قبولی کا دیگچہ اور فکری بے سمتی کا نوحہ


ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں فکری طور پر بے سمت ہونا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں فی زمانہ ’ قابل قبول‘ ہونے \"raziکی اصطلاح بھی رائج ہو چکی ہے لیکن اس اصطلاح سے بہت پہلے یار لوگوں نے منافقت کو غیر جانبداری کا نام بھی دے دیا تھا۔ اور ہم نے ایک عرصہ تک ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو غیرجانب داری کے نام پر ہر دسترخوان سے خوشہ چینی کرتے تھے اور اسے غلط بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ہم جن اصطلاحات کو آج کی اصطلاحیں سمجھتے ہیں ان کی جڑیں تلاش کریں تو بہت دور تک جاتی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان کی مخالفت کرنے والوں نے یہ دیکھا کہ پاکستان اب ایک حقیقت بن چکا ہے اور انہوں نے اس کے قیام کے خلاف جو جد و جہد کی تھی اس کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی تو انہیں بادلِ ناخواستہ پاکستان کو تسلیم کرنا پڑا۔ ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے دامن سے قیام پاکستان کی مخالفت کا دھبہ کیسے دور کریں۔ سو ذہنی طور پر نہ سہی انہوں نے ظاہری طور پر پاکستان کو ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا اور اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے اس دائرے میں رہ کر نئے انداز میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے لگے۔ اورپھرانہوں نے الگ الگ دائرے تشکیل دیئے۔ کہیں پاکستان کی نظریاتی اساس کی بات کی گئی تو کبھی یہ کہاگیا کہ ہم پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت تو کریں گے لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کسی دوسرے کی سرحدوں کا احترام ہم پر لازم نہیں۔

کچھ ایسی ہی ذہنیت اس بیوروکریسی کی تھی جو قیام پاکستان کے بعد کے دنوں میں یہاں اپنی گرفت مضبوط کررہی تھی۔ عوام نے تو قیام پاکستان کے ان دشمنوں کو آج تک قبول نہیں کیا لیکن پاکستان کی مقتدر طاقتوں نے پہلے روز ہی انہیں اپنا بغل بچہ بنا لیا اور انہی کی مدد سے پاکستان میں جمہوریت کے خلاف تانے بانے بنے جانے لگے۔ ایک خاص سوچ کے حامل افراد کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مختلف اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز کر دیا گیا۔ خاص طور پر وہ ادارے جہاں سے سوچ پروان چڑھتی ہے اور جہاں سے رائے عامہ ہموار کی جا سکتی ہے ان تمام اداروں میں جماعت اسلامی کے ہمدرد اور رفیق براجمان ہو گئے۔ تعلیمی اداروں میں جمعیت کا راج ہوا۔ اور روشن خیال اساتذہ کا جینا حرام کر دیا گیا۔ کچھ ایسی صورت ہی اخبارات میں دیکھنے کو ملی۔ کالم نگاری سے اداریہ نویسی تک سب کچھ زیڈ اے سلہری نما صحافیوں کو سونپ دیا گیا۔ اوراس فکر کے جو لوگ اخبارات میں جگہ نہ پاسکے یا جو اخبارات کے قابل نہیں تھے انہیں ہفت روزوں اور ڈائجسٹوں کے ڈیکلریشن فراہم کر دیے گئے۔ پھر کاغذ کے کوٹے بھی ملے اور سرکاری و نجی اشتہارات کی بھی ریل پیل ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر جانب وہی فکر پروان چڑھنے لگی جوآج بھی ہمیں دکھائی دے رہی ہے۔

رہ گیا سرکاری ریڈیو اور پی ٹی وی تو ان بیچاروں کی کیا مجال تھی کہ وہ پر بھی مارسکیں۔ لیکن احتیاطاً وہاں بھی کلیدی عہدے ایسی ہی سوچ کے حامل افراد کے سپرد کر دیے گئے اور راجہ ظفرالحق کا راج ہرطرف دکھائی دینے لگا۔ پھر اشفاق احمد نے طوطا کہانیاں سنائیں۔ اور بابا جی بن کرٹی وی پر رونق افروز ہوگئے۔ پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس جیسے سیاہ قانون کے خالق الطاف گوہر نے ٹی وی پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تفسیر بیان کرنا شروع کردی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے پراسرار لیکچر بھی قوم کو سنائے جانے لگے۔

نظریاتی تقسیم جب بہت گہری ہوگئی اور روشن خیال لوگوں کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا تو انہوںنے قابل قبول ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ قابل قبول کا لفظ دراصل سجدہ سہو کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اور بہت سے ایسے دانشور جنہیں ہم آئیڈیل سمجھتے تھے ایک ایک کرکے ان کے چرنوں میں سجدہ ریز ہوگئے جو ہرچیز کے حاکم تھے۔ پھران ترقی پسندوں کو جماعت اسلامی اور اس کی سرپرستی کرنے والی قوتوں کے کوٹے سے راتب بھی ملنے لگا۔ جن اداروں کے دروازے ان پر بند تھے رفتہ رفتہ کھول دیئے گئے اور یوں متضاد سوچ رکھنے والے ایک دوسرے کے لئے قابل قبول ہو گئے۔ کچھ ایسی ہی لہر سیاست کے میدان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ وہ قوتیں جو پیپلز پارٹی کو ملک دشمن سمجھتی تھیں اور اسے مکمل اقتدار نہیں دینا چاہتی تھیں پیپلزپارٹی نے انہی قوتوں کے لیے قابل قبول ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس کی پہلی مثال ہمیں 1988ء میں دیکھنے کو ملی جب بے نظیر بھٹو نے قابل قبول ہونے کی کوشش میں غلام اسحق خان اور صاحب زادہ یعقوب خان سمیت وہ تمام شرائط قبول کر لیں جوبعد ازاں صرف جمہوریت ہی نہیں پاکستان کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوئیں۔ اسی قابل قبول ہونے کی کوشش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو جان کی بازی ہارنا پڑی اور پھر یہی عمل آصف علی زرداری نے شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کی نظریاتی اساس ختم ہوگئی اور سمیٹنے کے لئے اب سنگ بھی باقی نہیں رہے۔

قابل قبول ہونے کا یہ عمل یک طرفہ ہرگز نہیں تھا۔ اگر ایک جانب ترقی پسند خود کو رجعت پسندوں کے ساتھ جوڑ رہے تھے تو دوسری جانب رجعت پسندوں نے بھی خوشی خوشی وہ سب کچھ قبول کرلیا کہ جس کے کبھی وہ شدید مخالف تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فیض احمد فیض ہیں جن کا ترانہ جماعت اسلامی کے صالحین نے لہک لہک کر گایااورآج بھی گاتے ہیں۔ پھر ترقی پسند تحریک پر جماعتیوں کا قبضہ ہوا اوراسی طرح ٹریڈ یونین میں بھی قبولیت اور مقبولیت کی دوڑ لگ گئی۔ ایک دور تھا جب صحافیوں میں نظریاتی تقسیم بہت زیادہ تھی۔ انجمن صحافیاں کے الیکشن میں یہ تفریق مزید واضح ہوجاتی تھی۔ ایک طرف منہاج برنا کی قیادت میں روشن خیال لوگ صف آرا تھے تو دوسری جانب ضیاء دور میں اسلام پسند صحافیوں کو رشید صدیقی گروپ میں جمع کیا گیا۔ ایک طویل عرصہ یہی دونوں گروپ میدان میں آتے تھے۔ پھریوں ہوا کہ برنا گروپ والوں نے بھی یہ اعلان کردیا کہ ہمیں ایک دوسرے کو قبول کرنا چاہیے۔ سو وہ بہت سے لوگ جو دوسری صف میں تھے جوق درجوق ترقی پسندوں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ اور اب یہ صورت تقسیم درتقسیم کی طرف جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہونے کی اس دوڑ نے ہمیں جس نظریاتی بے سمتی کا شکارکیا ہے اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم لوگ ذاتی مفادات کے لئے ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہوتے چلے جائیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ اب قابل اعتبارکوئی نہیں رہا۔ ہماری رائے میں قابل قبول ہونے کی بجائے قابل اعتبارہونا اعزاز کی بات ہے لیکن افسوس اب یہ اعزاز کسی کو درکار ہی نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments