انیس ہارون کی آپ بیتی


اب دہر میں بے یار و مددگارنہیں ہم۔\"mahnaz2\"

پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم

آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا

تقدیر پہ شاکر پس دیوار نہیں ہم

حبیب جالب کی یہ نظم ویمنز ایکشن فورم کا ترانہ بن چکی ہے اور  ‘‘کب مہکے گی فصل گل’’  پڑھ کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی عورتیں دہرمیں بے یارو مددگار نہیں ہیں اور انہیں اپنے مقدر کو بنانا آتا ہے۔ اس حوالے سے انیس ہارون حقوق نسواں کی کارکنوں کی رول ماڈل رہی ہیں، ایک ذہین طالبہ، شعلہ فشاں مقرر، بائیں بازو کی سیاسی کارکن، فیمنسٹ اور پاکستانی عورتوں کی تحریک کی سرکردہ رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک محبت کرنے والی بیوی اور ماں بھی ہیں اور انہوں نے اپنی ساری ذمہ داریاں خوش اسلوبی کے ساتھ نبھائی ہیں۔ ان کی کتاب پڑھ کر میں سوچ رہی تھی کہ اگر کبھی کسی نے پاکستان میں سوشلسٹ فیمنسٹ اسکول قائم کیا تو اس کے نصاب میں ’کب مہکے گی فصل گل ‘ ضرور شامل ہو گی اور طالبات اس کو ویسے ہی مزے لے کر پڑھیں گی جیسے کبھی ہم غالب کے خطوط پڑھتے تھے۔ ان خطوط کی سب سے بڑی خوبی یہی بیان کی جاتی ہے نا کہ یوں لگتا ہے جیسے دو آدمی آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں اور اس عہد کی ساری سیاسی و سماجی صورتحال سامنے آ جاتی ہے تو یہی معاملہ اس کتاب کا بھی ہے۔

انیس 1960ء کے عشرے کی تحریکوں کے درمیان پلنے بڑھنے والی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ نسل انقلاب لانے کا خواب دیکھ رہی تھی\"anis2\" اور اسے پورا یقین تھا کہ وہ انقلاب لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تب دنیا بھر میں بائیں بازو کی سرگرم تحریکیں اور دانشورانہ کرنٹس چل رہے تھے، اس کے ساتھ طلبہ کا جوش وخروش بھی عروج پر تھا۔ بین الاقوامی منظر نامے پر دنیا میں جمال عبدالناصر ہیرو بن کر ابھرے تھے۔ نہر سویز پر حملہ انیس کے ایکٹو ازم کی ابتدا تھا۔ دس سال کی بچی جمال عبدالناصر کا پوسٹر اٹھا کر جلوس میں شامل ہو گئی تھی، جلوس ختم ہوا تو اکیلی رہ گئی اور برٹش کونسل لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر رونے لگی تو ایک پولیس والا انہیں رکشہ میں بٹھا کر گھر چھوڑ گیا ’’کتنے اچھے دن تھے، وردی سے اعتبار اٹھا نہ تھا بلکہ حفاظت کا احساس ہوتا تھا‘‘

پاکستان میں بائیں بازو کے گروپس میں زین الدین کا گروپ بھی تھا جس میں شمیم زین الدین، معراج محمد خان اور انیس ہارون شامل تھے۔ بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے مگر جلد ہی بنگلہ دیش اور دیگر معاملات پر اختلافات کی بنا پر ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انیس کے ہاں طبقاتی جدوجہد کے شعور میں توسیع ہوتی چلی گئی اور جبر و استحصال کی دیگر شکلوں خاص طور پر صنفی امتیاز کی بنا پر ہونے والے ظلم و ستم کا احساس زور پکڑتا گیا۔ ضیاالحق کے دور میں کراچی میں ایک جوڑے کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ فہمیدہ نامی ایک لڑکی نے اللہ بخش کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کرلی۔ فہمیدہ کے والدین اس شادی سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے تھانے میں اللہ بخش کے خلاف بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کروایا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ریاست بیچ میں کو د پڑے گی اور وہ زنا کا مقدمہ بن جائے گا۔ دونوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ فہمیدہ حاملہ تھی او ر انہوں نے شادی کرلی تھی۔ مگر ان کا نکاح رجسٹر نہیں تھا یا اس میں کچھ بے قاعدگی تھی۔ پولیس نے عدالت میں جوڑے کو پیش کر دیا اور سیشن کور ٹ نے سو کوڑوں اور قید کی سزا سنا دی۔ فہمیدہ چونکہ حاملہ تھی اس لئے زچگی کے بعد کوڑے لگائے جانے والے تھے۔ اس خبر نے عورتوں میں بے چینی کی لہر دوڑ ادی۔ اور انہوں نے سوچا بس اب بہت ہوگیا۔ ہم اب بھی نہ بولے تو کبھی نہ بول پائیں گے اور ریاست حاوی ہوجائے گی۔

کراچی میں پروفیشنل تنظیموں اور سیاسی سوچ رکھنے والی خواتین ایک ادارے شرکت گاہ میں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے ایک پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کردیا۔ اس میں اپواء، پاکستان ویمنز لائرز ایسوسی ایشن، جمہوریت پسند خواتین، شرکت گاہ اور دیگر خواتین شامل تھیں۔

عورتوں کی تنظیمو ں اور انفرادی خواتین سے بننے والے اس پلیٹ فارم کا نام خواتین محاذ عمل (ویمن ایکشن فورم) رکھا گیا۔ پہلی میٹنگ میں \"anis\"30 خواتین شریک ہوئی تھیں۔ فہمیدہ اللہ بخش کے لئے آواز اٹھانے اور حدود آرڈیننس کے خلاف ایک دستخطی مہم شروع کی گئی۔ چند ہی دنوں میں دس ہزار دستخط جمع کرلئے گئے جس میں پہلا نام بیگم رعنا لیاقت علی خان کا تھا۔ اسلامی فقہہ کے ماہر معروف وکیل خالد اسحق صاحب نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ ویف کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ عدالت نے فہمیدہ اللہ بخش کی سزا کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ یہ عورتوں کی پہلی کامیابی تھی مگر ایک لمبا راستہ طے کرنا تھا۔ تمام تفریقی قوانین کو ختم کروانا تھا۔ کبھی عورتوں کو پردے میں بٹھانے کی بات ہوتی۔ کبھی خواتین یونیورسٹی بناکر انہیں مخلوط کالجوں سے الگ کرنے کا شوشہ چھوڑا جاتا تو کبھی اسپورٹس میں جانے والی کھلاڑیوں پر پابندی لگادی جاتی۔ ویف کاکام بڑھتا گیا۔ بہت جلد لاہور میں بھی ویف کا چیپٹر کھل گیا اور کچھ عرصے بعد اسلام آباد اور پشاور کی خواتین بھی متحرک ہوگئیں۔ اس تنظیم کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ ایک غیر درجاتی تنظیم تھی جس کے کوئی عہدے نہیں تھے۔ تمام ممبران برابر تھے اور سب کی رائے سے فیصلے کئے جاتے۔ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ سرکار یا غیر ملکی اداروں سے کوئی فنڈ نہیں لینا ہے اور سیاسی تنظیم ہے لیکن کسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہوگی۔ سیاسی یوں کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ضیاالحق کے زمانے میں جب سیاست اور صحافت پر زباں بندی تھی ویف کی خواتین نے کھل کر نہ صرف اپنے حق مانگے۔ تفریقی قوانین کو رد کیا بلکہ آمریت کو بھی چیلنج کیا۔ انگریزی اخباروں میں ویف کے بیانات چھپ جاتے کیونکہ تحریک کی صحافی ممبران وہاں بیٹھی تھیں لیکن اردو اخبار کچھ نہیں چھاپتے تھے۔

ویف نے احتجاج کے نئے طریقے نکالے۔ سیمینار، اسکٹ، گانے، پوسٹر، پمفلٹ، ورکشاپ اور نیوز لیٹر نکالے گئے۔ ضیاالحق کے خلاف پہلی \"anisمزاحمت عورتوں کی تھی جس کو سول سوسائٹی کے روشن خیال حلقوں سے پذیرائی ملی۔ مشہور مفکر حمزہ علوی نے اپنے ایک مقالے میں ویف کو جمہوری جدوجہد کا ہراول دستہ کہا ہے۔

کتاب کا پیش لفظ فہمیدہ ریاض نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’انیس نے بہت عرصے بعد قلم اٹھایا ہے پھر بھی اس کی تحریر میں روانی، شگفتگی اور سنجیدگی بھی ہے۔ تاریخ کا پورا دور اس طرح سامنے آجاتا ہے جیسے کوئی پرانی فلم چل رہی ہو۔ انیس کو لکھتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے پاس کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے۔ جو نئی نسل کے بہت کام آسکتا ہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments