خفیہ جنگوں کا نیا دور


گزشتہ دوماہ سے جاری کشمیری مزاحمتی تحریک اور پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں بھارتی پالیسی اس کے سوا کچھ نہیں کہ\"irshad دیکھواور انتظار کرو۔ دہلی کے عبقریوں نے سر جوڑ کر پالیسی بنائی: کشمیر میں جیسے تیسے بھی حالات ہوں\’ بی جے پی نے کوئی سیاسی پہل قدمی نہیں کرنی۔ تھکن سے چور کشمیری خود ہی روزمرہ کے کاموں کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اقوام عالم میں ان کے حق میں کسی نے آواز بلند کی اور نہ کوئی کرے گا۔ پاکستان کےاحتجاج اور بیانات کو عالمی سطح پر پزیرائی ملتی ہے اور نہ ملنے کا کوئی امکان ہے۔

بھارت کے اندر سے جو بھی کوئی کشمیرہوں کے حقوق کی بات کرے اس پر غداری کا مقدمہ ٹھوک دو۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دو تاکہ کوئی نکتہ چینی کرنے کی جرآت ہی نہ کرسکے۔ یوں سیاسی مخالفین بھی حکومت کی دھاک سے ہیبت زدہ رہ جائیں اور میڈیا بھی چپ کی چادر تان کر لمبی نیند سو جائے گا۔ اس کو کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار۔ رہے گئے انسانی حقوق والے تو مودی سرکار نے ان کے گرد پہلے ہی محاصرہ تنگ کر رکھا ہے۔ انہیں مغربی سامراج کا کارندہ اور غیر محب وطن قراردے کر معاشرے میں اچھوت بنا دیا جاتا ہے تاکہ لوگ ان کی بات کا اعتبار ہی نہ کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے معتبر ادارے کو بھی دہلی میں اپنا دفتر بند کرنا پڑا ہے۔

ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر مودی جی نے کچھ عرصہ قبل فرمایا کہ بنگلہ دیش کے قیام کا کریڈٹ بھارت کو جاتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارت نے اب کھلے عام پہلی بار پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔

دہلی کے لال قلعے سے وزیراعظم مودی کا بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کا ذکر کرنا محض ایک گیڈر بھبکی نہیں بلکہ انہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ یہ پاکستان کے زیرانتظام جموں وکشمیر کے علاقوں اور بلوچستان کے بارے میں نیا رخ اختیار کرتی ہوئی بھارتی پالیسی کا کھلا اظہارہے۔ مودی سرکار کےقیام سے قبل کسی بھی بھارتی حکمران نے بلوچستان میں کھلے عام مداخلت کا اس طرح عندیہ نہیں دیا اور نہ ہی گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کے عزم کا سرعام اظہارکیا بلکہ ماضی میں دہلی ایسے اقدامات کی مذمت کرتا رہا ہے۔

ماضی کے برعکس مودی سرکار روزاوّل سے طاقت کےاستعمال کے ذریعے بھارت کے خلاف جاری دہشت گردی کے خاتمے کا عندیہ دیتی رہی ہے۔ ایسا نظرآتا ہے کہ وہ اس خطے میں خطرناک کھیل کھیلنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ بے تاب بھی ہے۔ مودی کی ٹیم بالخصوص وزیردفاع اور داخلہ کے بیانات سے بھی قیاس کیا جاسکتاہےکہ بھارتی حکومت طویل المعیاد لڑائی لڑنے کے لیے کمر بستہ ہوچکی ہے۔ لڑائی کے اب محاذ مختلف ہوں گے۔ یہ محض خفیہ جنگ‘ جسے پراکسی وار کہتے ہیں ‘جو کرائے کے سپاہیوں کے ذریعے لڑی جاتی ہے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سیاسی، سفارتی اور معاشی میدانوں میں بھی پنجہ آزمائی ہوگی۔

نریندر مودی اور ان کی ٹیم کی پاکستان اور کشمیر کے معاملات کے بارے میں تفہیم واجبی سی ہے۔ کانگریس کی قیادت کے مسلمانوں اور خاص کر کشمیر یوں سے عشروں نہیں بلکہ صدیوں پر محیط تعلقات کار ہیں۔ وہ ان کی بہترین نباض بھی ہے لہٰذا پاکستان ہو یاکشمیر کانگریس جو کام نرمی اور لچک سے نکالتی ہے۔ بی جے پی کی موجودہ قیادت گرم گفتاری اور زور زبردستی سے وہی نتائج نکالنا چاہتی ہے۔ وہ ادراک نہیں رکھتی یا مصنوعی کامیابی کے نشے میں دھت اس بارے میں غور نہیں کرنا چاہتی کہ کشمیر لوہے کا چنا بن چکا ہے جسے نگلا جا سکتا ہے نہ اگلا۔

حکومت پاکستان طویل عرصے سے بھارت کو بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی معاونت اور دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کا ذمہ دار قراردیتی آئی ہے لیکن سوائے سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے کسی نے بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔ مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں 2009 میں منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی سے وعدہ کیا تھاکہ وہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے مسئلہ پر غور کریں گے۔ وطن پہنچتے ہی انہیں اپنے الفاظ واپس لینا پڑے کیونکہ میڈیا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اب مودی جی بلوچستان کا مقدمہ لڑیں گے تو پاکستان مشرقی پنجاب میں سکھوں کی دستار بندی کا فریضہ نبھائے گا کیونکہ ادلے کا بدلا تو ایسے کاموں میں ناگیزیر ہوتا ہے۔

نیلس منڈیلا نے ایک بار کہا تھا کہ لیڈر محض اگلے الیکشن کا سوچتاہے جب کہ مدبر اگلی نسلوں کے بارے میں۔ آج جنوبی ایشیا کا بھی یہی حال ہے۔ سیاستدان خطے کی ترقی اور اس کے شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنی اپنی جماعتوں اور گروہوں کی سیاست کرتے ہیں۔ بلوچستان یا گلگت بلتستان کا ذکر کرکے مودی پاکستان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں یا پھر جلتی پر تیل ڈال سکتے ہیں لیکن وہ سری نگرمیں لگی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرسکتے۔ کشمیر کے حالات کو کنٹرول کرنے کی انہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ نہ صرف ناقص بلکہ خام خیالی پر مبنبی ہے۔ گزشتہ سات ہفتوں میں کشمیر میں جو خون ناحق بہا ہے وہ رائیگاں جاتا نظر نہیں آتا بلکہ اپنا حساب مانگتا ہے۔ جس طرح عام شہریوں کی آزادیوں، نقل وحرکت کو محدود کیا گیا۔ سیاسی سرگرمیوں کو روکا گیا اس نے کشمیریوں کے دکھی دلوں میں نفرت او ربے زاری کے لاؤ میں مزید شدت پیداکی ہے۔ خود بھارتی حکومت نے جس طرزعمل کا مظاہرہ کیا وہ کسی جمہوری اور ذمہ دار ریاست کو زیب نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ایسے طرزعمل کی توقع کی جاتی ہے۔ ریاست شہریوں کے قتل عام پر تماشائی نہیں بنتی بلکہ مظلوموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے۔ گولی چلانے والوں کی پیٹھ نہیں ٹھونکتی‘انہیں جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیلتی ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ جو لوگ بھارتی حکومت کو عقل اور سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی صلاح دیتے ہیں ان کے خلاف تھانے میں غداری کی رپٹ لکھوائی جاتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے واقف لوگوں کے علم میں ہے کہ یہ ممالک بیک وقت مختلف ٹریکسز پر کام کرتے ہیں۔ معرکہ آرائی بھی جاری رہتی ہے ‘مذاکرات اور صلح کے دروازے پر بھی دستک دی جاتی ہے تاکہ بقائے باہمی اور تنازعات کے حل کا کوئی باعزت حل نکل سکے۔ پردہ کے پیچھے بہت ساری سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ کچھ مغربی سفارت کار بھی متحرک ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلے چند دنوں تک دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز بات کریں یا پھر کسی دوسرے ملک میں ملاقات ہو کیونکہ موجودہ کشیدگی کی فضا کسی کے بھی حق میں نہیں۔ خاص کر کشمیریوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ کشمیری نوجوان گھائل ہو رہے ہیں اور دنیا تماشا دیکھ  رہی ہے حتٰی کہ کوئی چیخ وپکار کرنے والا بھی نہیں۔ ان حالات میں بات چیت کا دروازہ کھولاجانا چاہیے تاکہ موجودہ کیفیت سے باہر نکلا جا سکے۔

 

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments