بیٹی پر بھروسہ اور میٹرک بورڈ کراچی


\"farnood\"آغا خان سوئم سر سلطان محمد شاہ سے جتنے فوائد ہم سمیٹ سکتے تھے، ہم نے سمیٹے۔ مسلم لیگ کی اٹھان کے لیے ان سے پسینہ مانگا انہوں نے خون بھی دے دیا۔ سر سید احمد خان کی پلکوں سے علی گڑھ یونیورسٹی کی صورت چمٹے ہوئے خواب کو حقیقت کرنے کے لیے ان سے کچھ پیسوں کا تقاضا کیا، اپنی جیب کے سکے تو دان کیے ہی کیے، ہاتھ پھیلا کر شہر شہر گلی گلی نکل گئے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے نذر نذرانے شعور و آگہی کی ہر اس مہم کی نذر کر دیئے جس سے روشن مستقبل کی کوئی ایک بھی کرن پھوٹتی ہو۔ جو کچھ تھا وہ سلطان محمد شاہ نے ہمیں دیا، جو کچھ تھا وہ سلطان محمد شاہ سے ہم نے لیا۔ اس حقیقت کو مگر لینے سے ہم نے انکار کر دیا جسے سلطان محمد شاہ نے پا لیا تھا۔ سلطان محمد شاہ نے ہی کہا تھا

’’اگر آپ کو خدا نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی دی ہو، حالات صرف ایک کو تعلیم دلانے کی اجازت دیتے ہوں، تو آپ بیٹی کو تعلیم دلوائیں‘‘

ہم سلطان سے علی گڑھ کے لیے خون پسینہ نہ مانگتے۔ مسلم لیگ کے لیے ان کا خزانہ بھی نہ مانگتے۔ رفاہی و فلاحی سرگرمیوں کے لیے ان کی جیب کی طرف نگاہ بھی نہ کرتے۔ اقوام متحدہ میں ان کے کردار پہ تکیہ بھی نہ کرتے۔ ہم کچھ بھی نہ کرتے، ہم تعلیم کے باب میں معرفت کا نکتہ ان سے چرا کر اپنے پلو سے باندھ لیتے تو آج اس قوم کی ہر ماں اپنی گود میں علی گڑھ کا جامعہ اٹھائے گھوم رہی ہوتی۔ ایک ایسی دنیا میں ہم سانس لیتے جہاں اگر کوئی خاتون تعلیم سے محروم رہ جاتی، تو بھی علی گڑھ کی ایک شاخ اس کی آغوش میں جھول رہی ہوتی۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مثال سے سمجھتا ہے، اور آغا خان سلطان محمد شاہ کے پیروکاروں سے بڑھ کر کون سی مثال ہو سکتی ہے۔ ہم جو یہاں صبح شام خواتین کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں، کبھی دور شمال میں فلک بوس پہاڑوں کے اس پار خوبانیوں کے باغات میں کھیلتے بچوں سے کلام کر کے دیکھیں۔ حیرت ہوگی کہ جس دیس کی شہری زندگیوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے سوال پر آج بھی اہل علم خوفزدہ سے ہو جاتے ہیں،اسی ملک کے دور افتادہ دیہاتوں میں سلطان محمد شاہ کے پیروکار یہ مسئلہ نمٹا کر آگے بڑھ چکے ہیں۔ ان کے سلیقہ مند بچے جب شائستگی کے ساتھ نیلی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ ہمارے قدم کس قدر باشعور گود سے تربیت پا کر اترے ہیں۔ یہ لوگ ملک بھر میں کہاں نہیں موجود۔ جہاں بھی نظر آئیں گے جداگانہ کم وکیف میں ہی نظر آئیں گے۔ میرے دیس کے عالی دماغ جو عورت کو بااختیار تصور کر کے سہم جاتے ہیں، وہ آس پڑوس میں موجود سلطان محمد شاہ کے پیرو کاروں کے آنگن میں جھانک کر دیکھیں تو یقین ہو چلے گا کہ عورت پر بھروسہ کرنے سے گھروں میں ضبط و ترتیب کے خوشحال قرینے اتر آتے ہیں۔ ہر چہرہ مسکراتا ہے اور ترقی کے امکانات روشن تر ہو جاتے ہیں۔ عورت پہ بھروسہ نہ کرنے سے نحوست کی ہر بلا ہمارے بستر کے ساتھ اپنا تعفن زدہ بستر لگا لیتی ہے، جسے ہم تقدیس کے جعلی غلافوں میں ڈھانپ کر خود کو خود کی نگاہ میں گراتے چلے جاتے ہیں۔

دیکھیں۔!

غلطی تو بہرحال ہم سے ہوئی ہے۔ ہم نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنی بہن کی ذہانت پہ شک کیا ہے۔ الہامی تعلیمات کا سہارا لے کر اپنی بیٹی کی صلاحیتوں کی ہم نے تذلیل کی ہے۔ ہم نے نصاب میں اس قوم کو پڑھایا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔ یہ سب ہم نے ایک ایسی دنیا میں پڑھایا کہ جہاں عورت ہر شعبے میں بارہا اپنی ذہانت اور صلاحیت کا لوہا مردوں سے کہیں بڑھ کر منوا چکی تھی۔ عورت کے کردار نے روایات اور تصورات پہ نظر ثانی پہ مجبور کر ہی دیا تو ہم نے کہا کہ عورت کو اتنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تو خیر میسر رہنی ہی چاہیئے کہ وہ بچوں کو شفاخانوں اور تعلیم گاہوں تک لانے لے جانے کے قابل ہو سکے۔ تعلیم نہ ہوگی تو اساتذہ اور طبیبوں سے کلام کیسے کرے گی۔ یعنی روایت سے کچھ دستبردار بھی ہوئے تو مردانہ سہولتوں کو پیش نظر رکھ کر ہوئے۔ حد یہ ہے کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اس محدود و مشروط اجازت پر بھی شہر کے شرفا چوڑے ہو کر احسان جتلاتے ہیں۔ بات آجائے تو کہہ دیتے ہیں ’’ہم نے کب تعلیم کی مخالفت کی؟ دیکھو ہماری پوتی کو ہم ماشاللہ مہنگے اسکول میں تعلیم دلوا رہے ہیں‘‘

مگر۔!

وقت بدل رہا ہے، اور وقت بدل ہی جائے گا۔ تدریس و سیاست،طب و وکالت، ادب و صحافت، فن و ثقافت میں عورت کا کردار تو پرانی بات ہوئی اب ایٹم کا ذرہ پھاڑ کر سچائی دریافت کرنے والی فضاؤں میں اڑانیں بھرنے والی ہاکی و کرکٹ کا میدان مارنے والی اور اولمپکس کے معرکے تک سر کر جانے والی خاتون پوچھتی ہے کیا میں اب بھی ذہانت اور صلاحیت میں کسی سے کم ہوں؟ مورخ دھیان سے سنے کہ جواب اب بھی یہی آ رہا ہے کہ ہاں ان تمام معرکہ آرائیوں اور فتوحات کے بعد بھی تم ناقص العقل ہی ہو۔ یہ بات ہمیں کتاب کے بیچ سے پڑھائی گئی ہے، ہم اس سے سر مو انحراف کیونکر کرسکتے ہیں صاحب۔

مورخ کی گواہی اس لیے ضروری ہے کہ ہماری آنکھ کا پینترا بہت بد لحاظ ہے۔ ہم نے ابن رشد کا کتب خانہ خاکستر کر کے اسے قرطبہ کی جامع مسجد کے ستون سے باندھ کر اللہ کی رضا کے لیے منہ پر تھوکا تھا۔ ہم نے یعقوب الکندی کی تجربہ گاہ کو زمین بوس کر کے اس کی کمر پہ سرعام یومیہ پچاس کوڑے مار کر تالیاں پیٹی تھیں۔ ہم نے ابن سینا کا گھر بھسم کر کے اس کو طویل روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہم نے زکریا رازی کی ذخیرہ کتب ضبط کر کے اس کا سر پھاڑ کر بینائی چھین لی تھی۔ ہم نے ہر اس شخص کو تہذیب کا دشمن کہہ کر علاقہ بدر کیا تھا جس نے پرانے دور میں نئی بات کہی تھی۔ وقت نے بدلنا تھا اور بدل کر رہا، ستم مگر یہ ہے کہ آج ہم مغرب کے دانشکدوں کو نیچا دکھانے کے لیے انہی حکما علما اور سائنسدانوں کے نام لے کر سینہ پھلاتے ہیں جن پر عرصہ حیات ہم ہی نے تنگ کر رکھا تھا۔ اسی سورج کے ماتھے سے وہ صبح پھوٹنے کو ہے، جب عورت کے کردار سے صریح انکار کرنے والے ہی دنیا کو عظیم عورتوں کے نام گنوا کر اپنا اعزاز جتلایا کریں گے، مگر لازم ہے کہ تب مورخ یہ ضرور بتائے کہ جب سال دو ہزار سولہ میں میٹرک بورڈ کراچی کے دونوں ہی گروپوں میں تینوں پوزیشنیں غریب گھرانوں کی تین بچیوں نے حاصل کی تھیں تب بھی شیخ مکتب کا فرمان یہ تھا کہ یہ بچیاں ذہانت و صلاحیت میں لڑکوں کی ہم سر نہیں ہوسکتیں۔ یہ یاد دہانی اس لیے بھی لازم ہے کہ ہماری بچیوں کی جیت کا سہرا ہماری بچیوں کے سر ہی بندھ سکے۔ وہ جیت جو انہوں نے ایسے حالات میں حاصل کی کہ جب عرش کے ترجمان بھی ان کے ناقص ہونے کی اطلاعات دے کر حوصلہ توڑتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments