جنگ، کھنڈر، بچے اور کھیل کا میدان


جنگ اور امن کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لئے یہ جان لینا کافی ہے کہ امن میں بچے ماں باپ کے زیرِ سایہ تحفظ اور خوشحالی کے خوش بخت حصار میں رہتے ہیں۔جبکہ جنگ میں یہی بچے اپنی خوفزدہ آنکھوں سے اپنے پیاروں کو سفاک اورغیر انسانی رویوں کی بھینٹ چڑھتا دیکھ کر دہشت سے گنگ ہو جاتے ہیں۔بد قسمتی سے ذاتی اغراض و مقاصد اور طاقت کے بد ترین اظہارکے تحت لڑی جانے والی مہذب ملکوں کی جنگوں میں ہمیشہ اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس بربریت کا شکار ہونے والے معصوم لوگوں میں ایک کثیر تعداد ان بچوں کی بھی ہوگی جو اگر اپنی بد قسمتی سے بچ گئے تو عمر بھر دہشت کا وہ سبق کبھی نہ بھولیں گے جو اس کم سنی میں ان کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو گیا ہو گا۔

مشہور جاپانی مصنفہ ساکائے سوبوئی (Sakae Tsuboi) کے معروف ناول ”چوبیس آنکھیں “ کا نام شاید آپ نے سنا ہو۔اس ناول کا انگریزی ترجمہ ’آکیرا میورا‘نے جب کہ اردو ترجمہ’ اجمل کمال صاحب ‘نے”چوبیس آنکھیں“ کے نام سے کیا ہے۔ جنگ کے تکلیف دہ موضوع پہ لکھا جانے والایہ ناول بنیادی طور پر ایک مختصر اور ہمہ گیر ناول ہے۔جو جنگ کے مہیب اور غیر انسانی رویوں کے تحت جنم لینے والی وحشت اور بربریت کو سامنے لاتا ہے۔یہ ناول جاپانی استانی ”مس اوئیشی“ اور ان کے ننھے بارہ طالب علم بچوں کے گرد گھومتا ہے جواپنی کمسنی سے جوانی تک جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنتے ہیں۔زندگی کے آخری لمحات تک مس اوئیشی اپنے بارہ بچوں کی چوبیس منتظر اور معصوم آنکھوں کو نہیں بھول پاتیں۔

دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیوں پہ مبنی ،تلخ تاریخی حقائق کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ایک ایسا ناول ہے جو ہمیں یہ سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ بلند و بانگ نظریات اور اعلیٰ و ارفع مقاصد کے تحت لڑی جانے والی جنگیں دراصل اپنے مفہوم میں فطرت کے منافی ہوتی ہیں۔ جو نہ صرف لمحوں میں لاکھوں زندہ انسانوں سے ان کی طبعی زندگی کو چھین لیتی ہیں بلکہ جن کا حاصل محض لاشوں کے انبار اور ہنستے بستے گھروں کے شکستہ ملبوں سے بنے بلند و بالااہراموںکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ناول کے چند حصے ذہن سے مٹائے نہیں مٹتے خاص کہ جب قومی تفاخر کی آڑ میں تشکیل دئیے گئے سفاک مفادات کے ہتھکنڈوں کے سبب مس اوئیشی کے پیارے شاگردوں میں سے کچھ ملکی تفاخر پہ مبنی مقدس جنگ کے ہاتھوں مارے جانے اور نام نہاد شہادت کے کاغذی تمغے اپنے سینے پہ سجانے کے لئے محاذ پہ بھیجے جا تے ہیں تب مس اوئیشی کا یہ جملہ جنگ کی اذیت سے بھرے اس پورے منظر نامے کا کرب اپنے اندر سمو لیتا ہے ۔

”عزت کی موت مرنے کی ضرورت نہیں ،زندہ واپس آنا۔“

لیکن جنگ تو جنگ ہے۔رفیع نظریاتی مقاصد کی دھول کو اگر اس سے منہا کردیا جائے تو جنگ کی حقیقت محض زندہ ہنستے مسکراتے انسانی وجودوں کی مردہ جسموں میں منتقلی ہے۔ یوں مس اوئیشی کے بچ جانے والے شاگرد بھی ایک ایک کر کے جنگ کی سفاکیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹی ”یاتسو“بھی اپنے والد کی طرح جنگ کی اس ہولناکی کی نذر ہو جاتی ہے۔ جنگ کے ہاتھوں پیدا کیا گیا خودساختہ قحط اس ننھی معصوم بچی اور اس کے ساتھ کئی ننھے فرشتوں کی جان لے لیتا ہے۔ ناول کا یہ حصہ خاصا درد ناک ہے۔

”کافی عرصے سے یہ دستور ہو گیا تھا کہ پرسیمن پکنے تک پیڑوں پر لگے نہیں رہنے دئیے جاتے تھے۔کیونکہ انتظار کا صبر لوگوں سے رخصت ہو چکا تھا۔بچے ہمیشہ باہر نکل جاتے اور بھوک سے بے تاب ہو کر کوئی بھی اُگی ہوئی چیز کھا لیتے۔وہ میٹھے آلوﺅں کو اُن پر لگی ہوئی مٹی سمیت کچا کھا جاتے۔ سب کے پیٹ میں کیڑے ہو گئے تھے۔ ۔۔مگر بیمار پڑ جانے والے دیہاتیوں کے لئے کوئی ڈاکٹر موجود نہ تھا۔۔ ڈاکٹر اور دواﺅں کو جنگی خدمت کے لئے طلب کر لیا گیا تھا۔“

”ہر چیز کی قلت تھی اس لئے مسز اوئیشی نے ایک پرانی شکستہ الماری کی لکڑی کو تابوت کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ باغوں سے پھول بھی رخصت ہو چکے تھے کہ مرنے والی کے تابوت پہ ڈالے جا سکیں۔“

”۔۔جب چھوٹا سا تابوت تیار ہو گیا تو اس لالٹین کو اس تابوت کے اندر اس ننھی بچی کے چہرے کے پاس رکھ دیا گیا۔سیپیاں اور کاغذی گڑیاں بھی جن سے یاتسو کھیلا کرتی تھی۔۔اس کے دونوں بھائی اچانک دکھ سے بے اختیار ہو کر رونے لگے۔دائے کیچی کو سسکیاں لیتے ہوئے اپنا کھیلنے کا رِنگ یاد آیا ۔جس سے کھیلنے کا یاتسو کو ہمیشہ شوق رہا تھا۔ اس نے یہ رِنگ کبھی اس کے حوالے نہ کرنے پر خود کو ملامت کی اور اب اس کی تلافی کا ارادہ کیا۔ اس نے یہ رِنگ یاتسو کے ہاتھوں میں پکڑانے کی کوشش کی جو سینے پہ بندھے ہوئے تھے۔لیکن اس کی سرد انگلیاں اب اسے تھامنے پہ تیار نہ ہوئیں۔رِنگ پھسل گیا اور تابوت کے فرش پہ جا گرا۔ نا میکی بھی روتے ہوئے اپنے رنگ دار کاغذ لے آیا جو وہ یاتسو کی نظر سے بچا کر اور بہت سنبھال کر رکھتا تھا۔ اس نے اِن کاغذوں کو موڑ کر چڑیاں ،سپاہی اور غبارے بنائے اور تابوت میں رکھ دیے۔ ان سارے تحفوں کے ساتھ یاتسو اگلے جہاں کو روانہ ہوئی۔“

ناول میں اس ننھی بچی کا کردار اپنی موت کے ساتھ ہی قاری کے ذہن میں یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ انسانی جان اور اس کی حرمت و تقدیس کیا اتنی ہی ارزاں ہے کہ اُسے جنگ کا ایندھن بننے کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینا آج بھی اُتنا ہی درد ناک ہے جتنا کہ دوسری جنگِ عظیم کے وقت تھا۔آج بھی جب شام کے شہر حلب کی تباہ شدہ عمارت سے زخمی اور دہشت زدہ ننھے عمران داغلیش کو نکال کے لایا جاتا ہے تو اس کی آنکھوں میں خوف سے منجمد ہوا یہی سوال اُبھرتانظرآتاہے جو ترکی کے ساحل پہ اوندھے پڑے ننھے ایلان کردی کی بند آنکھوں میں مجسم تھا۔لیکن رکئے صرف شام ہی کیوں جنگ کی سفاکیت کو جھیلتے کشمیری بچے بھی تو اس سوال کو اپنی خوف زدہ آنکھوں میں سموئے ہوئے ہیں لیکن یہاں تو ان سوالوں کو مٹانے کے لئے پیلٹ گن سے وہ آنکھیں ہی چھلنی کر دی جاتی ہیں جو ایسے کسی سوال کی متحمل ہو سکتی ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کی روک تھام کے لئے بنائے گئے عالمی ادارے آخرفعال کیوں نہیں؟کیا اس کے پسِ پردہ ان کے اپنے ذاتی تعصبات یا مفادات ٹھہرے؟ یا پھر ان کا کردار عالمی طاقت کی دنیا میں محض برائے نام ہے؟ہم سب جانتے ہیں کہ جنگی جنون کو جنم دینے والی طاقتیں در حقیقت اس کاروبار کے شاخسانے ہیں جس کا کام دنیا کے کئی ممالک کے درمیان جرائم و دہشت گردی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ دانستہ جنگ کا ماحول پیدا کرناہے۔جس کو بنیاد بنا کریہ نام نہاد مہذب طاقتیں دونوں ممالک کو اپنے خطرناک اورمہلک ہتھیارمنہ مانگے داموں فروخت کرتی ہیں اور اس سرمائے کے بل پہ اپنی طاقت کو مزید مستحکم کرتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی اداروں کو اس سلسلے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس خطے میں امن تبھی قائم ہو سکتا ہے جب ہر ریاست انفرادی سطح پہ نہ صرف جنگ کے اس کاروبار کی مذمت کرے بلکہ قومی و نسلی تفاخر پہ مبنی طاقت کے بد ترین اظہار کی روک تھام کے لئے ہتھیاروں کی خرید و فروخت پہ پابندی لگانے اور اسے برقرار رکھنے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔نہیں تو وہ وقت دور نہیں جب اس ناول کی طرح یہ ترانہ ہمارے بھی درد کی آواز بن جائے۔

وہ قلعہ کھنڈر ہو گیا

جہاں سورما سکون سے

چاندنی میں بیٹھ کر

ساکے کے جام گردش میں لاتے تھے

اور چیری کے پیڑ

پھولوں سے لدے رہتے تھے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments