ذات پات بدترین نسل پرستی ہے


انسانی حقوق کی تعلیم کا کام کرتے ہوئے یہ تجربہ ہوا کہ ملک کے مختلف حصوں میں اقدار اور معاشرتی پسماندگی کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں، شدت اور درجہ بندی میں کوئی فرق نہیں۔ تشدد کی ثقافت پاکستان کے ہر منطقے اور ہر گروہ میں موجود ہے۔ اپنے سے مختلف کو غلط اور کمتر سمجھنے کا رویہ عام ہے۔ ہمارا متوسط تعلیم یافتہ طبقہ ذات پات کی مساوات کے ضمن میں تکلیف دہ حد تک بے لچک واقع ہوا ہے۔

جمہوریت میں اختلاف اور تنوع کی ثقافت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اختلاف صرف رائے کا نہیں ہوتا، ہر انسان کی ذات میں شناخت کے ایک سے زیادہ ایسے پہلو موجود ہیں جو پیدائش کے اتفاقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان نسبتوں کے انتخاب میں ہمارا شعوری دخل نہیں ہوتا۔ شناخت کا احترام انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ شناخت جبر نہیں، شناخت کا رضاکارانہ انتخاب انسانی آزادیوں کا حصہ ہے۔ انسانی شناخت کا احترام ایک بنیادی اصول کے تابع ہے:

تمام انسان حقوق، رتبے اور صلاحیت میں ایک جیسے ہیں۔ تمام انسان سوچنے کی ایک جیسی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیکھنے کی ایک جیسی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسانی امکانات سے فائدہ اٹھانے کا ایک جیسا حق رکھتے ہیں۔ تمام انسان پیداوار، ترقی اور تخلیق میں اپنا حصہ ڈالنے کا ایک جیسا حق رکھتے ہیں۔

انسانی مساوات کا یہ اصول پیدائش کے امتیاز کی نفی کرتا ہے۔ معاشرتی ارتقا کے جن مرحلوں میں بقا بنیادی سوال کی حیثیت رکھتی تھی وہاں، نظم وضبط، اختیار، اونچ نیچ اور وسائل پر حق یا محرومی کے اصول ضابطے وضع کے گئے۔ ان تمام امتیازات کی بنیاد طاقت کا حصول تھا۔ کہیں زیادہ جسمانی طاقت کے بل پر دوسروں کو وسائل سے محروم کیا گیا، کہیں اکثریت کے بل پر بالادستی قائم کی گئی، کہیں ہنر اور علم میں برتری کی مدد سے حد بندی کی گئی۔ مساوات کا اصول ایسے تمام امتیازات کی نفی کرتا ہے اور ایسے معاشرے کی طرف سفر کی نشاندہی کرتا ہے جہاں پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں۔ گورا ہو یا کالا، عورت ہو یا مرد، کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی ثقافت ہو، کسی بھی خطے میں پیدایش ہو، انسان کا رتبہ ایک جیسا ہے، حقوق مساوی ہیں اور صلاحیت ایک جیسی سمجھی جائے گی۔

امتیازات کو جواز دینے کے لئے الوہی جواز تراشے گئے تھے، مختلف مذہبی گروہ خود کو خدا کا چنیدہ یا منتخب گروہ قرار دیتے تھے۔ جو مذہبی گروہ اختیارات پر قبضہ کر چکے تھے، انہیں اپنے وسائل میں تقسیم گوارا نہیں تھی۔ وہاں اختلافی عقیدے کی تبلیغ، قبول یا استرداد کا اصول ختم کر دیا گیا۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اور دانشور ایک ایسے مذہبی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے جس میں شمولیت صرف پیدائشی طور پر ممکن ہے۔ وہ ایک روشن خیال، روادار اور نفیس انسان تھے۔ لیکن بین المذاہب شادی کو نسلی چوپائے کے گلی کوچوں میں کسی آوارہ چوپائے کے ساتھ جنسی اختلاط سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ یہ خوفناک تضاد تکلیف دہ تھا لیکن سورگ باشی دانش ور میں پایا جاتا تھا۔

کچھ مذاہب میں تبلیغ اور دوسرے ذرائع سے شمولیت کی گنجائش رکھی گئی لیکن ان میں بھی اکثر یہ التزام کیا گیا کہ باہر سے کسی کے عقیدہ قبول کرنے اور گروہ سے رضاکارانہ اخراج کے قاعدے الگ الگ ہوں گے۔ جلد کے رنگ کا فرق ختم کرنا تو گویا امکان سے باہر تھا۔ زبان میں اصوات کی بنیاد پر ٹکسالی اور اجنبی لہجوں کی تقسیم کی گئی۔ اسی طرح مفروضہ قبائلی اور نسلی گروہ تشکیل دئے گئے جو کسی موہوم بلکہ نامعلوم اب و جد  کی عسکری رستاخیز یا جنسی مہم جوئی کا نتیجہ تھے۔

جنس، رنگ، نسل، عقیدے یا زبان کی بنا پر انسانوں میں امتیاز کا بنیادی ہدف فیصلہ سازی پر اختیار ہے۔ فیصلہ سازی پر اختیار اس لئے مانگا جاتا ہے تا کہ وسائل پر اجارہ یقینی بنایا جا سکے۔ وسائل پر اجارے کا سوال معیشت کے اس مرحلے سے تعلق رکھتا ہے جہاں آبادی پر قابو پانا ممکن نہیں تھا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے پیداوار اور وسائل میں لامحدود اضافہ ممکن نہیں تھا۔ اب علم کی دنیا میں جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ علم نے پیداوار کے نئے امکانات پیدا کئے ہیں، نئے پیداواری امکانات نئی معاشرتی اقدار کا تقاضا کرتے ہیں۔ امتیاز، استحصال، جنگ اور تشدد ایک اور دنیا کی کہانی ہیں۔ اب مساوات، علم، امن اور دلیل کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مفادات کا بہتر تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

انسان کی پیدائش ایک اور عورت اور ایک مرد کے اختلاط کا نتیجہ ہے۔  یہ سوال بے معنی ہے کہ یہ اختلاط کن حالات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس میں جبر کو دخل تھا یا دوطرفہ جنسی کشش کار فرما تھی۔ فریقین کو انتخاب کی آزادی تھی یا نہیں؟ فریقین معیشت، معاشرت اور جغرافیے کے کن منطقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جمےجمائے معاشروں میں رہتے تھے، خانہ بدوش تھے، ہجرتوں میں تھے یا پناہ گزین تھے۔ بھوک، بیماری، وبا اور جنگ کا شکار ہوئے تھے یا حملہ آوروں نے انہیں نسل کشی کا آلہ بنایا تھا۔ انہیں قیدی بنا کر تسکین آور درجہ دیا گیا تھا یا وہ حیاتیاتی تقاضے کے تحت مسرت کے حصول کی کوشش میں تھے۔ ان کے ارد گرد گروہی شناخت کے کیا امکانات دستیاب تھے۔ ہم تاریخ کے بیشتر حصوں کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔

انسانی نسل کرہ ارض کے کونے کونے میں موجود ہے۔۔ خود اپنے اور اپنے ہم عصروں کے بارے میں پورے وثوق سے کوئی دعویٰ کرنا محض تعلی ہے۔ پیدائش اور اموات کے بیشتر دستاویزی ثبوت ایک آدھ صدی سے زیادہ آگے نہیں جاتے۔ ہم انسان صرف اپنی ماں کے بارے میں کسی حد تک وثوق سے اعلان کر سکتے ہیں۔ ہماری ماؤں نے ہمیں ہمارےباپ کا جو نام بتایا، ہم نے سن کر درست تسلیم کیا۔ اپنے ماں اور باپ کے حیاتیاتی تعامل سے آگے اپنے آبا و اجداد کے بارے میں تحقیق، تجسس اور کسی امتیازی حیثیت کی جستجو نہ صرف ماں باپ کے احترام کے منافی ہے بلکہ انسانی مساوات سے انکار کے مترادف ہے۔ ایسے امتیاز یا تفوق کی بنیاد بد ترین احساس کمتری ہے۔

جن معاملات میں ہماری شعوری کوشش کو دخل نہیں وہ کسی برتری کا نشان ہوسکتے ہیں اور نہ شرمساری کا جواز۔ ڈی این اے  کو ڈی کوڈ کرنے سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی بنیادی حیاتیاتی ساخت تو سانجھی ہے ۔ البتہ انسانی مساوات کا اصول ڈی این اے کی دریافت سے منسلک نہیں ہے بلکہ شعوری انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر انسانوں نے بہت پہلے تسلیم کر لیا تھا۔ انسان کے لئے اچھائی اور برائی کا امتحاں یہ ہے کہ پیدائش سے موت تک کی مہلت میں دوسروں کی محبت کا احسان کس طرح تسلیم کیا، دوسروں میں محبت کیسے پھیلائی، انسانوں کا دکھ کیسے بانٹا، انسانوں کو سکھ پہنچانے کے لئے کیا کوشش کی۔ ہمارے یہاں رہنے سے دوسروں کو کس حد تک خوشی ملی یا ہم نے اپنی ذات کو ان کے لئے ایک مسلسل اذیت بنا دیا؟ ہمدردی، ہم دلی، احترام اور رواداری کا سرچشمہ مساوات کا اصول ہے۔ بنیادی انسانی مساوات کو تسلیم کئے بغیر انسانوں کی نیکی اور بدی پر حکم لگانا بھی بے معنی ہے۔

بر صغیر پاک و ہند میں ذات پات کا نظام بہت پرانا ہے۔ اس تقسیم کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی بنیادوں کے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔لیکن یہ واضح ہے کہ ذات پات، صنف، نسل اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم نے انسانوں پر ظلم ڈھائے ہیں۔ انسانوں کی پیدائشی  شناخت کی بنیاد پر مراعات یا محرومی کا خاتمہ کر کے پہچان کے ان زاویوں کو بے معنی کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے سو برس کی انسانی تاریخ میں (میری رائے کے مطابق) تین بہترین نام گاندھی جی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا تھے۔ تینوں نسل پرستی کے مخالف تھے۔ نسل کا تصور انسانی حقوق اور صلاحیت کی درجہ بندی کا اصول ہے۔ چونکہ پیدائش کے نکات اور زاویے کسی شعوری کوشش سے حاصل نہیں کئے جا سکتے اور نہ انہیں ختم کیا جا سکتا ہے اس لئے پیدائش کے مفروضہ امتیاز کو اہمیت دینا انسانی شعور کی نفی ہے۔ اور اسے اخلاق کی بنیاد بنانا بد اخلاقی ہے۔ اسے قانون کی شکل دینا بدترین ناانصافی ہے۔

پاکستان میں تو صورت حال اور بھی پیچیدہ ہے۔ نصاب کی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم ذات پات کو تسلیم نہیں کرتے۔ اخلاق کی کتاب میں لکھا ہے کہ کام کرنے والا یعنی اہل ہنر یا اہل کسب خدا کا دوست ہے اور کام کرنے والے کو ہم کمی، کمیں اور کسبی کہتے ہیں۔ ہندو مذہب سے عقیدے کی بنیاد پر علیحدگی کے نتیجے میں برصغیر کی مسلم آبادی میں یہ تقسیم مزید پیچیدہ ہے۔ ذات پات کی شناخت میں کہیں پیشے کو بنیاد بنایا جاتا ہے، کہیں نسل، کہیں قبیلہ اور کہیں عقیدہ۔ یہ تقسیم بے معنی ہے۔ اس کا آئین، قانون اور اخلاق میں کوئی جواز نہیں۔ ذات پات کے تصور سے انکار دراصل انسانوں کی مفروضہ برتری اور مفروضہ کمتری سے انکار ہے۔ ذات پات سے انکار اعلیٰ ترین انسانی اخلاق کا اقرار ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر کسی عمرانی مکالمے اور معاہدے کی بنیاد رکھنا بد ترین نسل پرستی ہے۔

 نشر مکرر – 2 ستمبر 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments