عورت اور لفظ کا رشتہ


\"roshورجینیا وولف نے کہیں سوال کیا ہے کہ ’ اگر شیکسپیر کی بہن بھی اس جیسی صلاحیت کی مالک ہوتی تو معاشرہ اس سے کیا سلوک روا رکھتا\’؟

ہمارے معاشرے میں آج بھی لوگوں کی اکثریت کے سامنے اگر عورت کے حقوق ، اس کی سوچ اور فکر کا نام لیا جائے تو ان کے چہروں پر تمسخرانہ مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے ۔ جبکہ زمین پر انسانی زندگی کی ابتداء کے ساتھ ہی عورت ایک خوب صورت مجسمے کی صورت مرد کے تخلیقی عمل کو جلا بخشتی رہی ہے۔ دنیا کے ہر ادب میں عورت کی معصومیت کے گن گائے گئے۔ اسے تمام فنون لطیفہ کا محرک کہا گیا ہے۔ بنیادی انسپریشن کہا گیا مگر اس کے ہاتھ میں قلم دینے سے پرہیز کیا گیا۔ اسے شاعری کا موضوع تو بنایا گیا مگر خود شاعر نہیں بننے دیا گی۔ اس کے گرد بہت سی داستانیں گھڑی گئیں مگر خود اسے کہانی کہنے کا حق نہیں دیا گیا۔

یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب میں عورت کی ذہنی صلاحیت سے خوف کھایا جاتا رہا ہے۔ اسے ایک فرد کی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا، اس کے ذہن کی بات نہیں کی گئی۔

لہٰذا یہ فریضہ بھی خواتین کو خود ادا کرنا پڑا کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ وہ بھی ذہن رکھتی ہیں اور ان کا اپنا ایک تشخص ہے۔

عورت اور لفظ کا رشتہ دنیا کی معلوم تاریخ میں تقریباً ساڑھے تین ہزار برس پرانا ہے قدیم مصری تہذیب میں عورت کی شاعری کے نمونے محفوظ ہیں۔ عورت دنیا کی نصف آبادی ہے، وہ کیا سوچتی ہے، کیا محسوس کرتی ہے کیا خواب دیکھتی ہے اور کیسی دنیا میں زندہ رہنا چاہتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments