پاکستان کے خلاف بھارتی مہم


\"edit\"بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم پر پردہ ڈالنے اور دنیا کی توجہ وہاں سے پاکستان میں انسانی حقوق کی طرف مبذول کروانے کی جو کوشش کی تھی، اب اس کے ثمرات علاقے میں زیادہ کشیدگی اور پاکستان کے خلاف بیان بازی میں اضافہ کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ جمعرات کو چمن کے نزدیک افغان شہریوں کے ایک گروہ نے سرحدی قصبے سپن بولدک میں پاکستان دشمن مظاہرہ کرنے کے بعد پاک افغان سرحد پر واقع دوستی گیٹ پر دھاوا بول دیا اور وہاں پر نصب پاکستانی پرچم اتار کر نذر آتش کردیا۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اس اشتعال انگیزی کے جواب میں کوئی ناخوشگوار قدم نہیں اٹھایا تاہم اس کے بعد دوستی گیٹ کو بند کردیا گیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ٹریفک مکمل طور سے بند ہے۔

پاکستانی سیکورٹی فورسز کے مقامی کمانڈرز نے بتایا ہے کہ اعلیٰ کمان کے حکم کے بغیر یہ راستہ نہیں کھولا جائے گا۔ اس راستے سے نیٹو سپلائی لے جانے والے کنٹینر اور دوسرے تجارتی قافلے سرحد کے دونوں طرف رکے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان مخالف مظاہرہ کا اہتمام عین اس وقت کیا گیا تھا جب بلوچستان کے چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں بلوچستان کے عوام بھارتی وزیر اعظم کے اشتعال انگیز بیان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔ دوستی گیٹ کے ساتھ ملحق پاکستانی علاقے میں بھی مظاہرین احتجاج کے بعد منتشر ہو رہے تھے کہ افغان علاقے کے ہجوم نے انہیں دیکھ کر دوستی گیٹ پر پتھراؤ شروع کردیا ۔ اس کے بعد بعض لوگ گیٹ پر چڑھ گئے اور پاکستانی پرچم کو اتار کر نذر آتش کردیا۔ پاکستانی سرحد پر متعین فرنٹیر کور نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی لیکن اس کے بعد یہ راستہ غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا۔

بھارت کے وزیر اعظم نے 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت ، بلتستان اور بلوچستان کے عوام نے ان کے حقوق کی بات کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ اس بیان کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت اور اس بات کا اعتراف سمجھا جا رہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں تخریب کاری میں ملوث ہے۔ چمن امن گیٹ پر حملہ کو اس خطے میں بھارت کی پاکستان دشمن حکمت عملی سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بھارت کو افغانستان میں گہرا رسوخ حاصل ہے اور وہ افغان حکام اور عوام کو پاکستان کے خلاف اکسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس طرح اس کی کوشش اور خواہش ہے کہ پاکستان کو خطے میں تنہا کرکے دنیا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں تو معمولی داخلی شورش ہے لیکن اس علاقے میں اصل مسئلہ کی جڑ پاکستان ہے۔ اس مقصد کے لئے بھارت تمام سیاسی اور سفارتی حربے استعمال کررہا ہے۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اس دوران نئی دہلی میں مودی کے بلوچستان بیان کی حمایت کرتے ہوئے اسے درست حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ اب پہلی بار بھارتی وزیر اعظم نے پاکستانی بلوچستان میں انسانی حقوق کی بات کی ہے۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن الحق انو بھی نریندر مودی کے بیان کی تائید کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ معین کی حکومت کو متنازعہ جنگی جرائم ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف پاکستانی مؤقف سے پر خاش ہے اور وہ پاکستان سے حساب برابر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔

حامد کرزئی کی طرف سے بھارت کی حمایت سے بھی یہ واضح ہو گیا ہے کہ افغان لیڈر کس حد تک بھارت کے حدی خواں ہیں۔ اسی بیان میں کرزئی کا یہ کہنا بھی صورت حال کو مزید واضح کرتا ہے کہ بھارت ، بلوچستان بیان کے بعد علاقے میں پراکسی وار کا آغاز نہیں کرے گا۔ یہ بات چور کی داڑھی میں تنکا کے مترادف اس بات کا اعتراف ہے کہ بھارت کس طرح طویل عرصہ سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ اب سابق افغان صدر اس کا بالواسطہ اعتراف کررہے ہیں۔

بلوچستان اور گلگت بلتستان کے عوام نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان پر شدید احتجاج کیا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی نے اس بیان کی مذمت کرنے کے لئے قرار داد بھی منظور کی ہے۔ اسی طرح بھارت میں بھی مودی کے بیان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اعتراف قرار دے کر تنقید ہو رہی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی سمجھا جا رہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کا بیان سفارتی آداب کے خلاف ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوگا۔ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر سے میں صورت حال کو چھپانے کی جو بھونڈی کوشش کررہے ہیں ، وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ امریکہ کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے دونوں ملکوں کو مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں حقائق جاننے کے لئے نمائندے بھیجنے کا مطالبہ کررہی ہے۔

ان حالات میں بھارت اگر اصل مسئلہ کو حل کرنےاور پاکستان کے ساتھ دیانت داری سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بجائے علاقے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا تو اس سے دونوں ہمسایہ حریف ملکوں کے درمیان تعلقات خطرناک حد تک کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ یہ صورت حال دنیا یا علاقے کے کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments