عبید اللہ سندھی، ایک عہد ساز شخصیت


\"waqas-khan\"پچھلے دنوں کراچی کا سفر درپیش تھا۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام نمٹانے تھے۔ اس کے باوجود سفر شروع کرنے سے پہلے ہی ارادہ کر لیا تھا کہ سندھ کے \”سیکولر مدرسہ\” بھی ضرور جانا ہے بھلے اس کی خاطر مجھے اپنے کام ادھورے چھوڑنے پڑے تو بھی پرواہ نہیں۔ وہ تو قدرت کی مہربانی ہوئی کہ کراچی کا سفر بخیر ہوا، کام بھی نمٹ گئے اور سندھ کے \”سیکولر مدرسہ\” جانے کی میری دیرینہ آرزو بھی پوری ہو گئی۔ یقیناً آپ حیران ہوں گے کہ \”سیکولر مدرسہ\” بھلا کیا بلا ہو گی۔ تو اس سے پہلے کہ آپ کی حیرانگی طول پکڑے میں خود ہی عرض کیے دیتا ہوں۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ کھڈہ مارکیٹ کراچی بلکہ سندھ بھر کے قدیم اور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ اسی کھڈہ مارکیٹ میں قائم جامع مسجد کھڈہ اور مدرسہ مظہر العلوم کو تحریک آزادی ہند میں تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ برٹش گورنمنٹ کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلی تھیں ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ ان کا مرکز ہندوستان رہا ہے۔ بے شک ہندوستان کو اس پس منظر میں مرکزیت کا درجہ حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ان تابندہ شاخوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جن کے دم خم سے وہ تحریکیں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی تھیں۔ مدرسہ مظہر العلوم بھی انہی جاندار شاخوں میں سے ایک تھا۔ ریشمی رومال اور خلافت تحریک میں اس مدرسہ نے مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا صادق کی قیادت میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان تحریکوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے مذہب سے بالاتر ہو کر شرکت کی تھی۔ اسی سلسلے میں مہاتما گاندھی، مولانا ابو الکلام آزاد اور شیخ الہند محمود حسن نے مدرسہ مظہر العلوم کا سفر کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مدرسہ مظہر العلوم کو \”سیکولر مدرسہ\” بھی کہا جاتا ہے۔

مدرسہ مظہر العلوم اٹھارہ سو چھیاسی میں قائم ہوا اور آج بھی چل رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کا زیادہ نام نہیں لیا جاتا۔ جس کی ایک وجہ تو اس پر سیکولرازم کی چھاپ لگنا ہے لیکن دیگر چند وجوہات میں سے ایک درسی نصاب کا اختلاف بھی ہے۔ یہ پاکستان کا واحد دینی ادارہ ہے جہاں تاریخ، یورپ کا فلسفہ، شاہ ولی اللہ، امام غزالی اور عبیداللہ سندھی کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جی ہاں! اسی عبید اللہ سندھی کی کتابیں جنہیں ہمارا مذہبی طبقہ یورپ سے مرعوب، سوشلسٹ اور گمراہ کہتا ہے۔ ان کے بارے میں قدسی روحوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ آخری عمر میں عبید اللہ سندھی کا دماغ خراب ہو گیا تھا۔

\"maulanaجبکہ حقیقت یہ ہے کہ عبیداللہ سندھی بیسویں صدی کے عظیم مفکر تھے۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، معاشی اور فرقہ واریت (ہندو مسلم) پر مبنی قومی مسائل کا بہترین حل پیش کیا تھا۔ دو سو برس برطانیہ کی غلامی میں گزارنے کے بعد برصغیر کے سیاسی رہنماؤں اور دانشور طبقے کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ آزاد برصغیر کا ریاستی، معاشی، تہذیبی اور مذہبی ڈھانچہ کن خطوط پر استوار کیا جائے۔ ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلہ ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ جس کے حل یا عدم حل سے ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونا ہی تھے سو ہوئے۔ آزاد برصغیر کو مستقبل میں پیش آنے والے ان تمام مسائل کے حل کے لیے کئی منصوبے بنائے گئے تھے۔ لیکن ان میں سب سے بہترین منصوبہ وہ تھا جو عبیداللہ سندھی نے پیش کیا۔

عبیداللہ سندھی چونکہ تقسیم برصغیر کے حامی نہ تھے اس لیے پاکستان بننے کے بعد ان کے منصوبے کی چنداں اہمیت نہیں رہی لیکن اس میں ذکر کردہ معاشی، تہذیبی، لسانی، سیاسی اور مذہبی مسائل کا حل ایسا ہے جس سے ہم پاکستان میں بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

وطن عزیز پاکستان اس وقت معاشی، لسانی، مسلکی اور تہذیبی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ان قوانین پر عملدرآمد کیا جائے جو عبیداللہ سندھی نے اپنے منصوبہ \”انڈین فیڈرل ریپبلکن اسٹیٹس\” میں لکھے ہیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ریاست اور مذہب کی باہمی کشمکش کا حل بتاتے ہوئے عبیداللہ سندھی لکھتے ہیں کہ \”انڈین فیڈرل ریپبلکن سٹیٹس میں مذہب کو حکومت سے جدا کر دیا جائے گا۔ اس حکومت کو نہ تو کسی خاص مذہب سے تعلق ہو گا اور نہ اسے اپنے مشتملہ جمہوریتوں (خود مختار صوبوں) کے مذاہب میں دخل دینے کا حق ہو گا\”

عبیداللہ سندھی چونکہ صوبوں کو مستقل ریاست بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ہر صوبے کو اپنا دستور بنانے اور صوبے کا مذہب متعین کرنے کا حق دیا ہے۔ اس اصول کے تحت مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق دستور بنانے اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظام حکومت چلانے کی کامل آزادی ہو گی۔ اور جس صوبے کے عوام سیکولر نظام حکومت کے حق میں ہوں وہ اپنے صوبوں میں سیکولر نظام حکومت بنانے میں آزاد ہوں گے۔ اگر عبیداللہ سندھی کے اس منصوبے پر عملدر آمد ہوا ہوتا تو پچھلے دنوں پنجاب حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مابین \”ویمن پروٹیکشن ایکٹ\” کے حوالے سے جو گہما گہمی ہوئی کبھی نہ ہوتی۔

عبیداللہ سندھی موجودہ صوبائی تقسیم کو درست تسلیم نہیں کرتے بلکہ لسانی اور تہذیبی بنیادوں پر از سرنو تقسیم کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تحریک صوبہ ہزارہ، تحریک سرائیکی صوبہ، سندھو دیش، پوٹھوہار تحریک، بلوچ پختون کشمکش اور دیہی و شہری سندھ کی تقسیم کا مطالبہ اس بات کا اظہاریہ ہے کہ صوبائی تقسیم درست نہیں ہے۔ اگر عبیداللہ سندھی کے مجوزہ منصوبے کے مطابق صوبوں کو لسانی و تہذیبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے تو آپسی دوریاں قربتوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ ہر زبان اور تہذیب کے حامل عوام اپنے صوبے میں وہ دستور اور منشور بنانے میں آزاد ہوں گے جو ان کی روایات اور ثقافت سے میل کھاتا ہو۔ اس عمل کے نتیجے میں کراچی، سندھ، بلوچستان، سرائیکستان، پنجاب، خیبر پختون خواہ اور ہزارہ کے آپسی گلے شکوے اور باہمی منافرتیں ختم ہو جائیں گی۔ کیونکہ دوسرے صوبے کی حق تلفی اور اس کے وسائل پر قبضے کی کوشش ممکن نہ رہے گی۔

فی زمانہ ہمارے ہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشی وسائل کی کمی دو اہم ترین مسئلے ہیں۔ سرمایہ دار امیر ترین اور مزدور کار غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی معیشت یورپ، امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے سہارے گھسٹ رہی ہے۔ مائیکرو فائنانس کا شعبہ ٹھپ پڑا ہے۔ توانائی کا بحران ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ مہنگائی کا جن صحرا کی صورت پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہم نے پڑوس کی معاشی منڈیوں سے استفادہ کرنے کی بجائے سات سمندر پار محبت کی پینگیں بڑھانے پر توجہ دی ہے۔ عبیداللہ سندھی نے اس مشکل کا حل \”ایشیاٹک فیڈریشن\” بتایا تھا۔ وہ کہتے ہیں ہندوستان (ہند و پاک) اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ پڑوسی ممالک اور روس کو اپنی معاشی پالیسیوں کا محور نہ بنا لے۔ جس \”ایشیاٹک فیڈریشن\” کے خط و خال عبیداللہ سندھی نے 1924 میں ترتیب دیے تھے اس کا وجود اکیسویں صدی میں \”شنگھائی تعاون تنظیم\” کی صورت ہو چکا۔ لیکن افسوس کہ اگر ہم نے سندھی کو نہ ٹھکرایا ہوتا تو \”شنگھائی تعاون تنظیم\” کا منصوبہ ہمارے معیشت دانوں کی طرف سے سامنے آتا۔ پاکستان کو اس میں مرکزی مقام ملتا اور اس کا وجود ہمارے لئے باعث فخر ہوتا۔

پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کے ساتھ میری ملاقات تو نہیں ہے لیکن برادرم عامر ہزاروی کی زبانی ان کے جملے مجھ تک پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ \”ایشیا، خاص طور پر پاکستان اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس عبیداللہ سندھی کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

سچ یہ ہے کہ عبیداللہ سندھی ایک عہدساز شخصیت تھے۔ انہوں نے سو سال پہلے جو کہا تھا آج وہی ہو رہا ہے۔ ان کے جن افکار کو قدسی روحوں نے گمراہی جتلایا تھا آج وہی افکار ہمارے لیے مشعل راہ بن رہے ہیں۔ جبین پہ سجدوں کے نشان سجائے وہ لوگ جنہوں نے سندھی کو پاگل کہا تھا، ان پر گمراہی، مرعوبیت اور مغرب زدہ ذہنیت کی پھبتیاں کسی تھیں وہ عبیداللہ سندھی کا قول یاد رکھیں کہ دنیا کا حسن ماتھے کی محرابوں سے نہیں مزدور کے چھالوں سے ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments