کتابچے میں مرا پتہ، میرا نام لکھو


آزادی کا نیا سال شروع ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران بہت کچھ اچھا ہوا اور کچھ ایسا بھی جسے گزشتہ سے پیوستہ پسماندگی کا تسلسل\"wajahat\" قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک بہت اچھی خبر بلوچستان سے آئی، اس برس وہاں یوم آزادی خصوصی جذبے سے منایا گیا۔ آٹھ اگست کو کوئٹہ سانحے کے پیش نظر یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اس دن پر صدمے کی گہری چادر نہ ہوتی مگر اطلاعات کے مطابق صوبے میں چھوٹے چھوٹے قصبوں تک ہم وطنوں نے آزادی سے وابستگی کا اعلان کیا۔ ایک اچھی خبر اسلام آباد سے آئی جہاں عدالت عظمیٰ نے ایک سنگ میل فیصلہ صادر کرتے ہوئے گویا پارلیمانی طرز حکومت اور صدارتی نظام میں فرق واضح کر دیا ہے۔ کسی کو شائبہ بھی نہیں گزرنا چاہئے کہ ملک کے منتخب وزرائے اعظم کے اختیارات پر حد باندھی گئی ہے۔ درحقیقت محترم جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ ہمارے سیاسی مکالمے میں پارلیمانی جمہوریت کے خد و خال واضح کرے گا۔ وفاق کے بارے میں آئینی منشا واضح کرے گا۔ اور صدارتی نظام کی جڑی بوٹیوں کے قطعے میں کدال چلائے گا۔ رواں ہفتے میں سخن گسترانہ یہ ہوا کہ محمود خان اچکزئی، فضل الرحمن اور محمد خان شیرانی جیسے رہنماو¿ں کے لئے نامناسب الفاظ استعمال کئے گئے۔ کہیں کہیں تو انہیں غدار بھی کہا گیا۔

غدار کا لقب اور غداری کا الزام نہایت سنگین معاملات ہیں۔ ہم نے حسین شہید سہروردی اور باچا خان کو غدار قرار دینے سے اپنی جمہوری تاریخ میں تکفیری رجحان متعارف کروایا تھا۔ مولوی فضل الحق سے ہوتے ہوئے ہم نے مجیب الرحمن کی غداری دریافت کی۔ حیدر آباد سازش کیس بنیادی طور پر غداری کا الزام تھا۔ اگرتلہ اور حیدر آباد کے درمیانی منطقے پر ملک دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لیکن غدار کا لقب بہر صورت ان رہنماو¿ں کے حصے میں آیا جو جمہور کی حکمرانی، اختیارات کی تقسیم اور جواب دہ حکومت کی صورت میں ملک کی ترقی دیکھتے تھے۔ آمریت سے ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت کا فرق ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آمریت کی مخالفت کرنے والوں کو غدار قرار دینا آسان نسخہ ہوتا ہے۔ ہم نے تو منتخب وزرائے اعظم کو سکیورٹی رسک تک قرار دیا۔

غداری اور ملکی مفاد سے انحراف جیسے الزامات کو سمجھنے کے لئے چار اصطلاحات پر غور کرنا چاہئے۔ دیکھئے ایک ہوتا ہے ریاستی موقف، ایک ہوتی ہے قانونی اور آئینی پوزیشن، ایک ہوتی ہے رائے عامہ اور ایک ہوتی ہے زمینی حقیقت۔ ان چار مجرد لفظوں کو سمجھنے کے لئے سامنے کی ایک دو مثالیں اٹھا لیتے ہیں۔ ریاستی مو¿قف کی ایک طرح دار مثال 22 ستمبر 1965 کی رات سلامتی کونسل میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر تھی۔ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کا فیصلہ ہوچکا تھا مگر سلامتی کونسل کے اجلاس میں چھتیس برس کا ذوالفقار علی بھٹو ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کر رہا تھا۔ اچانک آغا شاہی نے بھٹو صاحب کے کان میں کچھ سرگوشی کی جسے سننے کے بعد انہوں نے ڈرامائی انداز میں اعلان کیا کہ ان کی حکومت نے ابھی ابھی جنگ بندی قبول کرنے کی اطلاع بھیجی ہے۔ پاکستان کا ریاستی مو¿قف چند لمحوں میں تبدیل ہوچکا تھا۔ معاملات کی آئینی و قانونی حیثیت کے بارے میں ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہے۔ ہماری تاریخ میں چار مرتبہ ایسا ہوا کہ قوم نیند سے بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ سر سے آئین کا سائبان ہٹ چکا تھا۔ تعلیمی ادارے کھلے رہے، بینکوں میں کام ہوتا رہا، عدالتوں میں فیصلے ہوتے رہے، ڈیڑھ درجن نامعلوم افراد مٹھائی بانٹتے بھی دیکھے گئے۔ آئینی اور قانونی حیثیت مگر یہی تھی کہ حکومت غیر آئینی اور غاصب تھی۔ ثبوت یہ کہ 1985 اور 2003 میں فوجی چھتری تلے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ سے انڈیمنٹی (Indemnity) کا مطالبہ کیا گیا۔ معافی تلافی کا یہ مطالبہ ہی واضح ترین ثبوت تھا کہ ملک پر برسوں غیر آئینی حکومت کی گئی تھی۔ آمریت سے جمہوریت کی طرف جانے والی سڑک کو ہموار کرنے کے لئے جو آئینی پل باندھا جاتا ہے اسے انڈیمنٹی کا مسودہ قانون کہتے ہیں۔ رائے عامہ کیا ہوتی ہے؟ استاد مکرم کہا کرتے ہیں کہ سیاسی عمل جاری ہو تو رائے عامہ جلسہ عام اور پولنگ بوتھ پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ سیاسی اظہار کو جرم قرار دے دیا جائے تو رائے عامہ اخبار کے صفحے اور ٹیلی وژن کی سکرین پر سمٹ آتی ہے۔ ایسی مصنوعی رائے عامہ 16 دسمبر 1971 کی زمینی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ 16 دسمبر 1971 سے پہلے زمینی حقیقت یہ تھی کہ ملک کے دونوں حصوں میں صرف جغرافیائی فاصلہ، آبادی میں فرق، اور لسانی عد م توازن حائل نہیں تھے، معیشت کے اشاریے بھی مختلف تھے۔ یہ ایک زمینی حقیقت تھی کہ جغرافیائی طور پر غیر متصل منطقوں میں سپلائی لائن سے محروم فوج دفاع نہیں کر سکے گی۔ ہم نے ان زمینی حقیقتوں کو مصنوعی رائے عامہ، کیلسن کے نظریہ ضرورت اور غیر لچک دار ریاستی مو¿قف کے ذریعے جھٹلانے کی کوشش کی کیونکہ ہم نے اس بالا دست عمل کو وقعت نہیں دی جو ریاستی مو¿قف، آئینی اصول، رائے عامہ اور زمینی حقیقت کے درمیان پل باندھتا ہے۔ اس عمل کو سیاسی بصیرت کہا جاتا ہے۔

استاد مکرم سے بیس برس پہلے دریافت کیا کہ سیاستدان کی افادیت کیا ہے۔ فرمایا کہ سیاستدان زمینی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ رائے عامہ کی نبض پہ ہاتھ رکھتا ہے، آئین کے دائرے میں عمل کرتا ہے اور ان تین صلاحیتوں کی مدد سے قوم کو ایسا ریاستی مو¿قف اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے جس سے ملکی مفاد، قومی وقار اور معاشی ترقی کی بہترین ضمانت حاصل کی جاسکے۔ آج کے پاکستان کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ 1971 کے المناک واقعات کا اعادہ ممکن نہیں۔ اب یہ ملک ٹوٹ نہیں سکتا۔ اب اس ملک کو داخلی خلفشار سے بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس وقت کے زمینی سوال کیا ہیں۔ آبادی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان پر کیسے بند باندھا جائے جو ترقی کی ہر کوشش کو ناکام کردے گا۔ کسی ایک ملک میں ناخواندہ افراد کی دوسری بڑی جمیعت پاکستان میں ہے۔ اس ہجوم کو خواندہ کیسے بنانا ہے اور اس خواندگی کو مقابلے کے قابل تعلیمی اہلیت میں کیسے بدلنا ہے؟ پاکستان کے ریاستی مو¿قف کو معاشی حقیقتوں سے کیسے ہم آہنگ کرنا ہے؟ منتخب قیادت اور ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو آئین کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیسے کرنا ہے؟ وفاق کی اکائیوں میں شراکت اختیار کا وہ احساس کیسے بیدار کرنا ہے جو پولیس کے ناکے اور رینجرز کی چیک پوسٹ سے ماورا ہوتا ہے؟ عالمی صورت حال ہمارے ملک کے لئے بہت زیادہ موافق نہیں، معاشی امکانات البتہ موجود ہیں۔ انسانی سرمائے کی کمی نہیں۔ ان وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی سلامتی اور وقار کو کیسے یقینی بنانا ہے؟ یہ کام کھلاڑیوں کے اشتہار چلانے، ملی ترانے بجانے اور معلوم ریاستی مو¿قف کا آموختہ دہراتے چلے جانے سے نہیں ہوتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قوم کی سمت کو سیاسی بصیرت کے تابع کیا جائے۔ سیاسی بصیرت پر اعتماد کا ایک نشان یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کو قدیم رومن دانشوری کا طعنہ دینے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ اچکزئی کی چادر اس ملک کا اثاثہ ہے۔ خورشید شاہ کو پارلامنٹ شاہ کا خطاب دے کر ہم اپنی حس مزاح کی تسکین کر سکتے ہیں لیکن اس سے سیاسی عمل کی بے توقیری ہوتی ہے۔ ریاستی مو¿قف، آئینی اصول اور رائے عامہ کو زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے انسانی ذہانت کے اس معجزے کا وقار بحال کرنا ہوگا جسے سیاسی بصیرت کہتے ہیں۔ میڈیا کے کچھ حصوں کی مدد سے سیاسی قیادت کی ساکھ پر چھینٹے اڑانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ محمود اچکزئی، فضل الرحمن خورشید شاہ، محمد خان شیرانی سمیت ملک کا ہر سیاستدان جو آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرتا ہے اور جمہوری عمل میں شریک ہوتا ہے غدار نہیں ہوسکتا۔ اگر اختلاف رائے پر غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹناہیں تو اختر حسین جعفری کی کچھ سطریں یاد کرنا مناسب ہوگا:

لِکھو کہ اب بھی وہاں چھتوں پر مدافعت کے عَلم گڑے ہیں
لِکھو کہ جلتے ہوئے پلوں سے گزرنا دشوار ہوگیا ہے
کتابچے میں مِرا پتہ، میرا نام لکھو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments