اپنے حصے کی شمع جلاتے رہنا


\"uzmaہمیں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو اس طرح سے جیتے ہیں کہ کبھی کبھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کے مسائل سے بھی بے خبر رہتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ کہ آج کل ہر کوئی بہت مصروف زندگی گزارتا ہے اور مختلف طرح کی پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے میں معاشرے کی ہر برائی اور خرابی کا سبب حکمرانوں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ سب سے آسان ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کا ذکر کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہرکوئی انسان صرف اپنے حصے کا کام کرے اور اپنا حق ادا کرنا شروع کردے تو ہمارا معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہوسکتا ہے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم ابھی بھی کسی صحیح سمت کا تعین نہیں کرپائے۔صحیح سمت،پہلا قدم اور تھوڑی سی ہمت ہمیں منزل تک لے جا سکتی ہے

ہماری زندگی پر صرف ہمارا حق نہیں ہوتا ہمیں بہت نہ سہی، تھوڑا بہت دوسروں کے لئے بھی جینا چاہیے میرا مطلب ہے سوشل ورک کرنا چاہیے ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف پیسوں کے ساتھ دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ جس کسی کو ہماری توجہ کی ضرورت ہو اس کے پاس بیٹھ جانا اور تکلیف بانٹنا بھی کافی ہوتا ہے میرا عقیدہ مسلمانیت سے زیادہ انسانیت پر ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ٹین ایج سے سوشل ورک شروع کیا لیکن بدقسمتی سے اس میں تسلسل قائم نہ رکھ سکی لیکن اس غیر تسلسل عرصے میں بھی ایک کام جو میں ہمیشہ کرتی رہی ہوں وہ ہے لوگوں کے رویوں کو پڑھنا اور ان کے چہروں کو پڑھنا کسی کی باتوں سے ان کے دلوں کے دکھوں کو پہچان لینے کا ہنر سیکھا شاید اس لئے کہ میں ایک حساس انسان ہوں۔

جی تو بات ہورہی تھی سو شل ورک کی میں نے پچھلے سال ایک آرگنائزیشن جوائن کی جو کہ بیرون ملک پاکستانی خواتین اور مردوں کی مدد کرتی ہے جو کہ شادی کر کے پاکستان سے جاتے ہیں لیکن وہاں مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے مدد فراہم کرنا اس تنظیم کا کام تھا کہ وہاں کی لوکل اتھارٹی یا سوشل ورکر انہیں ان مسائل سے کیسے نکال سکتی ہے۔

مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت افسوس ہورہا ہے کہ جس تنظیم کا میں رکن تھی وہ بھی بہت ساری باقی تنظیموں کی طرح صرف زبانی کلامی کام کرتی ہے۔ فیس بک پر اچھی اچھی تصویریں لگانے کے علاوہ چیرٹی اکھٹی کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتی جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی کامیاب سٹوریز میرے ساتھ شٗیر کریں تومجھے کچھ متاثرہ لوگوں کی کہانیوں کے لنک بھجوا دئیے گئے لیکن کسی کو مدد فراہم نہیں کی گٗی تھی

لہذا بہت سوچنے کے بعد آج پہلی بار میں نے اپنی قلم کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنے بارے میں سوچا!

میرا اشارہ ان معمولی مسائل کی جانب نہیں جس جو کہ بہت کم لیکن میڈیا پر دکھائے جاچکے ہیں ہمارے پڑوسی ملک نے بھی کچھ فلمیں ایسی بنائیں ہیں کہ انیں اجاگر کیا بلکہ بات کررہی ہوں ایسے لوگوں کی جو کہ یہاں کے معصوم لوگوں کو وہاں لے جاکر قید کرلیا جاتا ہے اور ان سے جنسی کاروبار کروایا جاتا ہے ایسے لوگ جو اس قسم کی انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں وہ صرف پاکستانی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگ برابر کے شراکت دار ہیں ان دونوں قسم کے لوگوں کو کچھ عرصے بعد تھوڑی بہت آزادی دے بھی جائے تب بھی ان کے ذہن اس حد تک غلام ہوجاتے ہیں کہ انہیں آزادی کا راستہ سمجھ میں نہیں آتا مثلا کہ صرف ایک ایمرجنسی نمبر کال کرنے سے وہ لوگ ایسی کسی بھی صورت حال سے نکل سکتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ تو ایک علیحدہ کیس ہے لیکن جو لوگ شادی کے ویزہ پر بھی جاتے ہیں ان لوگوں کو بھی بیرون ملک اپنے حقوق کی آگاہی نہیں ہوتی جب میں نے اس سلسلے میں یوکے ایمبیسی سے بات کی کہ اس سلسلے میں ویزہ سے پہلے کیا آپ لوگوں کو بیسک آگاہی دیتے ہیں تو جواب نفی میں آیا یہاں صرف فورس میرج یونٹ ہے(FMU)۔یعنی پاکستانی نژاد والدین اگرپاکستان میں لا کر اپنے بچوں کی زبردستی شادی کرنے کی کوشش کریں تو بچے ان سے مدد لے سکتے ہیں۔

یہ کالم لکھنے کا مقصد ہے کہ شاید کسی ایسے انسان کی نظر سے گزرے جسے یہ پتا ہی نہ ہو کہ صرف 999ڈائل کرکے وہ لوگ برطانیہ اور112ڈائل کرکے امریکہ یا کینیڈا میں اپنے لئے مدد حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ جب میں نے پچھلے سال بیرون ملک کی ایک آرگنائزیشن کے لئے والنٹیئر کام شروع کیا تو جن متاثرہ خواتین سے میری بات ہوئی وہ پاکستان کے رورل ایریا کی وہ خواتین نہیں تھیں جو کہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہوں بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے باوجود زندگی کے ایک برے تجربے کے بعد وہ میرے سے بات کرنے سے بھی پہلے رو پڑیں۔ میں کبھی کسی انسا ن کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی میں نے اپنی سی ایک کوشش کی ہے کہ شاید کوئی ایک زندگی بچ جائے یا کوئی مشکل سے آزاد ہوجائے لیکن ایک پیغام ان متاثرہ لوگوں کے لئے ہے جو اب آزاد تو ہوچکے ہیں لیکن اپنی زندگی اسی ایک نقطے پر روک دی ہیں کہ ایک قدم آگے بڑھیں اپنی مدد کریں اور دوسروں کی بھی کیوں کہ دوسروں مدد کرنے سے ہمیں جو خوشی حاصل ہوتی ہے یہ ہمیں کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments