قومی زبان: بصد احترام خالی جگہ پر


\"Rashidاردو کے حق میں خواجہ کلیم صاحب کا کالم پڑھنے کے بعد لکھنا واجب تھا ۔قومی زبان کا وجود کتنا اہم ہے یہ تفصیلات اب ایسے مضامین میں ہی پڑھی جا سکتی ہیں۔ اردو کیساتھ جو سلوک ہو رہاہے اس پہ حیرت نہیں بلکہ افسوس ہوتا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ انگریز نے بر صغیر میں کچھ ایسی دھاک بٹھائی کہ جاہ و جلال کو اپنی زبان اور لباس کے ساتھ نتھی کر گئے اور ہمارے \”دیسی انگریز\” کچھ تو کمتری کے احساس تلے اتنے دب گئے کہ والد اور ابا جی \”پاپا\” ، \”ڈیڈی\” بن گئے اماں اور امی جان ماماں یا ممی بن گئیں۔ خدا حافظ ہو نہ ہو مگر \”با ئے اور ہائے کا ساتھ نہیں چھوٹنا چاہیئے۔ دوست \”فرینڈ\” بن گئیے جو بچ گئے وہ بھی اپنے آپ کو اعلی تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے چکر میں انگریزی لباس کا سہارا لینے لگے۔انگریزی لباس اور زبان کے ساتھ تعصب کی قطعی کوئی کوشش نہیں ہو رہی مگر اردو پہ اکثر نوحہ اسطرح پڑھاجاتاہے کہ \” میری اردو کمزور ہے\” جبکہ ہر طرح کی کمزوری پہ لوگ تشویش کا شکار ہوتے ہیں طبیبوں کے پاس جاتے ہیں یا انگریزی ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر واحد اردو ہے کہ جسکی کمزوری کا اظہار ترقی پسند سوچ کی علامت بن گیا ہے یہ ظاہر کرنا فخر کی علامت ہے کہ \”میں اردو نہیں جانتا\”۔ اس بیمار سوچ کو راسخ جنہوں نے کیا وہ اسی ایوان میں براجما ن ہیں جنہوں نے ولا ئتی ولایت پہ ایمان لایا اور انگریزی سے وفاداری کا لا شعوری حلف اٹھایا۔ البتہ اگر کچھ حیران کن ہے تو وہ قومی زبان کے بغیر قومی یکجہتی و ترقی کا خواب دکھانا ہے جسکا بیڑہ سرکاری دانشوروں نے اٹھا رکھا ہے۔ قومی زبان کو عملی طور پہ ان کرم فرمائوں نے باعث شرم بنا دیا ہے۔ لوگ بیچارے انگریزی زبان بولتے یا استعمال کرتے ہوئے جتنی بھی علمی یا نفسیاتی مشکلات کا شکار ہوں دو ، چار الفاظ انگریزی کے اپنی گفتگو میں شامل کر کے ایک مثبت تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسائل ختم ہوجاتے ہیں اگر \” پرابلمز\” کہا جائے ۔زائقہ کو \”ٹیسٹ\” میں بدلا تو کھانے کی پیشگی \”سرو\” ہو گئی۔ ناشتہ \”بریک فسٹ\” بنا، دوپہر کا کھانہ \”لنچ\” اور شام کے کھانے کو بخوشی \”ڈنر\” بنا دیا۔ غیر محسوس طریقے سے ہم نے اردو زبان و ادب سے دوری اختیار کی۔ دوسری طرف قومی زبان کا جھانسہ ہم مسلسل دیتے رہے مگر درجہ نہیں دیا کیونکہ درجہ اگر دیتے تو آج یہ حشر اس زبان کا نہ ہوتا۔ نقصانات کی لمبی فہرست ہے، جو ہم نے اٹھائے ہیں مگر انگریزی کے بارے میں ہماری کمتری نے مسلسل ہماری آنکھ بند رکھی صرف ایک آنکھ سے دیکھنے کا یہی انجام ہوتا ہے جو ہمارا ہوا۔

ہم جتنا بھی اردو سے بیزاری کا اظہار کریں ایک بات تو طے ہے کہ اگر ہم نے علمی اہداف حاصل کرنے ہیں تو ہمیں زبان کیساتھ تعلق کو بحال کرنا پڑیگا۔ اردو کو اختیار کیئے بغیر جس ترقی کو ہم زیر بحث لاتے ہیں اسکا عملی حصول ممکن نہیں جسکے پیچھے بڑی وجہ یہ ہے کہ فطری طور پہ انسان اپنی زبان سے جو شناسائی رکھتا ہے چاہے وہ عقلی ہو یا جزبا تی ،کسی اور زبان کو یہ مقام نہیں دے سکتا اور نہ ہی اتنی واقفیت حآصل کر سکتا ہے۔پاکستان کے بیشتر نجی سکولوں میں نصاب انگریزی زبان میں پڑھایا جا رہاہے مگر وہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے جو ہمارے سماجی تقاضے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچہ تین زبانوں سے الجھتا ہے، ایک مقامی،ایک قومی اور ایک اعلی انگریزی یا حاکم زبان۔ یہ رکاوٹین سبھی بچے عبور نہیں کر پاتے اور زبردستی کے نتیجے میں وہ تعلیمی اداروں سے بھاگنے یا راہ فرار کا طریقہ تلاش کرتے ہیں۔ انکی فطری جستجو میں رہنمائی کے نہ ملنے پہ وہ جلد اس عمل سے مایوس ہو جاتے ہیں کیونکہ انکی دلچسپی صفر ہوتی ہے۔ دھونس دھمکی سے سکھانے کی کوشش تو کا میاب ہو نہیں سکتی۔ لیکن کچھ تعداد ایسی ہے جو خوف کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں اس عمل کا وہی حصہ بنتے ہیں جو ڈر جاتے ہیں اور خوفزدہ ہو کر اور مجبورا پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ معلومات کو دماغ میں ٹھونسنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ایسے افراد تعلیم یافتہ ہو سکتے ہیں اس طرح ٹھہرنے والوں میں بھی بہت کم بچے سیکھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تمام سختیوں کے باوجود انکی کھوجنے کی فطرت قائم رہتی ہے ۔ مگر اعدادو شمار میں کسی بہتری کو ظاہر کرنا کوئی حتمی حقیقت نہیں ہو سکتی۔ زمینی حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں ان تعلیمی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہو پاتا جنہیں صفحات پہ اتارا جاتا ہےیا جنکی خاکوں کی صورت میں پیش کاری ہوتی ہے مگر دوارن درس و تدریس انہیں صرف چھوا جاتا ہے۔ کیونکہ زبان ایک رکاوٹ کے طور پہ سامنے آتی ہے۔ اب جب ہم سہولت کو رکاوٹ خود بنا رہے ہیں تو تعلم کیونکر ممکن ہے۔

اقدار و اخلاقیات کی جب بات آئے تو پھر اردو زبان کی شائستگی کا استحصال کیا جاتا ہے مطلب ادبی پیرائے میں اگر بیان ہے تو اردو کو مستند حیثیت سمجھنے میں کوئی عار نہیں پھر بھی ہم مشکوک ہیں کہ اردو بول کر وہاں نہیں پہنچا جا سکتا ہے جہاں انگریزی بولنے والے کھڑے ہیں۔ عام حا لات میں اتنی بے رخی کا مطلب کیا ہے۔ انگریزی سیکھنے کے چکر میں اردو سے بھی گئے اگرچہ دوسری زبان سیکھنے میں قباحت نہیں مگر اپنی زبان کو ترک کرنے کی سزا یہ ہے کہ نہ ادھر کی سمجھ رہی نہ ادھر کی بوجھ۔

البتہ ہمیں آسانی یہ حاصل ہے کہ ہم چونکہ دوسرے مما لک کی اشیاء سے مستفید ہونے کے عادی ہیں لہزا انگریزی کی بین الاقوامی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر مختلف علوم میں ہونے والی تحقیات اور دیگر علمی مواد کو بآسانی حاصل کر کے اپنے نظام کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ بجائے اسکے کہ اردو میں ترجمہ کرتے ۔ پھر اشرافیہ کی اولاد کے لیئے یہ سہولت ہے کہ وہ مغربی مما لک میں تعلیم کے واسطے جا کر آداب حکمرانی سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ انکا خاندانی وقار بھی اسی کا متقاضی ہے کہ وہ صرف ایک محدود مدت تک کے لیئے اپنے ملک میں تعلیم حا صل کریں ادھر بھی انکے شایان شان انگریزی ماحول مہیا کیا جاتا ہے تا کہ بیروں ملک جا کے وہ کسی اجنبیت کا شکار نہ ہوں

اتنے مضبوط شواہد ہیں کہ کوئی آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود اگر اس پہ عمل درآمد نہیں ہوتا تو اسکا مطلب صاف ضاہر ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کے مفادات کے ساتھ یہ امر براہ راست متصادم ہے جبھی وہ اس اقدام کو اپنے لیئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسکا مطلب کوئی یہ بھی اخز کر سکتا ہے کہ تعلیم و تربیت در اصل حکومتی تر جیح نہیں یا پھر مخصوص انداز سے ہی تعلیم دی جاسکتی ہے وہی انداز جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بڑے پیمانے پہ فروغ نہ مل سکے ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ انگریزوں کے وظیفے چھوٹ جانے کا ڈر بھی لاحق رہتا ہے اسی لیئے ہم اس طرف مائل نہیں ہوتے۔ مختلف تعلیمی منصوبوں کے لیئے انکی عنایات مین رخنہ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ انکے فرامین کو نہ صرف مانا جائے بلکہ عمل درآمد بھی موثر ہو۔ لیکن ہماری اردو کے بارے میں غفلت ہمیں قومی مرتبے پہ کبھی فائز نہیں ہونے دیگی اگر بحثیت قوم ہم نے عالمی برادری اور نسل انسانی کی اجتماعی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے تو اپنی زبان اور اپنے مابین فاصلوں کو سب سے پہلے ختم کرنا پڑیگا۔ یہی سائنس جو آج ہمارا امتحان ہے ہو سکتا ہے کل اس میدان میں زمانہ ہمارا معترف بنے، اردو ادب کی تخلیقات کا دور پھر سے لوٹ آئے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے ادب کے ترجمے دوسری زبانوں میں تواتر سے ہونے لگیں۔ کھوئے ہوئے ذوق کو پانے میں صرف زبان کا وقفہ ہی تو ہے۔ ۔ دنیا میں ہونے والی پیش رفت ہمین بتاتی ہے کہ قومیں وہی بنی ہیں جن کےہاں زبان کیساتھ وابستگی کا جزبہ موجود ہے۔ جو قومی لباس کو اپنی پہچان سمجھتے ہیں۔ ہمیں اردو بولتے ہوئے اپنے آپ کو کمتری کے احساس سے بچانا ہے اور یقینا صلاحیتوں کو پرکھنے کے معیار میں صرف انگریزی کو خاطر میں نہیں لانا چاہیئے۔ یہ ضروری نہیں کہ انگریزی بولنے سے ہی قابلیت عیاں ہوتی ہے یا علمیت کا رعب دالا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو بر صغیر سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا مگر آداب غلامی کا جو سلیقہ وہ سکھا گئے قابل ستائش ہے۔اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اس تربیت میں زرا برابر فرق دکھائی نہیں دیتا۔ہم آہنگی کا رونا پیٹنا تو ہم اکثر لگائے رکھتے ہیں لیکن اسکے لیئے اقدامات اب تک کیا اٹھائے گئے ہیں اسکا جواب خاموشی ہے ۔ شاید قومی زبان کی جگہ کو پر کرنے لیئے \”اردو\” لکھ دیا گیا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments