بلوچستان ۔ چند آسان و مشکل باتیں (1)


\"zafarقومی منظر نامہ گنجلک ہے۔ تفہیم کے دھارے ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ مجرد اصطلاحات کے مفاہیم میں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ جتنی مسافت ہے۔ ایک اصطلاح ’ اسٹیبلشمنٹ‘ کو ہمارے یہاں شہرت دوام حاصل ہے۔ تواتر سے یہ اصطلاح اخبار نویسوں سے لے کر ٹی وی کے دانشوروں تک اور سیاسی کا رکن سے لے کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہر فرد ، ایک مخصوص مفہوم میں برتتا ہے۔ پڑھنے، سننے ، دیکھنے والے سے توقع رکھی جاتی ہے کہ اس کو اسی مفہوم کو سمجھے جو شاعر کی مراد ہے۔ دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان البتہ پریشان ہیں کہ کوئٹہ کی مسجد پر روڈ پر بیٹھا پرانا سرخ پوش دانشور جب اسٹیبلشمنٹ کو ’ پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘ کہتا ہے تو لاہور میں بیٹھے دانشور کی اسٹیبلشمنٹ سے جانے مراد عسکری ادارے ہوتے ہیں یا بیوروکریسی؟ سندھ سے اٹھنے والے سرگم میں اسٹیبلشمنٹ کا مفہوم بھٹو کی پھانسی سے کسی حد طے ہو چکاہے جبکہ کراچی کے راگ کا مفہوم دوسرا ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں مفہوم کچھ اور تھا اور آج کچھ اور ہے۔ گاہے مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کا رونا روتی ہیں۔ عقل حیران ہے کہ یحییٰ خان سے لے کر مشرف تک ہر آمریت کی تھاپ پر رقصاں، ترقی پسندوں سے لے کر رجعت پسندوں تک کے ہر حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار میں شامل ان نابغوں کی اسٹیبلشمنٹ جانے کیا ہوتی ہو گی۔ پنجاب کے ایک حصے میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد کچھ اور لیا جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ اسٹیبلشمنٹ کی دہائی دینے والوں کو اسٹیبلشمنٹ قرار دیتا ہے۔

 صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں اب جمہوریت کی تعریف بھی مشکل ہے۔ بھٹو آمریت، بی بی جمہوریت اور لیگی جمہوریت کی اصطلاحات بھی اب تواتر سے برتی جا رہی ہیں۔ تاریخ کے اوراق سلامت ہیں کہ ہمارے یہاں اسلامی جمہوریت اور اسلامی سوشل ازم جیسی مبہم اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ یہاں سرمایہ داری اور اسلام پسندی کو ہم پلہ قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ہماری مٹی پر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے اہل علم بضد ہیں کہ اس خطے کی ترقی کا ضامن ایک اچھا سوشلسٹ نظام ہے۔ اچھے سے ان کی مراد وہ نہیں ہے جو روس اور افغانستان میں برپا ہوا یا چین میں اب تک موجود ہے بلکہ یہ کتاب میں لکھا ہوا ایک الگ مخطوطہ ہے جس سے اس دیس کے باسی نابلد ہیں۔ اڑچن یہ ہے کہ اس کا پرچارکرنے والے جمہور پسندی کو سرمایہ دار کی کاسہ لیسی سمجھتے ہیں۔ ایک گروہ یہاں وہ بھی پایا جاتا ہے جو مذہبی سیاسی جماعتوں، رجعت پسند جماعتوں اور مختلف النوع مذہبی گروہوں کو ایک خود ساختہ مفہوم پہنا کر اسلامسٹ جیسی غیر معروف اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان اصطلاحات کا کیا مفہوم ہے، یہ بھی اہل نظر ہی جانتے ہوں گے۔ اہل نظر کے دہن مبارک سے بہنے والا دھارا امرت دھارا سہی مگر اس بعد المشرقین کے مفاہیم سے سینہ چاکان چمن پریشان ہیں۔

موضوع کی تپش تیز ہے اور لکھنے والے کے قلم میں موم بھرا ہے۔ اس لئے اصولی طور پر ایک بات واضح کر دی جائے کہ بطور شہری اس ملک کے عسکری اداروں سے کوئی ذاتی یا قائم بالذات اختلاف کوئی نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ اختلاف ہے تو صرف ایک نقطے پر ہے کہ چار بار اس ادارے کے طالع آزما جرنیلوں نے حکومت پر قبضہ کیا۔ یہ اقدام ہمارے آئین کی رو سے غیر آئینی تھا۔ یہ اقدام ہر بار اصول میں غلط تھا۔ اس اقدام کے ہر بار منفی نتائج نکلے ہیں۔ اسے ستم ظریفی نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہر آمریت کے بعد عسکری اداروں کو احساس ہوتا ہے کہ عوام کی نظر میں ان کا ’ امیج‘ خراب ہے اور اب کچھ عرصہ ’ امیج بلڈنگ‘ پر توجہ دی جائے۔ پوچھنے کا محل بنتا ہے کہ اپنے فرض منصبی دفاع کے علاوہ سیاست، اقتدار، نظریہ سازی اور قومی نصب العین کا تعین کرنے کی ضرورت ایک ادارے کو ملکی آئین کی معطلی کی قیمت پر کیوں پیش آتی ہے۔ اور جب بار بار یہ احساس بھی ہو جائے کہ اس سے ادارے کا امیج خراب ہوتا ہے تو اس کام کو تواتر سے کیوں دھرایا جا تا ہے؟

جہاں تک بلوچستان سے اٹھنے والی آوازوں کا تعلق ہے تو اس میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد ایک جگہ اگر اس ملک کے عسکری ادارے لئے جاتے ہیں تو دوسری طرف ’ پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘ یا ’ پنجابی فوج‘ جیسی قبیح اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ لکھنے والا بلوچستان کے بھائیوں کا دشنام سہنے کو تیار ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے ساتھ لفظ ’ پنجابی‘ کے سابقے کو قبیح ہی جانے گا۔ جاننا چاہیے کہ نسل پرستی کی یہ بدترین شکل ہے کہ کسی کو زبان، رنگ یا نسل کی بنیاد پر حقیر جانا جائے۔ ایسی اصطلاحات کے صرف دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ برتنے والا عظیم ہے اور دوسرا یہ کہ مخاطب حقیر ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ دوئی میں بٹی سیاہ سوچ ہے۔ البتہ جو سوال بلوچستان کے باسی تواتر سے اٹھا رہے ہیں ان کا جواب لازم ہے۔ دو موضوعات ہیں۔ سینکڑوں سوال ہیں۔ ایک موضوع اقتدار کے سنگھا سن پر براجمان اہل اقتدار سے جبکہ دوسرا موضوع ریاست کے عملداروں سے متعلق ہے۔

اہل نظر کو معلوم ہونا چاہیے کہ ستر کے ابتدائی عشرے میں بلوچستان کو پاکستان کی کل GDP کا 4.9 فیصد حصہ ملتا تھا جو آگے چل کر 3.7 فیصد کر دیا گیا۔ بیچ کی داستان طویل بھی ہے اور تلخ بھی البتہ 30 دسمبر 2009 کو گوادر میں منعقد ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے بلوچستان کو این ایف سی سے 9.09 فیصد حصہ دیا گیا جس کے لئے پنجاب نے 1.27 فیصد، سندھ نے 0.39 فیصد اور خیبر پختونخوا نے 0.26 فیصد کی قربانی دی۔ جبکہ پنجاب کا حصہ 51.74 فیصد، سندھ کا حصہ 24.55 فیصد اور خیبر پختونخوا کا حصہ14.62 فیصد تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی centre-provincial revenue sharing آئینی مدت 30 جون 2015 کو ختم ہو چکی ہے۔ اس سال ہمارے وزیرخزانہ صاحب نے فرمایا کہ نیا فارمولا ابھی طے نہیں کیا جا سکتا اس لئے اسی حصے پر گزارا کیا جائے۔

یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں بلوچستان کو گیس کی رائلٹی کی مد میں سب سے کم پیسے ملتے ہیں۔ ستم شعاروں کی برکت کہہ لیجیے کہ بلوچستان سے نکلنے والی گیس آٹھ سو کلومیٹر پر واقع انڈیا کے بارڈر کے ساتھ جڑے قصبے ناروال تک تو پہنچ گئی لیکن خاران، دالبندین، نوشکی، تربت، خضدار، پنجگور اور لورالائی تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کو جانے اتفاق کہا جائے یا قدرتی آفت کہ بلوچستان میں دوران زچگی زچہ و بچہ کے اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں غربت کا تناسب سب سے زیادہ ہے اقور تعلیم کی شرح سب سے کم۔ گوادر پر مرکز کی مکمل عمل داری الگ داستان ہے جبکہ سی پیک پر تحفظات کو وطن دشمنی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں بجلی کی کل ضرورت 1800 میگا واٹ ہے۔ کوئٹہ شہر کو چھوڑ کر اکثر اضلاع میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ برسوں سے جاری ہے۔ 2015 کے کیسکو کی رپورٹ کے مطابق بجلی کی کل ترسیل 600 میگا واٹ سے کم کر کے 400 میگا واٹ کر دی گئی۔ جبکہ اس کے برعکس لیسکو کے مطابق 2013 میں لاہور شہرکی کھپت 4200 میگا واٹ تھی۔ سڑکوں کی صورت حال ابتر ہے۔ خیبر پختونخوا کو بلوچستان سے ملانے والی نیشنل ہائی وے N50 ابتری کا شکار ہے اور ژوب سے مغل کوٹ تک بارش کی صورت میں راستہ مکمل طور بند ہو جاتا ہے اور گاڑیوں کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہی صورت حال بلوچستان کو پنجاب سے والی نیشنل ہائی وے N70 کی ہے۔ اندرون صوبہ سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایچ ای سی کے منظور شدہ یونیورسٹیوں کی کل تعداد صوبے میں 8 ہے۔ ایک پرائیویٹ اور7 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جن میں بلوچستان یونیورسٹی اور خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کو چھوڑ کر باقی پانچوں جامعات نومولود ہیں۔ جبکہ صرف لاہور شہر میں سرکاری اور غیر سرکاری جامعات کی تعداد 33 ہے۔ صحت کی صورت حال ابتر ہے۔ اس اذیت کا اندازہ لگا لیجیے کہ جب رات کے دو بجے چمن یا زیارت سے ایک غریب آدمی کو(غریب امیر کی بھی کیا شرط) ایک آدمی کو درد زہ میں مبتلا خاتون کو یا اپنڈیکس کے درد میں مبتلا بچے کو علاج کے لئے 150 کلومیٹر دور کوئٹہ لے جانا پڑے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ٹھوکریں کھانی پڑیں تو وہ لوگ کس منہ سے زندہ باد کے نعرے لگائیں گے جبکہ صورت حال یہ ہو کہ انہی لوگوں کو جشن آزادی کے دن ژوب میں دکانوں پر قومی پرچم لہرانے پر مجبور کیا جائے۔ (جاری ہے)

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments