عمران خان کے الزامات اور حقیقت احوال


\"edit\" پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک میں سرمایہ کاری کے مسئلہ کی طرف نشاندہی کی ہے۔ آج متعدد ٹوئٹ پیغامات میں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہا ہے جبکہ اس مدت میں وزیراعظم نواز شریف نے بیرون ملک دوروں پر 65 کروڑ روپے صرف کئے ہیں۔ عمران خان کا موقف ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کی کمی کی سب سے بڑی وجہ حکمران خاندان کی بدعنوانی ہے۔ دوسرے ملکوں کے سرمایہ کار ایک ایسے ملک میں سرمایہ لانے سے گریز کرتے ہیں جہاں بدعنوان اور کرپٹ حکمران صرف اپنے کاروباری مفادات کےلئے کام کرتے ہوں۔ انہوں نے اس صورتحال کا مقابلہ بھارت سے بھی کرنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ اس دوران بھارتی وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان اس صورتحال کو اپنے سیاسی موقف کو درست ثابت کرنے کےلئے ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس پر غور کرنے کےلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عمران خان کو اصولی طور پر یہ بات قومی اسمبلی میں بحث کےلئے اٹھانی چاہئے تھی۔ انہوں نے آج جو ٹوئٹ پیغامات ارسال کئے ہیں، ان میں سے اگر حکمرانوں کی بدعنوانی کے بارے میں ان کے سیاسی موقف اور خاص طریقے سے صورتحال کو دیکھنے کے انداز کو نظر انداز کر دیا جائے تو بھی ان میں دو اہم معاملات زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دونوں معاملات پاکستان جیسے غریب ، ترقی پذیر اور سیاسی و معاشی مشکلات میں گھرے ملک کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے ایک معاملہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کے بارے میں ہے جبکہ دوسرا معاملہ وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کا تعلق ہے، ان پر اپوزیشن کی طرف سے اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن حکومت ان اعتراضات پر غور کرنے اور اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔

وزیراعظم نے گزشتہ برس کے دوران متعدد غیر ملکی دورے کئے ہیں۔ اگرچہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان دوروں کے نتیجہ میں ملک میں مزید سرمایہ کاری آئے گی اور صنعتی اور دیگر شعبوں کے نئے منصوبوں میں بیرون ملک سے سرمایہ دار دلچسپی لیں گے۔ اس طرح قومی پیداوار میں اضافہ کی راہ ہموار ہو گی۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی اہم ہے کہ کسی بھی ملک کا وزیراعظم صرف سرمایہ کاری کے حصول کےلئے کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کرتا۔ عام طور سے اس قسم کے انتظامات وزارت کی سطح پر مجاز افسران اور متعلقہ وزیروں کے تعاون سے انجام پاتے ہیں۔ البتہ دو ملکوں کے درمیان طویل المدت اور بڑے منصوبوں کے معاہدوں پر حتمی بات چیت اور دستخط کرنے کےلئے حکومتوں یا مملکتوں کے سربراہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ وزیراعظم اپنے بیرون ملک دوروں کے دوران مالی معاملات کے علاوہ دیگر اہم قومی اور عالمی امور پر دوسرے ملکوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حد تک ان دوروں کی اہمیت کو قبول کرنے کے باوجود یہ جاننا اہم ہے کہ وزیراعظم کے دوروں سے ملک کو کیا مفادات حاصل ہوئے ہیں۔ اور ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک شدید سیاسی اور سکیورٹی مسائل کا شکار ہے حکومت کے سربراہ کا اکثر طویل مدت کےلئے بیرون ملک قیام درست فیصلہ ہے یا آئندہ اس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے دورہ کے حوالے سے یہ بیان کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے وزیراعظم کا دورہ کوئی سادہ یا آسان معاملہ نہیں ہے۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات صرف وزیراعظم کی روانگی سے متعلق ہی نہیں ہوتے بلکہ ایسے ہر دورہ کی تیاری اور انتظامات کےلئے مختلف وزارتوں کے افسران کے دوروں اور بیرون ملک قیام پر بھی کثیر وسائل صرف ہوتے ہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم کے دوروں کے حوالے سے جن 65 کروڑ روپے کا حوالہ دیا ہے ۔۔۔۔ کیا اس میں وہ اخراجات بھی شامل ہیں جو ان دوروں کی منصوبہ بندی اور تیاری پر صرف ہوتے ہیں۔ حکومت کے معاملات کے بارے میں جو معلومات میسر ہیں، ان کی روشنی میں یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کے دوروں کے پہلے اور بعد میں اٹھنے والے اخراجات اضافی ہوتے ہیں جو متعلقہ وزارتوں کے فنڈز میں سے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس لئے درحقیقت وزیراعظم کے دورے اس سے کہیں زیادہ مہنگے ہوتے ہیں جن کا اقرار و اظہار بجٹ تجاویز کے ذریعے سامنے آتا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم کے دورے کے حوالے سے اخراجات کی بات کرتے ہوئے دو پہلوؤں سے غور ضروری ہے۔ ایک یہ کہ کیا وزیراعظم کو ان دوروں کی تعداد میں کمی کرنی چاہئے تا کہ مصارف کو کم کیا جا سکے۔ یا یہ کہ ان دوروں پر وزیراعظم کے ساتھ جانے والے وفود کے حجم کو مختصر کیا جائے تا کہ وزیراعظم حسب ضرورت خواہ جتنے بھی دورے کریں لیکن قومی خزانے پر ان کا غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ عام طور سے وزیراعظم کے ہمراہ کئی درجن وزیروں ، مشیروں اور احباب کا بھاری بھر کم قافلہ سفر کرتا ہے۔ حسب ضرورت ملک کے اہم صحافیوں کو بھی ساتھ جانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ اس دورے کی کامیابی یا ناکامی کےلئے قطعی غیر ضروری اور غیر اہم ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک اہم سیاسی پارٹی کے سربراہ نے اس ضروری معاملہ پر گفتگو کےلئے ٹوئٹ پیغام دینے کو ایک موثر ذریعہ سمجھا ہے۔ پاکستان کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ لوگوں کا ملک ہے۔ اس میں ٹوئٹر کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بھی اسی قدر کم ہے۔ عمران خان قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ انہیں ایوان میں اس سوال پر تحریک التوا پیش کر کے اراکین اسمبلی کو اس معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دینا چاہئے تھی۔ تب ہی وہ ایک سیاسی لیڈر کے طور پر اور قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کا دعویٰ کر سکتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان پر ہونے والے اخراجات کی بحث کو قومی معاشی صورتحال تک ہی محدود نہیں رکھا گیا۔ بلکہ یہ نکتہ بھی محض اپنا یہ دعویٰ درست ثابت کرنے کے لئے اٹھایا گیا ہے کہ وزیراعظم کا خاندان بدعنوان ہے، جس کی وجہ سے ملک کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ عمران خان سمیت اس ملک کے سب لوگ جانتے ہیں کہ پاناما لیکس کے بعد تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کو عذر بنا کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کو ناجائز طریقے سے ملک سے باہر لے جا چکے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر ان کے صاحبزادے بیرون ملک وسیع کاروبار کر رہے ہیں۔ تاہم عمران خان کو یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہئے کہ ان کے دعوے صرف الزامات ہیں۔ وہ قومی اسمبلی یا کسی بھی دوسرے ادارے کے سامنے اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرنے کے لئے شواہد اور ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔ حکومت بھی اس اہم سیاسی معاملہ پر سست روی کا مظاہرہ کر کے سنگین سیاسی غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لیکن اپوزیشن کو بھی اسی جمہوریت کے نام پر جس کے تحفظ کا وہ دن رات راگ الاپتی ہے یہ ضرور مان لینا چاہئے کہ الزام اور جرم میں فرق ہوتا ہے۔ جس روز عمران خان کسی عدالت یا کسی بھی دوسرے ادارے کے سامنے نواز شریف کی غلط کاریوں کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گےتو تمام تر سیاسی چالوں اور قومی اسمبلی میں بھاری مینڈیٹ کے باوجود وہ برسر اقتدار نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت تک اہم قومی لیڈروں کو قوم کی حالت پر رحم کرتے ہوئے کم از کم یہ احسان ضرور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے الزامات کو غیر ثابت شدہ دعوؤں ہی کی طرح لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ ان کے اندیشے درست بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے غلط ثابت ہونے کا امکان اس سے زیادہ ہے۔

اس غیر متعلقہ بحث کا مقصود صرف یہ واضح کرنا تھا کہ عمران خان اگر وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کا معاملہ درست فورم پر اٹھاتے اور اس مسئلہ کو حکومت مخالف مہم کا حصہ بنانے کی بجائے، ایک علیحدہ معاملہ کے طور پر سامنے لاتے تو ان کی بات کو زیادہ توجہ اور غور سے سنا جاتا اور اس پر سنجیدہ بحث کا آغاز بھی ہو سکتا تھا۔ اسی قسم کے مباحث کسی جمہوری نظام میں ناپسندیدہ روایات کو ختم کروانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ایسے ہی معاملات میں اپوزیشن، حکومت اور عوام کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر اپوزیشن لیڈر ہر حقیقت اور صورتحال کو صرف ایک خاص سیاسی ایجنڈے کو سامنے لانے اور حکومت وقت کو گرانے کا بہانہ بنانے کےلئے استعمال کریں گے تو ملک میں جمہوری رویوں کے حوالے سے بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔

عمران خان کے ٹوئٹ پیغامات کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کا رجحان کم کیوں ہے۔ بیرون ملک سے سرمایہ کار کیوں پاکستان آنے سے گھبراتا ہے۔ اس سوال پر بھی قومی اسبملی ہی بحث کا بہترین اور قابل قبول فورم ہے۔ تب ہی اپوزیشن اور حکومت تمام حقائق تفصیل سے عوام کے سامنے لا سکتی ہے اور ان کی روشنی میں رائے ہموار ہو سکتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے سارا بوجھ حکومت پر ڈالنا بھی مناسب نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اس معاملہ کو کسی حکمران طبقے کی بدعنوانی سے منسلک کر کے اس کی سنگینی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے جہاں بدعنوانی زندگی کا معمول بن چکا ہے۔ متعدد ترقی پذیر یا نیم ترقی یافتہ ملکوں میں یہ علت موجود ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور دیگر ممالک ایسے معاشروں میں اپنے مفادات اور ضرورتوں کے مطابق سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کےلئے کوئی نہ کوئی قانونی راستہ بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر ترقی پذیر معیشت کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیا کا جامد سرمایہ بھی متحرک ہو کر ہی مفید اور سومند ہو سکتا ہے۔

صرف بدعنوانی کو پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ قرار دینا غلط ہے۔ اس کی دوسری وجوہات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی کے رجحان کی سب سے بڑی وجہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ہے۔ اگرچہ دہشتگردی پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن ابھی تک شدت پسند عناصر معاشرے میں طاقتور ہیں اور وہ کسی منصوبے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک چین اقتصادی منصوبے کو یقینی بنانے کےلئے پاک فوج نے اس منصوبہ پر کام کرنے والوں کی حفاظت کے نقطہ نظرسے خصوصی ڈویژن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلہ میں ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال بھی بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے تشویش کا سبب بنتی ہے۔ خود عمران خان 2014 میں دھاندلی کے خلاف دھرنے کی صورت میں سیاسی بحران پیدا کرنے کا سبب بن چکے ہیں۔ اب وہ پھر احتساب تحریک کے نام پر ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ طریقہ کار جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن سرمایہ دار ایسے معاشروں سے گھبراتے ہیں جہاں بات بے بات جمہوری عمل کو غیر ضروری طور پر انگیخت کرنے کا رجحان عام ہو۔

معاشی ماہرین اس حوالے سے متعدد دوسری وجوہات بھی گنوا سکتے ہیں لیکن سرمایہ کو اپنے ملک میں بلانے کا سنہری طریقہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مسلسل دست و گریباں رہنے سے گریز کریں۔ اور یہ بےیقینی پیدا نہ کی جائے کہ ملک میں جمہوری حکومت چل بھی سکے گی یا نہیں۔ تب ہی اعتماد کی وہ فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں کوئی ملک اہم فیصلے کرنے اور ان پر عمل کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کا نہایت قریبی تعلق دہشتگردی کی روک تھام سے ہے۔ اسے ختم کرنے کےلئے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد ضروری ہے۔ حکومت اپوزیشن کے مکمل تعاون کے بغیر اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی۔ عمران خان اس صورتحال پر غور کر کے اپنی سیاسی اور قومی ذمہ داری پہچان سکیں تو یہ قوم یقیناً ان کی ممنون احسان ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments