ڈاکٹر ساجد علی: کارل پوپر کا سوال اور سرسید کا احسان


ڈاکٹر ساجد علی خود کو پیدائشی استدلال پسند کہتے ہیں۔ بچپن دیہات میں بسر ہوا۔ اس ماحول میں توہمات کا گزرعام تھا مگر وہ ان پریقین \"mehmudulکرنے میں متامل رہتے۔ والدین نے جالندھر سے ہجرت کرکے گوجرہ کو اپنا مسکن بنایا، یہیں وہ 1951میں پیدا ہوئے۔تین برس بعد گوجرہ سے پانچ میل دور گاﺅں میں زمین الاٹ ہوگئی تو خاندان وہاں منتقل ہوگیا۔ میٹرک تک کے تعلیمی مدارج گاﺅں میں رہ کرطے کئے۔ بچپن میں والدہ نے انھیں کلام اقبال اور مسدس حالی سے شعر یاد کرائے۔ دادا پہلے مجلس احرار میں، بعد میں مسلم لیگ میں رہے۔ والد اخبار پڑھنے کے رسیا۔ اس لیے گھر میں سیاست کا ذکر برابر رہتا۔گھر والوں نے ڈاکٹر بنانا چاہا، پر یہ آرٹس پڑھنا چاہتے تھے۔ والدہ نے فرزند ارجمند سے کہا کہ’ آرٹس پڑھ کرکیا کروگے؟ ‘اس پر موصوف نے جواب دیا”کیا آرٹس پڑھنے والے بھوکوںمرتے ہیں؟ انھیں اپنے فیصلے پرکبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ گلہ اگر ہے تو اپنے نظام تعلیم سے، جس میں مڈل کے بعد آرٹس اور سائنس کے مضامین الگ کر دیے جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ سائنس کی تعلیم کہیںاور بھی کام آسکتی ہے۔کہتے ہیں ” آگے چل کر سائنس نہ پڑھنے کی کمی کا احساس ہوا کیونکہ فلسفے میں بڑا کام ان لوگوں نے کیا جو سائنس کی بیک گراﺅنڈ سے تھے۔ برطانیہ میں ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جہاں ریاضی میں تعلیم کے بغیر فلسفہ میں داخلہ نہیں ملتا۔ “

میٹرک کے بعد 67ء میں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایم اے فلسفہ کرکے ادھر سے نکلے۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کالج کا ماحول بہت زبردست تھا۔کسی سے ادب پر گفتگو ہو رہی ہے تو کسی سے سیاست اور مذہب پر مکالمہ اور کسی سے فلم پر بحث۔ یہیں ناصرکاظمی کے شاعر بیٹے باصر کاظمی سے شناسائی ہوئی جوجلد گہری دوستی میں بدل گئی۔ انھی کے وسیلے سے شیخ صلاح الدین سے تعارف ہوا جن کی علمیت سے خرد کی بہت سی گتھیاں سلجھانے میں مدد ملی۔ کالج ہاسٹل میں ہونے والی ایک ادبی تقریب میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی صدارت میں مضمون سنایا۔ صاحب صدر نے تعریف کی تو اس سے شہہ پاکر مضمون ”قندیل “میں اشاعت کے لیے دیا۔ چھپ گیا تو پاﺅں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔اس زمانے میں پیپلز پارٹی نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ بھٹو کی مقبولیت زوروں پر تھی۔ ایک طرف ان کا سوشلسٹ انقلاب تھا تو دوسری طرف جماعت اسلامی کا اسلامی انقلاب۔ بھٹو کے طرز سیاست نے انھیں متاثر نہ کیا، اس لیے ان کا جھکاﺅ جماعت اسلامی کی طرف زیادہ تھا۔ ان کے بقول ”خاندان میں مولانا مودودی کا بہت احترام تھا، ذہنی تربیت ”نوائے وقت“ کے زیر اثر ہوئی تھی، اس لیے اسلامی انقلاب کے نعرے میں کشش محسوس ہوئی، جمعیت میں باقاعدہ کبھی شامل نہیں ہوا لیکن ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔“

کالج یونین کے صدرمنتخب ہوئے لیکن جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ سیاست ان کا میدان نہیں، اس لیے عملی سیاست کا کیڑا ہمیشہ کے لیے ذہن\"sajid سے نکل گیا۔ کالج میں بی اے کے دوران فلسفہ کی کلاس میں جاوید احمد نام کے طالب علم سے متعارف ہوئے ، جس نے آگے چل کر جاوید احمد غامدی کے نام سے بلند تر علمی مقام حاصل کرنا تھا۔ جاوید احمد نے ایک علمی ادارہ بنانے کے لیے جن دوستوں سے تعاون مانگا، ان میں ساجد علی بھی تھے۔ آٹھ برس ان کے ساتھ مل کرکام کیا۔ ہم نے ان سے نوجوان جاوید احمد غامدی کے بارے میں جاننا چاہا تو بتایا”وہ غیرمعمولی طور پرذہین تھے۔ سب سے بڑا کمال تھا کہ کسی بھی فن کی اعلیٰ ترین کتاب کو پڑھ کرسمجھ سکتے تھے۔ غیر معمولی مطالعہ تھا۔ شروع میں طبیعت میں سختی زیادہ تھی۔ جماعت اسلامی میں جب شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو میں نے منع کیا کہ جماعت ایک شخصیت کی تعلیمات کے گرد گھومتی ہے، اور ایسی جماعتوں کا رخ موڑنا ممکن نہیں ہوتا، لیکن وہ مانے نہیں، مولانا مودودی کی بھی خواہش تھی کہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں۔ بعد میں وہ جماعت سے الگ ہوگئے اور امین احسن اصلاحی صاحب سے ان کا قریبی تعلق بن گیا۔ انھی نے غامد ی صاحب کو سمجھایا کہ اگر علمی کام کرنا ہے تولیڈری کا شوق ترک کردو، دونوں کام اکٹھے نہیں چل سکتے۔“

 فلسفہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ تو کرلیا لیکن مروجہ نصاب سے دل ناصبورکو تسلی نہ ہوتی، اس لیے زمانہ ¿ طالب علمی میں اس مضمون سے ربط ضبط رسمی تعلیم سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ فلسفہ سے ان کا صحیح معنوں میں ناتا اس زمانے میں استوار ہوا، جب وہ تدریس سے متعلق ہوتے ہیں اور انھیں Dialectical materialism کا کورس پڑھانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ اب انھیں سامنے کی کتابوں سے ہٹ کر کچھ شاگردوں تک پہنچانے کی فکر ہوئی۔ تلاش کے اس سفر میں وہ کارل پوپر سے متعارف ہوئے، تو گویا ان کے دل ودماغ کی دنیا بدل گئی۔ اس کی کتاب The Open Society and Its Enemiesنے ان پر گویا جادو کردیا۔ ڈاکٹرمبارک علی نے ایک دفعہ ہمیں بتایا تھا کہ علمی سفرمیں وہ کتابیں جن کا پڑھنا ،ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوا، ان میں پوپرکی کتاب سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر ساجد علی، فلسفہ کو بور اور ڈل مضمون جانتے تھے، جس کا زندگی سے تعلق نہ ہو لیکن پوپرکو پڑھنے سے لگاکہ فلسفے کو جذبے سے پڑھا اور پڑھایا جاسکتا ہے۔ محسوس ہوا کہ انھیں جس چیز کی تلاش تھی وہ پوپرکے ہاں موجود ہے۔ پوپر کا نام کبھی اساتذہ سے بھی نہ سنا تھا کیونکہ فلسفہ کی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک وہ کسی شمار قطار میں نہ تھا۔

کارل پوپرکہتا ہے کہ علم کا کوئی انت نہیں۔ دوسرے وہ لازمی طور پر اپنی رائے کے درست ہونے پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اس کا کہنا ہے ” \"sajidمیری رائے غلط ہو سکتی ہے اور آپ کا خیال درست ہوسکتا ہے، اگر ہم مل کر کوشش کریں تو حقیقت کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ “ اس سے ملتی جلتی بات بہت پہلے امام شافعیؒ کہہ چکے ہیں اور اس کا حوالہ آتا بھی رہتا ہے کہ’ ہم اپنی بات کو صحیح کہتے ہیں مگر اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتے ہیں، ہم دوسروں کی بات کو غلط کہتے ہیں مگر اس کی صحت کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔، میرے خیال میں یہی درست علمی رویہ ہے۔ پوپر کا نقطہ نظر ہے کہ جوں جوں ہمارا علم بڑھتا ہے، اسی حساب سے ہمارے جہل میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم جو نہیں جانتے اس سے کہیں زیادہ ایسا ہے جو ہم جانتے ہیں۔ وہ انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کھلی فضا ہی میں ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ فلسفہ کا بنیادی سوال یہ رہا ہے کہ ذریعہ علم کیا ہے؟ اس پر بہت بحث ہوتی رہی ہے۔ پوپر نے کہا کہ یہ سوال ہی غلط ہے۔ علم کا کوئی ایک حتمی اور قطعی ذریعہ نہیں ہوتا۔ سوشل سائنسز تو اپنی جگہ، نیچرل سائنسزمیں بھی تھیوری بدلتی رہتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ معاشرے کو علم کی بنیاد پر استوار کریں، علم کی بنیاد تنقید اور سوال اٹھانے پر ہے، جہاں یہ سلسلہ رکا وہیں علم کی ترقی رک گئی۔ پوپرکے آٹھ مضامین کا میں نے ترجمہ کیا جو کتابی صورت میں ”فلسفہ، سائنس اور تہذیب “ کے عنوان سے ”مشعل“ نے شائع کیا۔

پوپر سے پہلے وجودیت پر ایمان لائے، سارترکو گرو مانا لیکن پھر اس سے آگے بڑھ گئے۔ تشکیک کے مرحلے سے بھی گزرے۔ اسی کشمکش میں زندگی کی کئی راتیں گزری۔ علم کے ذریعے ہر ذہنی الجھن کا علاج ڈھونڈا۔ ڈاکٹر ساجد علی نے ”شاہ اسماعیل شہید کی مابعدالطبیعیات“کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی۔ شاہ اسماعیل کی کتاب ”عبقات “ان کے مقالہ کا موضوع بنی۔ وہ بتاتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ نے ابن عربی اور شیخ احمد سرہندی کے افکار میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے خیال میں ، ایسی تطبیق کا کبھی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ دونوں ہی فریق اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ خواجہ میر درد کے والد ،میر ناصر علی عندلیب نے شاہ ولی اللہ کے خلاف لکھا تو پھر شاہ اسماعیل نے اپنے دادا کے دفاع میں ”عبقات “لکھی جو بہت شاندار کتاب ہے، جس میں ساجد علی کے بقول، انھوں نے کئی باتوں میں دادا سے مختلف موقف اختیار کیا۔ اختلاف کیا۔ لیکن کھل کرنہیں کہا کہ ان کی بات غلط ہے۔

ڈاکٹر ساجد علی سمجھتے ہیں کہ امام غزالی کو مسلم فلسفے کے زوال کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ کسی ایک شخص کے افکار خاص حد تک اثرات مرتب کرتے ہیں ، یہ مجموعی علمی سانچہ ہوتا ہے، جس کے تحت علمی روایت بنتی ہے ۔ ان کے بقول ” امام غزالی نے جتنا یونانی فلسفہ رد کیا، اس سے زیادہ داخل کیا ،سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ارسطو کی منطق کو ہمارے لیے قابل قبول بنایا، ان سے پہلے تو ہمارے علما منطق کو قبول نہیں کرتے تھے۔“

ڈاکٹر ساجد علی سائنس میں مسلمانوں کی علمی خدمات کے معترف ضرور ہیں لیکن ان کے خیال میں،اس میں نصاب تعلیم کو دخل نہیں تھا \"sajidکیونکہ دینوی علوم کبھی اس کا حصہ نہیں رہے، ان کے بقول، یہ تو لوگوں نے اپنے طور پر اور ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر سائنس میں نام پیداکیا۔

 سرسید احمد خان مسلمانوں کے محسن تھے اور برصغیرمیں مسلمانوں نے جو بھی کچھ حاصل کیا وہ ان کے وژن کا حاصل ہے۔ سرسید نے زمانے کی رفتار کو پہچانا۔ جدید تعلیم پر انھوں نے زوردیا اور پھرجن لوگوں کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑی گئی، وہ سب جدید تعلیم یافتہ تھے، علامہ اقبال، علی برادران، قائد اعظم، نہرو، گاندھی، سبھی جدید تعلیم یافتہ تھے۔ یہ بات انگریز حکام کے درمیان بھی اٹھی تھی کہ اگر ہندوستانی جدید تعلیم حاصل کریں گے تو کل کو آزادی بھی مانگیں گے، بعد ازاں ان کا یہ خدشتہ درست ثابت ہوا۔ ہمارے ہاں یہ بہت غلط روایت ہے کہ کسی شخص کی کوئی بات پکڑ لو اور کہو، دیکھو، اس نے یہ کہا ہے اور وہ کہا ہے۔ سرسید کے اصل پیغام کو چھوڑ کر لوگوں نے ان کی دوسری باتوں کو پکڑ لیا۔ نیوٹن بائیبل کی تفسیربھی کرتا ہے۔ جادو پر بھی لکھتا ہے۔ کیمیا گری پر لکھتا ہے۔ اس کی ایسی تحریروں کو بہت عرصہ چھپایا بھی گیا لیکن کیا ان کی بنیاد پر اس کی سائنسی خدمات کو رد کردینا چاہیے ؟“ مسلمانوں نے کبھی غیر زبانیں سیکھنے میں دلچسپی نہیں لی۔ ہمارے ہاں ابن رشد نے کہا کہ وہ بتائیں گے کہ اصل میں ارسطو کیا ہے، لیکن اس کے باوجود انھیں یہ خیال نہیں آیا کہ یونانی زبان سیکھ کر ارسطو کو اصل میں پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح مسلمان آٹھ سو سال اسپین میں رہے لیکن کسی نے ہسپانوی زبان سیکھنے میں دلچسپی نہیں لی۔ سلطنت عثمانیہ میں مترجم عیسائی تھے اور ایک طرح سے فارن آفس ان کے سپرد تھا۔ سرسید کی بصیرت اور دوراندیشی تھی کہ انھوں نے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر اس وقت زور دیا جب اس کی بہت زیادہ مخالفت ہو رہی تھی۔

علامہ اقبال کو وہ دوسو سال میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا ذہن قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقبال کا بنیادی تصور حرکت پذیر کائنات کا ہے۔ اس لیے وہ’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ یا پھر ’ کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون‘ کی بات کرتے ہیں۔ اقبال نے اوپن یونیورس کا تصور پوپر سے پہلے پیش کیا۔ ان کی دانست میں، اقبال سائنس کے آدمی نہیں تھے لیکن آئن سٹائن کی تھیوری سے انھوں نے جو نتائج اخذ کئے وہ حیران کن ہیں، اور یہ، ان کے خیال میں، اقبال کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ کہتے ہیں ”اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ادراک درست ہوتا ہے لیکن اس کے لیے جو وہ دلائل لاتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں۔ شاعری میں ان کا مقام اپنی جگہ ہے، لیکن ان کے خطبات جو The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے چھپے وہ ان کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ وہ زمانے سے بہت آگے جاکر سوچتے تھے۔“

طے شدہ بیانیہ اور فرد کے حوالے سے ڈاکٹر ساجد علی کہتے ہیں کہ ہم جدید دور میں کسی نہ کسی طریقے سے آتو گئے ہیں، لیکن اس کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔ انسانی تاریخ کے تین ادوار ہیں۔ ایک دور وہ ہے جب انسان غاروں میں رہتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے اس کے گروہ تھے۔ اس عہد نے انسانوں کو دو چیزیں دیں۔ ایک یہ کہ ہر حال میں گروپ یا دھڑے سے جڑے رہنا ہے۔ اسی میں بقا ہے۔ ہمارے ہاں گاﺅں میں یہ کہا جاتا تھا کہ ”دھرم نالوں دھڑا چنگا۔“ دوسرا ایثار ہے، جو صرف قبیلے کے لوگوں سے روا ہوگا اس سے باہر نہیں۔ قبیلے سے باہر کا آدمی ممکنہ دشمن ہے۔ اجنبی سے آپ ڈیل نہیں کرسکتے۔ افریقی معاشروں میں قبیلے سے باہر نام بتانے پر بھی پابندی تھی کہ نام پر جادو کرکے دشمن آپ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد زرعی انقلاب آیا اور لوگ گھروں میں رہنے لگے تو گروپ بندی بھی زیادہ ہوگئی۔ حکمران طبقہ، جنگجو طبقہ اور ایک پڑھا لکھا طبقہ وجود میں آگیا۔ ان سے بہت نیچے پروڈیوسر کلاس جو پہلے تین طبقوں میں شامل نہیں ہوسکتی تھی۔ سب کی اپنی اپنی قدریں۔ پرانے شہروں میں محلوں کے نام دیکھ لیں۔ محلہ کمان گراں ، محلہ تیر گراں ، یعنی نام پیشوں کے اعتبار سے ہوتے۔ صداقت آپ کے نزدیک وہ ہوتی ہے جسے آپ کا گروپ تسلیم کرے۔ آپ اگر کسی بات کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس سے دھڑے کو نقصان ہوگا تو سچ پراصرار نہیں کریں گے۔ جدید دور میں فرد کی اخلاقی قدروں اور ریاست کے مفاد میں تضاد پیدا ہوا ہے۔ مثلاً اسے ریاست کے شہری کے طور پر ریاست کا نقطہ نظر بیان کرنا ہے یا اپنے ضمیرکے مطابق بات کرنی ہے، جس پر اسے غداربھی ٹھہرایا جاسکتا ہے، طے شدہ بیانیہ سے انحراف کرنا ،اس کے لیے مشکلات پیدا کردیتا ہے۔ ہم ہیں جدید دورمیں، لیکن طریقہ کار ہمارا پرانا ہے۔ مثلاً اگرکسی کے پاس اختیار ہو اور وہ عزیزو اقارب کو فائدہ نہ پہنچائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی افسری کا کیا فائدہ ۔ انگریزوں نے بیورو کریسی کے حوالے سے ہمیں کچھ جدید چیزیں سکھائی تھیں، جن میں ایمانداری آج کے زمانے سے زیادہ تھی لیکن ہم نے انھیں فراموش کر دیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تو یہ ہے کہ کسی قوم کی دشمنی آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ آپ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں۔ اسی طرح اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ سچ کا ساتھ دو چاہے وہ قرابت دار کے خلاف جائے۔ لیکن ہم سب کو پتا ہے کہ ہمارا دین یہ کہتا ہے لیکن بہت کم لوگ ان احکامات پر عمل کرتے ہیں، سب اپنے ماحول اور کلچرکے اسیر ہیں۔ ہمارے ہاں مذہب کی اصل روح کے بجائے ثقافت کا غلبہ زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ساجد علی فلسفہ میں سادہ اور ابہام سے پاک زبان لکھنے والوں کو سراہتے ہیں۔ گنجلک اسلوب پسند نہیں، جس سے ان کے خیال میں ،ابلاغ کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ مابعد جدیدیت کے پیروکاروں سے انھیں شکوہ ہے کہ وہ عجیب وغریب زبان لکھتے ہیں، جو کم ازکم ان کے پلے تو نہیں پڑتی۔ 1979ءمیں پنجاب یونیورسٹی شعبہ فلسفہ سے جڑے اور اس کے چیئرمین کی حیثیت سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ یہ تعلق ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوا،اور وہ سردست کنٹریکٹ پر یہیں پڑھا رہے ہیں۔ مستقبل میں ادبی موضوعات پر منتشر تحریریں کتابی صورت میں چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فکری موضوعات پران کے مضامین گاہے گاہے ویب سائٹ”ہم سب“ پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں، مجھے زندگی میں استحقاق سے بڑھ کر ملا ہے۔ پاکستان میں فلسفہ کے نصاب سے وہ کل مطمئن تھے اور نہ ہی آج مطمئن ہیں۔ اپنے ہاں کے جس بندے کی فلسفیانہ تحریروں کو وقعت دیتے ہیں وہ عبدالحمید کمالی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments