہک پلاسٹک کا ایسا ولایتی لفافہ جس کے آر پار نظر آتا ہو گوشت کے واسطے لے آتا تو ناراض ہوتے ”سودا نظروں میں لاﺅ گے کیا؟ سو کتا، بلا راستے میں کھڑا ہوتا ہے، یہاں کتے بلے سے مراد ایک خاص قسم کے لوگ تھے جو آج اتنی پھیل چکی ہے کہ ان کے درمیان انسان کی تلاش جوکھم کا کام ہے۔ ان کے برابر صوفی نان کلچے کی دوکان تھی، سادہ اور داس کلچے صبح کو برائے ناشتہ لگتے، چار آنے کا ایک اور ’پانچا، یعنی پانچ کلچے ایک روپے کے، برابر میں ستارہ کمپنی کے بنے دسترخواں بھی اسی بھاﺅ ملتے۔ یاد رہے کہ اس دور میں صبح سے مراد چار سے سات بجے کا دورانیہ تھا۔ روٹی لگانے کو پنجابیوں کا کام جانتے۔

صوفی صاحب کے ایک برخوردار میرے ہی دور میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے طالب علم تھے، نواز بھائی خوش شکل،\"saakoo خوش خوراک اور ضرورت سے زیادہ خوش لباس تھے۔ موسم سرما میں تھری پیس اور گرمیوں میں سفاری سوٹ پہنتے،  رومال کی جگہ سفید کاغذ کو رومال کی شکل میں اڑس لیتے اور کبھی کبھار اس پر نوٹس بھی لے لیتے۔ پروفیسر صاحب کے استفسار پر ہمیشہ فرماتے ”یہاں سے مجھے سیدھا ایک فنکشن میں جانا ہے“۔ ایم اے سیاسیات، سوشیالوجی، فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ میں ہمارے بیشتر دوست ایسے ہی تھے، محبت محبت کھیلتے، لتا او ر رفیع کو سنتے، گاتے اور ہم معاشیات پڑھنے والوں کو دنیا سے بے خبر گردانتے۔ ایک دفعہ ہمارے ڈیپارٹمنٹس نے چھانگا مانگا جانے کا منصوبہ بنایا۔ قیمے کے نان اور دہی پر اتفاق ہوا۔ کئی لڑکوں نے اپنے اپنے علاقے کی دوکان کے مال کو بڑھیا بتایا مگر فیصلہ نواز بٹ کے ایک جملے سے ہوا ”جناب میرے ابا کی نانوں کی دوکان ہے، میں لال تھڑے والے سے ہاتھ کا کٹا قیمہ اپنے سامنے بنوا کر اپنے ابا اور بھائی کے ہاتھوں سے نان لگواﺅں گا۔ صوفی صاحب کی دوکان کے برابر ایک سائیکلوں کی دوکان تھی جس کے اندر بہت عمدہ ریڈیو تھا جو ہمہ وقت بجتا رہتا، ہاں کرکٹ میچوں کے دوران اس کا رخ باہر کھڑے عوام کی طرف ہو جاتا، ساتھ میں ایک کالے رنگ کا بورڈ لٹکایا جاتا جس پر مستقل الفاظ پکے رنگ سے اور چاک سے جاری میچ کے کھلاڑیوں کے نام لکھے جاتے وکٹ پر موجود کھلاڑی کے نام کے آگے رنز درج کیے جاتے یعنی ایک جمع دو جمع تین وغیرہ چار کا ہندسہ کبھی کبھار اور چھکا تو صرف مہمان کھلاڑی یا ہمارے خوفزدہ باﺅلرز آر یا پار کے اصول پر لگاتے۔ بورڈ کے نچلے حصے میں باﺅلرز کے نام کے آگے ان کے دئیے گئے رنز اور وکٹیں درج ہوتیں ایک دفعہ چھٹی کے روز امی نے مجھے قیمہ لانے کو کہا میں نے ان سے احتیاطاً  پندرہ منٹ مانگے کہ حنیف محمد نناوے رنز پر تھے بیس منٹ بعد امی کی ڈانٹ پر میں سائیکل پر لال تھڑے پہنچا۔ قیمے کے لئے کہا اور ”اپنے سامنے بنوانا“ کے حکم کو نظر انداز کیا اور سائیکل والے انکل کی دوکان کے باہر تشنج زدہ خاموش ہجوم میں شامل ہو گیا بورڈ پر حنیف محمد کے نام کے آگے ہنوز نناوے رنز درج تھے ۔ گرمیوں کے دن تھے لال تھڑے والے انکل نے آواز لگائی، ”گرمی ہے قیمہ جھلی میں لپیٹ دیا ہے جلدی لے جاﺅ“ تیز تیز پیڈل گھمائے، گھر پہنچا، اللہ کا شکر ہے کہ حنیف محمد نے میرے گھر پہنچنے کے بعد ہی اپنا سینکڑا مکمل کیا مگر میں سائیکل والے انکل کی دوکان کے باہر کھڑے لوگوں کی تالیوں میں شامل نہ ہو سکا۔

میرے اسی تاریخی چوک میں ایک دوکان کالے پہلوان کی تھی دودھ دہی اور جلیبی کا کاروبار تھا، وہ کالے بالکل نہیں تھے، طویل قامت اور\"sakoo\" وجود جنوں جیسا، بہت بعد معلوم ہوا کہ کالے انکل کا نام پہلوانی میں بہت بونا تھا۔ میں نے بھولو پہلوان کو ان کے ذاتی تانگے کی پچھلی گدی پر پھیلے ہوئے بھی دیکھ رکھا ہے اور ان کے پٹھوں کی کشتیاں بھی، چند کشتیاں تو کوئنز روڈ پر واقع خشک تالاب جو بڑی گھڑی والے فائر بریگیڈ اسٹیشن کے سامنے تھا اور بعد میں مچھلیوں کے شکار کا تالاب بنا دیا گیا تھا اپنے گھر کی چھت سے دیکھی تھیں، کشتی دس منٹ کی جو اکثر برابر ہوتی اور ڈھول بتاشا ایک گھنٹے کا، بعد میں پہلوان لنگوٹ پر بندھی رومالی میں ہجوم سے داد کے طور پر سکے اور نوٹ اکٹھے کرتا۔ افواہ عام تھی کہ نوٹ دینے والے لوگ دنگل کے ٹھیکیدار نے خود بٹھا رکھے ہوتے تھے جو دوسرے شائقین کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ایک رات جو آج کل کی شام کہلائے گی، میں ایک ڈھکن والے ڈول میں دودھ جلیبیاں لینے کالے پہلوان کی دوکان پر اپنی سائیکل پہ گیا۔ اس پیتل کے ڈول کا ڈھکن اپنے اطراف لگی ٹکٹکیوں کے سبب ”پڑک“ کی آواز کے ساتھ بند ہوتا اور اندر کا سامان محفوظ رہتا۔ ظاہر ہے سائیکل ایک ہاتھ سے چلانے کا تجربہ مجھے تب تک ہو گیا ہو گا اور میری عمر ہوگی غالبا بارہ تیرہ برس مگر میرا قد اس وقت اپنے ابا کے کندھے سے اوپر نکل چکا تھا۔ دودھ میں بھیگی جلیبیاں کالے پہلوان سے خرید کر نکلا ہی تھا کہ ایک گلی سے لڑکھڑاتا ہوا سفید کرتے پاجامے میں ملبوس منخنی قد کا مالک ”استرا“ برآمد ہوا اور میری سائیکل سے ٹکرایا۔ سائیکل کے نیچے میں اور ڈول ”کڑک “ کی آواز کے ساتھ کھل کر سڑک پر، استرا بھائی لہرا رہے تھے اور ہندوستانی اردو بھی ان کے منہ سے بل کھاتی بہہ رہی تھی، میں سائیکل کے نیچے سے گھسٹتا ہوا نکلا اور کالے پہلوان کے پاس پہنچا، قصہ بیان کیا انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے یوں وہ مجھے بہت عظیم لگے ”ببو کاکا اپنا وجود تاں ویکھ مار ایس۔۔۔ نوں“ میں جھجھکا تو وہ چیخے ”مار ایس ۔۔۔ نوں“ چند منٹ کے بعد میں فتح سے سرشار دودھ جلیبی سمیت گھر لوٹا ۔۔۔۔ کسی سے ذکر نہیں کیا مگر بازار کئی روز تک نہیں گیا پھر اتفاقا شفیق بھائی کی دوکان پر جنہوں نے میرے پیدائشی بال مونڈھے تھے استرا بھائی سے ملاقات ہوئی میں حواس باختہ ہوا مگر استرا بھائی نے بزرگی لہجے میں کہا ”ابا جان کو ہمارا سلام کہنا“ احساس ہوا کہ وہ اس دن گہرے نشے میں تھے اور کچھ برس بعد یہ جان کر افسوس ہوا کہ استرا بھائی نے کسی منہ ماری کے دوران حجام کی دوکان سے استرا اٹھا کر لہرایا تھا اور یہ نام کمایا تھا۔ کالے پہلوان کی دوکان میں ان کے آباﺅ اجداد کی تصاویر جس میں انہوں نے اپنے سر سے بڑے گزر تھام رکھے تھے، دیوار پر جڑی تھیں، اس دوکان کے برابر فلمی گیت اور ان کی کہانیاں بیچنے والا ایک ہی لے پر سبھی گیت گاتا دکھائی اور سنائی دیتا مجھے ”نورجہاں کی کہانی خود اس کی زبانی بمعہ تصاویر“ کا کتابچہ یاد ہے جو میں شاید خرید نا بھی چاہتا تھا، ”ایک آنہ لائبریری“ کے یہاں بیشتر وہ کتابیں نظر آتیں جو ابا کی تربیت کے زیر اثر میری نگاہ سے گر چکی تھیں۔

کالے پہلوان سے خاصے فاصلے پر ڈاکٹر محبوب عالم کا کلینک تھا، میں نے آج تک ان جیسا موٹا مگر پھرتیلا ڈاکٹر نہیں دیکھا وہ گلبرگ میں\"mirna\" میرے ماموں کے گھر کے نزدیک رہتے تھے بس پر مین مارکیٹ گلبرگ سے لٹن روڈ بوہڑ والے چوک تک آتے اور وہاں سے کلینک تک جو اندازا ایک میل کے فاصلے پر ہو گا۔ پیدل آتے جاتے، جانے کیا اور کتنا کھاتے ہوں گے کہ ان کے سامنے کالا پہلوان بھی مختصر دکھائی دیتا۔ وہ چائلڈ سپیشلسٹ تھے اور ہم چائلڈ۔ ان کی اس زمانے میں فیس سوا روپیہ تھی جبکہ دوسرے ڈاکٹر چونی اٹھنی پر ہی اکتفا کرتے تھے، مزنگ میں ایک مشہور حکیم جن کے پاس سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی تھی دونی حکیم کے نام سے مشہور تھے یعنی دو آنے میں تشخیص مع دوا دارو، ڈاکٹر محبوب کے کلینک میں زنانہ کمرا تھا مگر مرکزی دوکان میں بھی عورتوں کو مردانہ بینچ کے مد مقابل زنانہ بینچ پر بیٹھنے کی اجازت تھی یوں دونوں اطراف سے ایک مریض ڈاکٹر صاحب کی میز کی طرف بینچ پر گھسٹتا ہوا بڑھتا، مریضوں کے حالات سبھی سنتے کیونکہ زنانہ مردانہ پوشیدہ امراض کا سیاہ پردے والا کلینک مین بازار میں علیحدہ سے موجود تھا۔ ڈسپنسری کافی بڑی اور خطرناک جگہ تھی کیونکہ نسخہ ڈسپنسری میں جمع کروانے کے بعد آپ کی عزت خدا کے بعد ڈسپنسر کے ہاتھ میں تھی۔ ڈسپنسر صاحب نسخہ تیار کرنے کے بعد آپ کا نام لیتے ہوئے ڈسپنسری سے برآمد ہوتے اگر ان کے ایک ہاتھ میں پڑیاں اور دوسرے ہاتھ میں لال، سفید یا پیلے رنگ کا شربت ہے تب تو آپ بچ گئے اور اگر ان کے شربت والے ہاتھ میں ٹیکہ ہے جس کی سوئی کا رخ آسمان کی طرف ہے اور اس میں سے قطرے ابل رہے ہیں تو آپ مارے گئے۔ اس ٹیکے کی سوئی کا سوراخ میں آج بھی بند آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب فیس میں ایک آنہ بھی کم ہونے پر مریض سے دوا دارو واپس لے لیتے مگر مستحق کو مفت علاج کے ساتھ کچھ رقم بھی بند مٹھی سے بند مٹھی میں منتقل کرتے۔ وہ پورے علاقے میں مغرور اور کڑوے مشہور تھے مگر میرے دسویں جماعت پاس کرنے پر ان کا دیا ہوا دس کا نوٹ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں نے ملکہ موسیقی نور جہاں بیگم کو اپنی بیٹیوں کے ہمراہ ان کی دوکان پر متعدد بار دیکھا۔ ایک دفعہ ملکہ نے جسارت کی کہ انہیں ریکارڈنگ کے لیے جانا ہے تو ان کی بیٹی کو ان کی باری سے پہلے دیکھ لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے پنجابی کا جواب پنجابی میں دیتے ہوئے کہا ”تے تیرے توں اگر بیٹھیاں زنانیاں دا کی کراں“۔

ڈاکٹر صاحب کے کلینک کے باہر مزنگ کا سب سے بڑا تھڑا موجود تھا جس پر قبل از تقسیم ایک ارائیں بھائی چھابڑیوں میں سبزی لگاتے \"saenتھے افواہ عام تھی کہ ارائیں بھائی جو جنرل ایوب کے دور میں بڑے چودھری صاحب بن گئے تھے تقسیم کے وقت ان پر اعتماد کرنے والا کوئی ہندو جو ٹائروں کا کاروبار کرتا تھا انہیں بلٹی کی رسیدیں دے گیا تھا تاکہ وہ ان کا مال ٹرکوں کے اڈے سے چھڑوا کر ان کے گودام تک پہنچا دیں اور تقسیم کی گرما گرمی ختم ہونے پر ان کی واپسی کا انتظار کریں، کہتے ہیں کہ گودام کی چابیاں اور رسیدیں بعد ازاں بہت برکت والی ثابت ہوئیں۔ دروغ برگر دن راویان مزنگ۔۔۔

 اگر آپ مین چوک سے لٹن روڈ کی طرف چلیں تو چارپائیوں سبزیوں، بڑے گوشت، تالے چابی، کنڈی والے، چپل والے اور رنگ والے کے بیچ ایک بہت بڑی دوکان ”تاج نان“ کے نام سے مشہور تھی۔ نان بائی کی اتنی صاف اور ستھری دوکان شاید آج بھی آپ کو دکھائی نہ دے۔ سبز رنگ کا فرش تھا، دوکان کے اندرونی حصے میں میدہ گوندھا جاتا، پیڑے بنتے، آلو قیمہ کوٹا جاتا دوکان کے بیرونی حصے سے جو دیوار گاہک کو نظر آتی اس پر تاج صاحب کی جناح کیپ والی تصویر جس میں انہوں نے قراقلی ٹوپی پہن رکھی تھی جو قبل از پیدائش میمنے کی کھال سے تیار ہونے کے سبب آج کل پڑھے لکھے ملکوں میں متروک ہے۔ سنتے تھے کہ اس مسلم لیگی کے نان قائد اعظم کے حضور بھی بذریعہ میاں بشیر صاحب پیش ہوئے تھے۔ یہاں مسلم لیگ کا کیلنڈر لگتا، مسلم لیگ کے اجلاس کے پوسٹر لگتے، تاج صاحب حلیے سے نواب آف مزنگ لگتے تھے میں نے روغنی اور الو یا قیمہ بھرے نان اسی دوکان پر پہلی دفعہ دیکھے تھے، سبز فرش روغنی نانوں پر لگے دیسی گھی کے گرتے قطروں اور اس پر پوچا لگنے کے سبب خوب چمکتا تھا۔ باہر کی طرف ایک تھڑا گاہکوں اور لکڑی کے ڈبوں کے درمیان تھا جن میں تیار مال گرم رہتا تھڑے کے نیچے تمام کارندے دوکان میں داخل ہونے سے قبل جوتے رکھتے اور ایک ڈبے سے ٹوپی نکال کر پہن لیتے اور یہ سب کشمیری ہونے کے سبب مجھے بہت صاف ستھرے لگتے۔ اس دوکان کے باہر تھڑے کے دائیں اور بائیں جانب دوسری دوکانوں کے تھڑے شروع ہو جاتے اتوار کے روز دیگر دوکانوں کے بند ہونے کے سبب اکثر داہنی طرف سائیں اختر اور بائیں طرف سائیں مرنا بیٹھتے، سائیں اختر چوڑے چکلے، بڑی بڑی آنکھوں والے باریش فقیر آدمی تھے سر پر کھوپڑی سے چپکی نگینوں سے مزین چمکتی ٹوپی، ہرے رنگ کا چوغہ، جو بہت سال بعد کالے رنگ میں بدلا، لال پیلے سفید منکے بے شمار انگوٹھیاں، ہاتھ میں تسبیح اور آواز عین اپنے حلیے کے مطابق۔ مجھے وہ ہمیشہ صاف ستھرے دکھائی دئیے۔ ان کے مقابلے میں سائیں مرنا اندر کو دھنسی آنکھیں، پکے سگریٹ کے پکے کش، نتھنوں سے نکلتا ہوا گہری سلیٹی دھواں، دو چار انگوٹھیاں، ایک آدھ ہار، بڑھی ہوئی شیو، میلے کچیلے مگر بھلے آدمی سجھائی دیتے۔ یہ دونوں مجھے حاضر اور غائب دکھائی دیتے۔

ایک اتوار کو میں کسی کام سے بازار گیا تو دیکھا کہ پندرہ بیس افراد کا مجمع تاج نان کے باہر مجسموں کی صورت میں موجود ہے۔ حیرت ہوئی، نزدیک جانے پر معلوم ہوا کہ سائیں مرنا اکتارا موزوں کر رہے ہیں، سائیں اختر کنگھا اپنے تیل گندھے بالوں میں پھیرنے کے بعد ٹوپی جما رہے ہیں اور دوکان کے سبھی کارندے آلتی پالتی باندھے خاموش بیٹھے ہیں۔ نان لگنے اور تندور سے انہیں نکالنے والی سلاخوں کی آپس میں ٹکرانے کی جھنکار بھی موقوف ہے۔ معلوم ہوا کہ تاج صاحب کے کوئی رئیس اور موسیقی کے رسیا دوست نان لگوانے کے بعد حاضر اور غائب سے کچھ سننے کی فرمائش کر بیٹھے تھے اور تاج صاحب کے اصرار پر تیاری ہو رہی ہے۔ اکتارے سے کچھ چھیڑ چھاڑ کے بعد اکتارا گویا ہوا۔

تن تن وجدا اکتارا

اکتارے وچ راگ ہزاراں

وکھ وکھ انگ ہر ہر سر نیارا

تن تن وجدا اکتارا

پھر سائیں اختر نے اکتارے کے ہر ہر انگ کے جواب میں نیاری سے بھی نیاری تانیں کھینچیں ۔ یاد نہیں یہ جگل بندی کتنی دیر چلی مگر وہ دوکان نہیں، کوئی مندر تھا اور حاضر غائب کی آوازیں اکتارے اور سائیں اختر کے گلے سے نہیں بلکہ کہیں بہت اوپر کے آسمان سے سیدھی میرے خون میں شامل ہو رہی تھیں۔ سائیں مرنا نے تیزی کے ایک رنگ کو اپنی مٹھی سے اکتارے کا تار بھینچتے ہوئے خاموش چیخ میں بدل دیا اور ہم سب اپنے اپنے راستے پر ایسے بکھر گئے جیسے اب اس دنیا میں سننے اور دیکھنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments