میں چاہتا تھا کہ مجھے دفن کرنے کی بجائے جلا دیا جائے


پی ایچ ڈی کے بعد تین مختلف شہروں میں اچھا تجربہ حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے مجھے ورجینیا میں عدسے بنانے کی مشہور کمپنی میں اچھے عہدے پر کام مل گیا تھا۔ میں اپنے کام سے بہت مطمئن تھا اور کمپنی کی انتظامیہ میرے اوپر بہت اعتماد کرتی تھی۔ اچھی کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرنے کی وجہ سے میرا بہت اچھا ہیلتھ انشورنس تھا اور مجھے پتہ تھا کہ میرا امریکا میں بہترین ترین علاج ہوگا۔

پندرہ دن کے اندر اندر مختلف ٹیسٹوں، سی ٹی اسکین اور برونکواسکوپی کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ میرا آپریشن کرکے رسولی کے ساتھ دائیں جانب کے پھیپھڑے کو مکمل طورپر نکال دیا جائے۔ جس کے بعد شاید ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی کی ضرورت ہوگی۔ میں ڈاکٹروں کی رائے سے متفق تھا، مجھے آپریشن کی تاریخ دے دی گئی تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اگر کینسر زدہ حصہ مکمل پھیپھڑے کے ساتھ نکال لیا گیا تو میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوجاؤں گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے بعد اگر میری موت ہوئی بھی تو کسی اور وجہ سے ہوسکتی ہے مگر کینسر کی وجہ سے نہیں ہوگی۔

اس کے بعد کا مرحلہ کافی مشکل ثابت ہوا تھا۔ میں نے اس ہفتے کے اختتام پر اپنے سے دور تینوں بچوں کو بلالیا تاکہ انہیں مرض اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاسکوں۔ میری بڑی بیٹی کو یہ تو اندازہ تھا کہ میں صحیح نہیں ہوں لیکن ابھی تک ہم لوگوں نے اسے کینسر کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔

ہفتے کی صبح ناشتے کے بعد میں نے بچوں کو بتایا کہ مجھے دائیں طرف کے پھیپھڑے میں کینسر ہوگیا ہے اور تین ہفتے کے بعد آپریشن کرکے کینسر زدہ پھیپھڑے کے حصے یا پھیپھڑے کو ہی نکال دیا جائے گا۔ تین چار دن ہسپتال میں رہنے کے بعد میں گھر آؤں گا اور اگر ضرورت پڑی تو چار ہفتے کے بعد مجھے کیموتھراپی یا ریڈیوتھراپی دی جائے گی۔

میں نے دیکھا کہ میرے چاروں بچے اس قسم کی کسی اطلاع کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے دھواں ہوتے ہوئے چہرے پر پریشانی بکھر گئی تھی، جس کی وجہ سے میں اور مجھ سے زیادہ نائلہ پریشان ہوگئی تھی۔

میں نے بتایا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آپریشن کے دوران یا آپریشن کے بعد میری موت واقع ہوجائے۔ اگر رسولی مکمل طور پر نکل گئی اورکینسر جسم کے دوسرے حصوں میں نہیں پایا گیا جو اس وقت تک نہیں ہے تو میں ایک عام عمر تک کی زندگی گزارسکوں گا۔ لیکن اگر کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پایا گیا تو اس کا علاج کرنے کے بعد شاید چار سال مزید زندہ رہ سکوں۔

چارو ں بچوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلملاہٹ نظر آئی تھی، فوری طور پر تو وہ کچھ نہیں بولے پھر بڑے بیٹے نے شکایت کی کہ اسے پہلے کیوں نہیں بتایاگیا۔

میں نے سمجھایا کہ یہ میرا ذاتی فیصلہ تھا کہ اس وقت تک نہ بتاؤں جب تک تمام تصویر واضح نہ ہوجائے۔ میرا خیال تھا کہ مرض کے انکشاف کے بعد جب تک مرض کی صورت حال واضح نہ ہواس وقت تک ہر ایک کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ انہیں میرے اس ذاتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔

ہمارے گھر میں رواداری کا نظام ہے۔ میں مکمل طور پر غیرمذہبی ہوں۔ امریکا آنے کے بعد کچھ عرصے تک کچھ دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار مسجد تو گیا مگر بہت جلدی مسجد، مذہب اور ملاؤں سے میرا رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ نائلہ مذہبی تھی، نمازیں بھی پڑھتی مگر مسجد اورمذہبی تقریبات میں نہیں جاتی تھی۔ اس کی کوشش رہی تھی کہ بچوں کو بنیادی مذہبی تعلیم دے۔ وہ روزے رکھتی تھی، بچوں کو بھی روزے رکھوانے کی کوشش کرتی تھی۔ عید بھی مناتی تھی، اس کی وجہ سے میں عید بقرعید کی نماز میں بچوں کے ساتھ چلا جاتا تھا۔

میں نے کبھی بھی اس کے مذہبی اعتقادات کو گفتگو کا موضوع نہیں بنایا۔ میں اس کا اور اس کے اعتقادات کا احترام کرتا تھا۔ وہ میرے خیالات سے متفق نہ ہونے کے باوجود مجھ سے بحث نہیں کرتی تھی، مجھے پتہ تھا کہ وہ میرے لیے دعا ہی کرتی رہتی ہے۔ بچے شروع شروع میں مجھ سے مذہبی سوالات کرتے تھے جن کا سادہ جواب تو میں دے دیتا تھا مگر اس پر بحث کی نوبت نہیں آنے دیتاتھا۔

میری کوشش رہی تھی کہ میرے بچے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں۔ دنیا کے بارے میں مثبت نکتہ نظر رکھیں۔ اسکول میں دی جانے والی بنیادی اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ امریکی سماج کی بنیادی اچھائیوں کو اپنائیں۔ بوڑھوں، عورتوں، معذوروں اور جانوروں کا احترام کریں اوراس بات کو سمجھیں کہ ان کی وجہ سے کسی کا نقصان نہ ہو، کسی کوتکلیف نہ ہو۔ میں دوست کی طرح امریکی سماج کی برائیوں پر ان سے تبادلہ خیال کیا کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں انہیں تعلیم یافتہ اور اچھا ذمہ دار شہری بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ میری بڑی بیٹی اپنی ماں کی طرح مذہبی تھی مگرمذہبی بنیادوں پر اس سے کبھی میرا جھگڑا یا بحث نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ہم دونوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔ میں اس کا احترام کرتا اور وہ میرا احترام کرتی تھی۔

تھوڑے سے سوال جواب کے بعد میں نے کہا کہ علاج وغیرہ میں دو تین مہینے لگ جائیں گے۔ میں اور نائلہ یہ چاہتے ہیں کہ علاج کا جو بھی نتیجہ نکلے، چھ مہینے بعد جو شادی کی جو تقریب ہونے والی ہے وہ اپنے پروگرام کے مطابق ہی ہو۔ سب نے میری رائے سے اتفاق کیا تھا۔

وہ سارا دن اور شام تک ہم لوگ گپ شپ لگاتے رہے۔ مجھے پتہ تھا کہ اس گپ شپ کے بعد یہ لوگ انٹرنیٹ پر پھیپھڑوں کے کینسر کے بارے میں موجود بے شمار معلومات تک پہنچ جائیں گے۔ آپریشن سے پہلے اور آپریشن کے بعد مجھے کم اور میرے ڈاکٹروں کو ان کے بے شمار سوالات کا جواب دینا ہوگا۔

ہسپتال میں داخلے سے ایک دن پہلے وہ سب گھر آگئے۔ ہسپتال میں اچھی خاصی گہماگہمی تھی۔ بظاہر میرا آپریشن کامیاب ہوگیا تھا، دائیں جانب کا پھیپھڑا نکال دیا گیا تھا۔ چار دن کے بعد میں گھر آگیا۔ پیتھالوجسٹ کی رپورٹ کے بعد مجھے بتایا گیا کہ مرض محدود تھا اورجسم کے کسی بھی دوسرے حصے میں اس کے اثرات نہیں ملے۔ لیکن ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ رسولی کی جو قسم تھی اس کا تقاضہ یہ تھا کہ مجھے کیموتھراپی کے کچھ کورس ضرور کرائے جائیں۔

میں نے ان کے فیصلے سے اتفاق کرلیا۔ ایک ماہ کے بعد کیموتھراپی شروع ہوئی اورتقریباً تین مہینوں تک میں پریشان رہا۔ میرے سر کے بال گرگئے تھے۔ اندر سے شدید بے چینی کا احساس ہوتا اور اتنی شدید قسم کی اُلٹیاں ہوتیں کہ میرے آنسو نکل اتے۔ کینسر خاموشی کے ساتھ میرے پھیپھڑوں میں اُگا تھا اور کسی بھی قسم کی تکلیف کے بغیر آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا مگر کینسر کا علاج میرے لیے جتنا تکلیف دہ ثابت ہوا اس کی شدت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

میں کوشش کرتا کہ اپنی تکلیف کوظاہر نہیں ہونے دوں۔ خاموشی کے ساتھ برداشت کروں کیونکہ میری پریشانی سے میرے بچے اور نائلہ پریشان ہوجاتے تھے۔ ان کے چہروں پر لکھی ہوئی پریشانی، ہاتھوں سے چھوٹتے ہوئے پسینے، دھڑکتے ہوئے دل کی دھڑکنوں کو میں محسوس کرسکتاتھا۔

ڈاکٹر نے اُلٹیاں روکنے اور سونے کی دوائیں دی تھیں اور سر پر لگانے کے لیے ایک وِگ بھی دیا گیا تھا۔ وِگ تو میں نے نہیں لگایا کہ اسے لگا کر اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا تھا۔ اُلٹیوں سے نجات کے لیے میں نے دوائیں ضرور لی تھیں۔ کاش میرے معالج میری اُلٹیوں کا علاج اور اچھی طریقے سے کرسکتے۔ میں نے اندازہ لگالیا کہ علاج معالجے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اچھے سے اچھے علاج دریافت ہوتے رہیں گے، مریضوں کی عمریں بڑھتی رہیں گی، کاش میں اگلے کسی زمانے میں پیدا ہوتا، جب ضرور ایسی دوائیں ہوں گی جن کے اس قسم کے نقصانات نہیں ہوں گے اور اگر ہوں گے تو ان کا بھی علاج ممکن ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4