اسامہ کائرہ کی موت کے ساتھ جڑے کچھ قصے


کچھ لوگ اس تاک میں بیٹھے تھے کہ ان سیاہ دیواروں کی تصویر کھینچ کر اس کے پوسٹر بنائے جائیں اور شہر کی خالی رہ جانے والی دیواروں پر چسپاں کر دیے جائیں۔ اس گروہ کو بھی کائرہ صاحب کے غم سے کوئی مطلب، کوئی سروکار نہیں تھا۔ انہیں سیاسی تنقید کے لیے ایک اٹھارہ سال کے مردہ بچے کا کندھا چاہیے تھا سو انہوں نے اپنی بندوق اس پر ٹیکی اور فائر کرنے شروع کر دیے۔

میں سمجھ سکتا تھا اگر پہلے والے رویے کی تنقیص کی جاتی۔ اس پر تبرا کیا جاتا، بے ہودہ بات کرنے والوں کو کسی اگر، مگر اور لیکن کے بغیر ایک کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے کہے پر بات ہوتی، ان کی وابستگی پر نہیں۔ پر ان سیاست زدگان نے ہر تعفن زدہ جملے کو جیسے ہی ایک سیاسی جماعت کی فکر سے جوڑا، ان کی ساری مذمت پانی میں بہہ گئی اور ملمع زدہ چہرے کے نیچے سے ویسا ہی عفریت نکل آیا جس کے پیچھے یہ پتھر لے کر دوڑے تھے۔ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ بس نشانے فرق تھے۔ دونوں قبیلوں سے کہنا یہ تھا کہ ہر بات سیاسی ایجنڈے کے لیے نہیں ہوتی۔ ہر تنقید سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے نہیں ہوتی اور ہر دکھ بیچنے کے لیے نہیں ہوتا۔ اگلوں کو منع کرتے ہیں اور ٹھیک کرتے ہیں پر اپنی گج گامنی چال پر بھی نظر کر لیجیے۔

آخری بات وہ ہے جو یاروں کو پسند نہیں ہے۔ حادثہ ہوا تو جہاں بہت سوں نے یہ سوال اٹھائے کہ گاڑی میں ایر بیگ نہیں تھے یا اور حفاظتی انتظامات کا فقدان تھا۔ طبی سہولت فوری موجود نہیں تھی وہاں اکثریت نے سمجھایا کہ جب کسی کا وقت آ جاتا ہے تو کوئی اسے نہیں ٹال سکتا۔ ایر بیگ، سیٹ بیلٹ یا طبی سہولیات سے مزین ایمبولنس، سب موت کے معین وقت کے آگے بے بس ہیں۔ میں بہت نرم لہجے میں بھی بات کروں تو اس سے بودا، احمقانہ اور فضول نظریہ ممکن نہیں۔ تقدیر مبرم کا یہ فلسفہ ہمارے کتنے ہی مسائل کی جڑ میں گھر بنائے ہے۔ ہم دیمک کو ختم کرنے میں نہیں، اسے پالنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی اوسط عمر اسی پچاسی سال تک جا پہنچی ہے۔ اچھی سہولیات، بہتر خوراک، حفاظتی انتظامات اور طبی میدان میں ترقی نے معینہ موت میں بیس سے پچیس سال تک کی توسیع کر دی ہے۔ دو رویہ سڑکوں نے حادثات آدھے کر دیے ہیں۔ سیٹ بیلٹ اور ایر بیگ نے سنگین حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں پچھتر فی صد کی کمی کر دی ہے۔ بہتر طبی سہولیات نے زچگی میں ہونے والی اموات کو نوے فی صد تک کم کر دیا ہے۔ اور اس طرف ہم کھڑے ہیں۔ راحت فتح علی خان کی آواز میں آواز ملا کر ”موت کا ایک دن معین ہے“ گنگنانے والی قوم کے یہاں زچگی میں ہونے والی اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جاپان میں 6.8 کے زلزلے میں تین اموات ہوتی ہیں ہمارے یہاں 6.8 کے زلزلے میں ہزار ہا لوگ مر جاتے ہیں۔ وہ انجینئرنگ سے قدرتی حادثات کا تدارک کرتے ہیں، ہم اسے اللہ کی مرضی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔

میں اپنے ان پڑھے لکھے دوستوں کو جانتا ہوں جو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سیٹ بیلٹ کا بکل خالی سیٹ سے گزار کر اسے مقفل کر دیتے ہیں تاکہ گاڑی کی وارننگ بیپ نہ سننی پڑے۔ سوچیے یہی عادت جب ان کے بچوں میں راسخ ہو گی اور کل کو ایک حادثے میں یہی سیٹ بیلٹ زندگی اور موت کا فرق بنے گی تو پھر یہ کیا سوچیں گے۔ دنیا میں سستی سے سستی گاڑی میں بھی چار سے چھ ایر بیگ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں آٹو موبیل مافیا کی اجارہ داری میں بننے والی نوے فی صد گاڑیوں میں سرے سے ایر بیگ ہوتا ہی نہیں اور پچیس تیس لاکھ سے مہنگی گاڑیوں میں بصد احسان ایک یا دو ایر بیگ نصب ہوتے ہیں جو اکثر کام ہی نہیں کرتے۔ سابق وزیر شیر افگن نیازی کے بیٹے کی موت ایسے ہی حادثے میں ہوئی۔ انہوں نے اسی خامی کی بنا پر مقامی طور پر کاریں بنانے والی مشہور ترین کمپنی پر مقدمہ کیا جس کا ان کی اپنی وفات تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اگر موت اپنے وقت اور اپنے طریق پر کسی آسمانی طاقت کی مرضی سے آتی ہے تو سارے قاتلوں کو جیل سے رہا کر دینا چاہیے۔ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اس نے انسانیت کو قتل کیا جیسے اقوال نصاب سے خارج کر دینے چاہئیں۔ ہسپتال بند کر دینے چاہئیں۔ ٹریفک پولیس کا محکمہ ختم کر دینا چاہیے۔ موٹر وے پر حد رفتار ختم کر دینی چاہیے۔ سیلاب اور قدرتی حادثات کے انتظام کا محکمہ ختم کر دینا چاہیے۔ کرنٹ سے بچانے والے فیوز کی فروخت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ اونچی عمارتوں سے حفاظتی ریلنگ اتار لینی چاہیے۔ فوڈ کنٹرول ختم کر دینا چاہیے۔ حفاظتی ٹیکے اور ویکسینز دریا برد کر دینی چاہئیں اور سب سے اہم یہ کہ فوج اور پولیس دونوں اداروں کے تمام ملازمین کو بیک جنبش قلم معزول کر دینا چاہیے۔ جس نے جب مرنا ہے سو مر ہی جائے گا۔ ڈر کاہے کا۔

ایک جوان موت میں کیا کیا سبق چھپے ہیں۔ اگر کوئی سیکھنا چاہے تو پر ہماری عقل، ہماری تربیت اور ہمارے نظریے، یہ موت سے بھی عجیب معاملے ہیں کہ میں شاید موت کو تو سمجھ لوں پر ان کو کبھی سمجھ نہیں پاتا۔ اپنے جوان بچوں، بھائیوں اور بہنوں پر نظر کیجیے۔ ان کی زندگی کو قیمتی جانیے۔ اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ عقلی قدم اٹھائیے جو اٹھانا چاہیے۔ یقین رکھیے، آسمانوں سے اب حفاظت کے لیے کوئی نہیں اترے گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad