اعلیٰ تعلیم جہالت میں ڈوبتی جا رہی ہے


Christian Smith

اس طویل مدتی کرپشن کے سب سے تباہ کن اثرات اب ہمارے سیاسی ماحول اوراداروں میں نمایاں ہو رہے ہیں۔

ڈرامائی سیاسی گروہ بندی، جعلی خبروں کا پھیلاؤ، قانون سازی کا مفلوج ہونا، بغیر روک ٹوک غلط بیانی کرنے کاطوفان، ہماری گلیوں میں موجود شدت پسند بنیاد پرست، اہم ترین قومی معاملات سے بہت سے امریکیوں کی مجرمانہ ناواقفیت، اہم ترین عہدے داروں کا اپنے جنسی طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کے واقعات کو بڑے فخر سے بیان کرنا اورا نھیں کسی سزا کا نہ ملنا، اپنا ہی رد کرنے والی طعنہ آمیز ٹویٹس کے ذریعے سفارت کاری اور عام امریکیوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور نفرت! جب ملک کے پڑھے لکھے طبقے کی کئی دہائیوں تک اچھی تربیت نہ کی گئی ہواور تحصیلِ علم اور استدلال کے مراکز نظریات اور دہشت کی آماجگاہ بن جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تعلیم کے یہ حالات ہوں تو سیاست، قانون، سفارت کاری، ذرائع ابلاغ اور کاروبار میں معاشرتی خوبیوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

یہ صورتِ حال بہت ہی الم ناک ہے۔ لیکن اب کیا ہم الم کو محسوس کر سکتے ہیں؟ مجھے ڈر ہے کہ موجودہ امریکی اعلیٰ تعلیم کے اجتماعی تخیل کے ساتھ ساتھ ہمارے کلچر سے بھی الم کو محسوس کرنے کی صلاحیت ناپید ہو گئی ہے۔

فنڈنگ کے نشے میں دھت سائنس کے شعبوں، سائنسیت کی کنیز سوشل سائنسز اور شعوری خبط، نظریاتی عقائد اور سائنس سے حسد میں گرفتا ر ہیومینٹیز کی مثلثِ برمودا میں پھنسے ہوئے اداروں میں الم کو کیسے محسوس کیا جا سکتا ہے؟ اور جب اس الم کے طرف داروں اور متاثرین کے دلوں سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہے تو یہ صورتحال زیادہ درد ناک ہو جاتی ہے۔

اس سب میں یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ زیادہ تر گندگی مکار افراد کی طرف سے نہیں بلکہ اداروں کے نظام میں موجود پیچیدہ نقائص سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بڑا آسان ہے کہ کوئی ایک اچھا معلم یا منتظم بھی ہو اور اس گندگی میں اضافہ بھی کرے۔ اس لئے ہمیں فرد کی سطح سے بلند ہو کر باقاعدہ طور پر تہذیب، اداروں اور سیاسی معیشتوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ مخصوص تعلیمی اداروں اور افراد پر انگلیاں اٹھانے کا یہاں کوئی فائدہ نہیں۔ نظام اور اس کے اثرات کے معاشرتی تجزیے کا فائدہ البتہ ضرور ہے۔

اعلیٰ تعلیم میں بہت سے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو اپنے گرد گندگی کے ڈھیرنظر آتے ہیں۔ لیکن بہت کم ایسے ہیں جنھیں صورتِ حال کی نزاکت کا احساس ہے کہ یہ کس طرح ہمیں آلودہ کر رہی ہے۔ اس نظام کا حصہ بہت سے لوگ یا تو اس سے لڑنے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں یا سٹیٹس کو کی مدد سے بننے والے اپنے کیریئر داؤپر نہیں لگانا چاہتے یا باقاعدہ اس نظام کی افزائش پر مامور ہیں اور اسی لئے اس کے گُن گاتے رہتے ہیں۔

میں بھی خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ میں اب زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کہ لبرل آرٹس کی انڈر گریجویٹ تعلیم میں جو کچھ باقی ہے، اس کو محفوظ کرنے کی کوشش کروں۔ حقیقی تبدیلی تو طویل مدتی ہی ہوگی اور نظامِ تعلیم پر اس کے بھدے جمود کے خلاف باہر سے نافذ کی جائے گی۔ یہ تبدیلی خوش نما نہیں ہوگی اور ضروری نہیں کہ کوئی بہتری لائے۔ ہم خوشی سے اپنی اصلاح خودکرنے کے عمل کی ناشکری کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

میرے خیال میں اعلیٰ تعلیم میں حقیقی طور پر مثبت تبدیلی اگر ہوگی تو وہ صاحبِ بصیرت روایت پسندی اور تنظیمی انقلاب پسندی کی کچھ شکلوں کو ملا کر ہو گی۔ ہمیں ایسے افراد درکار ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم کے درخشاں ماضی کو واپس لانے اور اس کی کچھ اس انداز میں تنظیمِ نو کرنے کی صلاحیت ہو کہ وہ مستقبل میں کارگر ثابت ہو سکے۔

تاریخ ہمیں یہ امید دلاتی ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل مرد و خواتین وقت کے ساتھ مفید تجربات کر کے نئے ادارے بنائیں گے جو بہترین اعلیٰ تعلیم کی ایک بہار لائیں گے۔ یہ اعلیٰ تعلیم اسم بامسمیٰ ہوگی اور تہذیب اور سیاست کو حیاتِ نو بخشے گی۔ جیسے جیسے گندگی کے انبار لگتے جا رہے ہیں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اس دوران ہمیں تعلیمی نظام کے اندر اور (اس کے نتیجے میں ) باہر کتنے ضیاع، جہالت اور تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔

https://www.chronicle.com/article/Higher-Education-Is-Drowning/242195


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2