سپاہ ست اور سیاہت سے سیاحت تک


\"aliجب تک یہاں ایٹمی دھماکے نہیں ہوۓ تھے، جب تک  کارگل  کی مہم جوئی نہیں ہوئی تھی اونہ ہی امریکہ پرنو گیارہ کے حملے ہوۓ تھے تو   ہمارے ہاں بھی دنیا بھر سے لوگ بغرض سیاحت آجاتے تھے اور آج  کی طرح  ایک غیر ملکی کو کہیں  گھومتے دیکھ کر شہر بھر کے سارے تھانے اور ایجنسیاں اس کے پیچھے نہیں  پڑتی تھیں ۔

معاشی تنگدستی یا بغرض مہم جوئی   اپنا سامان اپنی پیٹھ پر اٹھاکر  کر   پبلک  ٹرانسپورٹ میں  یا پیدل ہی سفر  کرنے والے سیاح بیک پیکرز کہلاتے ہیں۔  ایسے بیک پیکرز عموماً کہیں اپنا خیمہ نصب کرکے رات بھی گزار لیتے ہیں  اس مقصد کے لیٔے  دنیا بھر میں ان کے لیٔے  جگہیں بھی مخصوص کی جاتی ہیں۔  جب ہمارے ہاں سیاحت تھی تو   پاکستان میں بھی ایسی جگہیں مخصوص کی گئی تھیں جن میں سے ایک اسلام آباد آبپارہ کے نزدیک  تھی اور ایک ایک  ہنزہ اور سکردو کے علاوہ  گلگت میں بھی تھی جہاں بیک پیکرز کا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔

گلگت میں  جہاں بیک پیکرز کے رہنے کی جگہ مخصوص تھی وہاں یعقوب  ایک چھوٹی سی کینٹین  چلاتے تھے تاکہ یہاں قیام پزیر سیاحوں کو چاۓ، مشروبات  اور ہلکا پھلکا  کھانا ملے۔ اسی کینٹین کو اس نے مدینہ ہوٹل کا نام دیا اور دنیا بھر میں یہ نام مقبول ہوا۔ لوگ یہاں دنوں، ہفتوں اور مہینوں ٹھہرتے اور کئی ایک دوبارہ بھی آجاتے تھے۔ یہاں ٹھہرنے والے مہمانوں نے  یعقوب کو اس کی چھوٹی سی کینٹین کو ایک ہوٹل میں بدلنے میں نہ صرف معاشی مدد کی بلکہ ان کی تکنیکی راہنمائی اور معاونت بھی کی۔ یعقوب اپنے ہاں ٹھہرنے والوں کی دعوت پر ان کے ملکوں میں بھی گیا  جس سے اس کے معلومات میں اضافے کیساتھ ساتھ تجربے میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر  ایک وقت وہ بھی آیا کہ یعقوب کی کینٹین ایک بڑی عمارت  پر مشتمل اور جدید سہولیات  سے مزین ایک ہوٹل  میں تبدیل ہوگئی ۔ ان کے ہوٹل میں  کئی نسلوں اور  ممالک کے لوگ  کام کرتے نظر آتے تھے وہ بھی بلا معاوضہ  کیونکہ یہاں رہنے والے اس ہوٹل کو یعقوب کا کاروبار کم اور  اپنا گھر  زیادہ سمجھتے تھے۔\"index\"

 پھر گیارہ ستمبر کے بعد ہمارے ہاں سیاحت ختم ہوئی تو یعقوب نے یہ جگہ چھوڑ دی کیونکہ یہاں کوئی آتا نہیں تھا  اوروہ  ایک اور ہوٹل میں کام کرنے لگا ۔ یعقوب  زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں لیکن ساری زندگی سیاحوں کیساتھ گزا ری ہے  اور کئی ممالک  بھی گھوم آیا ہے۔ وہ ایک  مخلص اور وفادار انسان ہے،  گلگت شہر چھوٹنے کے ایک بڑے عرصے بعد بھی اس نے مجھ سے تعلق نہیں توڑا ہے  ۔ وہ سماجی رابطے کے ذریعے  اردو میں پیغام رسانی کرتا ہے پہلے رومن انگریزی میں اردو  لکھتا تھا اب  اسے  اردو حروف تہجی لکھنے کا فن  بھی آگیا ہے لیکن املا کی وہ زیادہ پرواہ نہیں کرتا کبھی خریت کو کھریت لکھ دیتا ہے تو کبھی دعا کو دوا ؛مگر اس کی  بات مجھے سمجھ میں آجاتی ہے ۔

گزشتہ دنوں ایسی ہی کسی بات چیت کے دوران میں نے پوچھا کہ   کاروبار اور سیاحت  کیسی جارہی ہی ہے تو اس نے لکھا کہ  اس سال سیاہت بہت زیادہ ہے۔ میں سمجھا کہ شاید   لفظ سیاہت اس کی حسب معمول املا کی غلطی ہے اور اس کامطلب  سیاحت  ہی ہے۔ میں نے لکھا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ ایک دفعہ پھر لوگوں کی ریل پیل ہوگی اور کاروبار شروع ہوگا۔ اس نے  بڑی بے دلی سے  اتفاق کیا۔  میں نے سوچا کہ یعقوب سے سیاحت کی املا درست کروادوں اور اسکو لکھا کہ وہ سیاہت کے بجاۓ سیاحت لکھے۔  اس نے لکھا کہ اس نے درست لکھا ہے   کیونکہ اس دفعہ پاکستانی  سیر و تفریح کے لیٔے زیادہ آۓ ہیں جس کو وہ سیاہت سمجھتا ہے سیاحت نہیں۔

 میں سمجھا کہ یعقوب پاکستانی  لوگوں کی گندمی رنگت کیوجہ سے ایسا کہ رہا ہے اور میں نے لکھا کہ  کسی کے لیٔےمذہب،  رنگ یا نسل کیوجہ سے ایسی کوئی بات  نہیں کہنی  چاہیٔے۔ یعقوب نے لکھا کہ وہ کبھی بھی کسی کو تعصب کی نگاہ سے نہیں دیکھتا  بلکہ ایسا سوچنے کو بھی وہ گناہ سمجھتے ہیں ان کا خیال تھا کہ  سیاح تو وہ ہوتے ہیں جو دنیا کو دیکھنے اور گھومنے کے لیٔے آجاتے ہیں۔ جو صرف کھانے ۔ پینے ، سونے اور گند پھیلانے کے لیٔے آجاتے ہیں وہ سیاح نہیں بلکہ سیاہ ہوتے  ہیں۔\"image\"

میں  نے ان سے کہا کہ    کہ اصول  کے مطابق  ہر وہ شخص ایک  سیاح ہے جو گھومنے، کاروبار کرنے یا کسی بھی غرض سے  عارضی طور پر اپنے گھر سے نکلے۔ اس پر یعقوب نے کہا کہ وہ مجھ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ایسا شخص ایک  مسافر تو ہو سکتا ہے  لیکن سیاح نہیں کہلا سکتا۔  میں نے پوچھا کہ وہ بتاۓ کہ سیاح کون اور کیسا ہوتا ہے ؟

یعقوب نے لکھا بھائی   ٌسیاح وہ ہوتا ہے جو دنیا کو دیکھنے نکلتاہے اپنے اور دوسروں کے لیٔے، سیاح دنیا کو اپنی ایک نظر سے دیکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کو دنیا  کیسی لگی؟   نہ وہ کمرے کے پردوں سے اپنے جوتے صاف کرتا ہے   نہ صبح اٹھ کر جب وہ  کمرے سے  چلا جاتا ہے تو ہمیں ادھا دن اسکا گند صاف کرنا پڑتا ہے اور نہ وہ اس وقت تک غسل خانے سے نہیں نکلتا جب تک گرم پانی ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ وہ  کھانے کی میز سے نہ صرف اپنا برتن خود اٹھا کر لانے میں خوشی محسوس کرتا ہے بلکہ برتن دھوکر رکھ بھی لیتا ہے۔  سیاح تو وہ ہوتے ہیں جو مہینوں تک میرے ہوٹل میں اکیلے رہ کر بھی ساتھ والی اکیلی لڑکی کو نہیں دیکھتے تھے جبکہ آجکل  جو لوگ آتے ہیں وہ تو اپنے بیوی، ماں، بہن اور بیٹی کیساتھ ہوتے ہوے ٔبھی دوسروں کی عورتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ نہ صرف یہ  کہ ہوٹل کے اندر گند پھیلاتے ہیں آپ ذرا باہر جاکر دیکھ لیں کہ اس سال سیاحت بڑھی ہے تو خنجراب  پاس سے لیکر شندور پاس اور  بابوسر پاس  تک گند ہی گند ہے۔ اب  آپ خود یہ بتائیں کہ یہ سیاحت ہوئی یا سیاہت؟ٌ

یعقوب سے بات کر نے کے  کچھ دنوں بعد  مجھے خود براہ بابوسر گلگت کے سفر کا اتفاق ہوا وہاں سے خنجراب بھی جانا تھا۔ بابو سرکی چوٹی جو کبھی مہم جؤ قسم کے سیاحوں کی منزل ہوتی تھی اب پورے پاکستان کا سیلفی پوائینٹ بن چکی ہے۔  بابوسر تک جانے والے راستے میں آبشاروں پر بنے گاڑیاں دھونے کے عارضی  سروس اسٹیشن ، ریستورانوں کا ایک جال کے علاوہ  چاۓ کے کھوکھے، ٹھنڈے مشروبات کی دکانیں  یہاں آنے والوں کے ذوق کا ایک مظہرتھا۔ بابوسر پاس کی  اس بلندی پر چلنے والے تیز ہواؤں کے باوجود  یہاں پھیلے پلاسٹک کے لفافے، بسکٹ  اور جوس کے  خالی ڈبوں کا ایک انبار تھا جو شاید  صرف یہاں سیر کے لیٔے آنے والوں کا  ایک دن کارنامہ تھا  جسے  یعقوب سیاہت سمجھتا ہے۔

\"Untitled-119\" افسوس یہ کہ جب ہوا ان پلاسٹک کے لفافوں کو اڑا کر برفیلی وادیوں میں پہنچا دیتی ہےتو صدیوں تک کےلیٔےزمین کا سرطان بن  کہ رہ جاتے ہیں۔   یہ  گند یہاں سے  دریاۓ کنہار اور دریاۓ سندھ دونوں کو آلودہ کرتا ہوا واپس پورے ملک کے چپے چپے تک پہنچ جاتا ہے۔

خنجراب کی حالت اس سے بہتر نہیں تھی۔  برفانی چیتے اور دیگر  ناپید ہونے والی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیٔے بناۓ جانے والے اس نیشنل پارک میں لوگوں سے ایک بھاری داخلہ فیس کی وصولی کے باوجود یہاں کچرا  اٹھاکر ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔   پھلوں کے چھلکے، جوس کے خالی ڈبے، مشروبات کی خالی بوتلیں  اور ہوا میں اڑتے پلاسٹک کے لفافے بتا رہے تھے کہ یہ سیاحت نہیں، سیاہت  ہے  جو زوروں پر ہے۔

کیا اتنی سیاہت کم تھی کہ ہمارے ہاں سیاحت کے نام پرحکومت  اب  ماحولیاتی اعتبار سے ان  انتہائی حساس مقامات پر میلے منعقد کرانے کا بندوبست کر رہی ہے۔ بابوسر ، شندور،  دیوسائی اور خنجراب میں ہزاروں لوگوں کو اکھٹا کرنے کا مطلب کئی ٹن گند  پیدا کرنا ہے جو اگلی صدیوں تک اس زمین مین مدفن رہے گا۔   اس زہریلے فضلے سے یہاں جنگلی حیات اور پودے متاثر ہونگے جس کا ہم ازالہ بھی نہیں کر پائیں گے ۔ کاش ہمارےہاں  سیاحت کے ذمہ  دار وزیروں ، مشیروں، ماہرین اور افسر شاہی کی ایک فوج کے بجاۓ صرف اکیلا  یعقوب بااختیار  ہوتا تاکہ ہم سیاہت سے سیاحت کی طرف  آ سکتے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments