بلوچستان ۔ چند آسان و مشکل باتیں (2)


\"zafarان حالات میں جب محرومی کا سوال اٹھتا ہے تو جواب آتا ہے کہ بلوچستان کے سرداروں نے خود بلوچستان کو پسماندہ رکھا ہے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ کچھ سرداروں کے نام یاد کر کے کونسے سرداری نظام کو دشنام دیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو بتایا جائے کہ عوام کے نمائندوں کو چھوڑ کر سرداروں کے ساتھ شراکت اقتدار میں کون شامل رہا ہے؟ بتایا جائے کہ جو سردار الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پارٹی کا اعلان کرتا ہے ان کو وزارت اعلی کے منصب پر کون براجمان کرتا رہا ہے؟ ایسے کتنے لوگ ہیں جو ہر الیکشن کے بعد پارٹی بدلتے ہیں اور مرکز میں حکومت پر براجمان جماعت ان کو ہارس ٹریڈنگ پر لگا کر اپنی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتی رہی ہے؟ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ تسلیم کر لیں کہ سردار ترقی مخالف ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ آواران، گوادر، مکران، تربت، سبی، ہرنائی، شیرانی، ژوب، پشین، قلعہ عبداللہ، زیارت اور کوئٹہ میں کونسے سردار ہیں جو ترقی مخالف ہیں؟ پھر وہاں کتنی ترقی ہوئی؟

عرض یہ ہے جناب والا۔ کہ بلوچستان کی محرومی کو نہ سرداروں کے نام کیا جا سکتا ہے اور نہ اس محرومی کے لئے اٹھارویں ترمیم کی آڑ لی جا سکتی  ہے کہ اب تو سب کچھ صوبوں کے پاس ہے۔ ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں اپنے بچوں میں تفریق نہیں کرتی ۔ ماں بچوں میں تفریق کرنے لگے تو گھروں سے محبت اٹھ جاتی ہے اور گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ اہل اقتدار کو اب مان لینا چاہیے کہ انہوں نے بلوچستان کے ساتھ گزشتہ ساٹھ سالوں میں بدترین زیادتی کی ہے۔ ایک پورا صوبہ جس کی کثیر آبادی کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے وہاں گیس و بجلی سے محرومی نے ان کو نوالوں کا محتاج بنا کے رکھا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ جو کچھ زمین سے اگ آتا ہے اسے لاہور ، اسلام آباد اور کراچی تک پہنچانے کے لئے سڑک موجود نہیں ہے۔ ایسے میں وہاں کے باسی یہ آواز کیوں نہ اٹھائیں کہ اہل اقتدار کے لئے پورے صوبے کی وقعت ایک میٹرو جتنی نہیں ہے۔ ستم یہ ہے کہ اہل اقتدارخود ساختہ دلیل کی منڈھیر پر بیٹھ کر مظالم کے لئے جواز تراشتے ہیں۔

بدقسمتی سے کچھ سوالوں کے جواب ریاست کے عملداروں کے ذمے ہیں۔ اس سوال کا جواب ہمارے اداروں کو دینا چاہیے کہ بلوچستان میں ہزاروں افراد کس نے لاپتہ کیے؟ واضح رہے کہ چوہدری افتخار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیس میں کورٹ ان اداروں کا تعین کر چکا ہے۔ ان کو جواب دینا چاہیے کہ یہ افراد کیوں لاپتہ کیے گئے ہیں؟ اگر ان پر کسی غیر قانونی سرگرمی کا الزام ہے تو ان پر مقدمہ قائم جائے۔ ان کو عدالت میں پیش جائے۔ ان کو سزا دلوائی جائے ۔ آئین کا آرٹیکل ( دس الف) ہر شہری کو بنیادی حقوق کے تحت یہ حق دیتا ہے کہ اگر اس پر کوئی الزام ہے تو اسکا شفاف ٹرائل کیا جائے۔ اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ لاپتہ افراد کی سر بریدہ لاشیں کون پھینکتا ہے۔ ان کا جرم کیا تھا؟ بلوچستان کا شہری سوال اٹھاتا ہے کہ ان کے سیاسی کارکنوں کی لاشیں کیوں ملتی ہیں؟ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کے خلاف براہ راست بندوق اٹھانے والوں کے ساتھ امن مذاکرات کئے گئے ہیں۔ شکئی میں نیک محمد کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ سراروغہ میں بیت اللہ محسود کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ سوات میں صوفی محمد کے ساتھ ہوئے۔ ابھی ضرب عضب سے پہلے قومی سطح پر ٹی ٹی پی کے ساتھ وسیع پیمانے پر مذاکرات کا کھیل کھیلا گیا۔

 پھر سوال اٹھتا ہے کہ ون یونٹ کی مخالفت پر نواب نوروز خان کے ہتھیار ڈالنے کے اور امان دینے کے وعدہ کے باوجود ان کے بیٹوں اور بھانجوں کو پھانسی کیوں دی گئی اور نواب کو جیل میں ہی کیوں مرنا پڑا؟ عطااللہ مینگل کی حکومت کیوں ختم کی گئی اور جب اس پر احتجاج ہوا تو ان کے خلاف آپریشن کیوں کیا گیا؟ ہزاروں لوگوں پر فوج کشی کیوں کی گئی؟ ہزاروں لوگ کیوں مارے گئے؟ عطا اللہ مینگل کا بیٹا اسد اللہ مینگل کہاں گیا اور اس کی لاش آج تک کیوں نہیں مل سکی؟ حیدرآباد سازش کیس کے نام پر سیاسی کارکنوں کا ٹرائل کیوں کیا گیا؟ کوئی ایک آدمی غدار ہوتا لیکن یہاں غوث بخش بزنجو جیسے مدبر سیاسی رہنما پر بھی سازش کا الزام لگایا گیا۔ عطااللہ مینگل، خیر بخش مری اور گل خان نصیر جیسے سیاسی رہنماﺅں پر جھوٹے غداری کے مقدمات کیوں دائر کئے گئے۔نواب اکبر بگٹی جیسے شخص جو بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف خود آپریشن میں شریک رہا تھا اس کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس کے علاوہ سیاسی کارکنوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مولا بخش دشتی کو رویا جائے یا حبیب جالب کو۔ کیا صبا دشتیاری، کیا عرفان علی خودی ، کیا فضل باری اور کیا جلیل ریکی۔ خون ارزاں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مرنے والوں کے نام موجود ہیں۔ مارنے والے اور جرم کا پتہ لفافے پر موجود نہیں ہے۔ پشتو میں ایک مشہور مقولہ ہے ’ یا پل تر زان تیر کہ یا زان سپین کہ‘۔ مفہوم یہ ہے کہ یہ جو قدموں کے نشان آپ کے گھر تک پہنچے ہیں، یا تو ان کو اپنے گھر سے آگے بھی دکھا دو یا پھر اپنی بے گناہی ثابت کرو۔

دوسری طرف بلوچستان کے چند باسی ایک دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ ایک آواز باہر سے براہمداغ بگٹی کی آئی ہے جس نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی تعریف کی ہے اور تعاون مانگا ہے۔ اس بات کو نظر انداز بھی کیا جائے کہ براہمداغ کے پاس بھارتی پاسپورٹ ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعاون کس حیثیت میں مانگا گیا ہے؟ ایک آواز یہاں سے ایک خاتون کی آئی ہے جو خود کو بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی چیئرمین قرار دے رہی ہیں اور بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سے تعاون کی اپیل فرما رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک سے باہر بیٹھ کر ایک شخص لوگوں کو جنگ پر کیوں اکسا رہا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس ملک کے اندر رہ کر آئین پاکستان کی رو سے ایک شہری بھارتی وزیراعظم سے تعاون کس بنیاد طلب کر رہا ہے؟ کیا ایسے اقدامات سے اس دلیل کو تقویت نہیں دی جا رہی کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کر رہا ہے؟

بدقسمتی سے بلوچستان میں رائے عامہ کے لاتعداد متوازی دھارے ہیں۔ مرکز، اہل اقتدار اور مقتدر حلقوں سے شکایت سب کو ہے مگر اس کا طریقہ کار ہر دھارے کا اپنا ہے۔ ہمارے بلوچستان کے اکثر بھائی ایک سوال تواتر سے اٹھاتے ہیں کہ کسی فیڈریشن میں رہنا یا رہنا ہر یونٹ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اگر بلوچستان پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تو ہمیں آزادی کیوں نہیں دی جا رہی؟ وہ فرماتے ہیں کہ آئین کی کونسی شق کے مطابق ہمیں آزادی کا حق حاصل نہیں ہے؟ یہ موقف بلوچستان کے کئی دھاروں میں پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک مختصر تعداد مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور کثیر تعداد سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔

 جہاں تک آزادی کا سوال ہے تو سوال بجا ہے اور جواب لازم۔ دیکھیے ایک بات تو طے ہے کہ فیڈریشن سے آزادی طلب کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آزادی کا مطالبہ کرنے والا گروہ فیڈریشن کے آئین کو درخود اعتنا نہیں سمجھتا تو آئین کا سوال بے معنی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے تمام باسی پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ چمن سے لے کر ژوب تک اور لورالائی سے لے کر کوئٹہ تک پشتون بیلٹ میں سے پسماندگی کی آوازیں ضرور اٹھی ہیں لیکن علیحدگی کا سوال کبھی نہیں اٹھا۔ حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی ہو، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماءاسلام ہو، محمود خان اچکزئی کا پشتونخوا میپ ہو، اختر مینگل کی بی این پی ہو، آزادی کانعرہ کسی نے بلند نہیں کیا۔ سردار ثناﺅ اللہ زہری ہوں، یار محمد رند ہوں، نواب مگسی ہوں، نواب اسلم ریسانی ہوں، حاصل بزنجو ہوں، ڈاکٹر مالک ہوں یا سردار اختر مینگل ، آزادی کی آواز ان کی طرف سے نہیں آئی۔ پھر ایسی آوازوں کو بلوچستان کی نمائندہ آواز کیسے تسلیم کیا جائے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ آواز بلوچ قوم کی بنیاد پر اٹھائی جا رہی ہے تو پنجاب کے چار اضلاع میں موجود اکثریتی بلوچوں کو یا سندھ کے پانچ اضلاع کے بلوچوں کو کس کھاتے میں رکھا جا رہا ہے؟

تھوڑی دیر کے لئے اگر آزادی کا حق تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا اکثریت اس پر قائل ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیا بلوچستان عالمی سطح پر کشمیر یا فلسطین کی طرح متنازعہ علاقہ ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ کیا بندوق کے ذریعے کشمیر یا فلطین نے آزادی حاصل کی؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ جاننا چاہیے کہ موجودہ دنیا کی سیاسی کے خدوخال انیسویں صدی سے جدا ہیں۔ انیسویں صدی تک جغرافیائی سرحدیں تشکیل دینا بندوق کا مرہون منت تھا۔ بیسویں صدی میں مبارزہ بندوق اٹھانے والے غنیم کو یہ بتانا ہے کہ ہم اس کی بندوق سے خوفزدہ ہو کر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہماری تاریخ میں واقعہ گواہ ہے کہ الجیرئن نیشنل فرنٹ کے ڈاکٹر اقبال احمد نے یاسر عرفات یہی کہا تھا کہ بندوق کی جدوجہد سے پہلے عالمی سطح پر اپنے لئے حمایت حاصل کرنا اہم ہے۔ یاسر عرفات نہیں مانے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ یہاں دلیل دی جا رہی ہے کہ بنگال بھی تو ااسی فیڈریشن سے الگ ہوا تھا تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے؟ عرض ہے کہ کیا بلوچستان کی جغرافیائی صورت حال بنگال کی طرح ایک الگ اکائی کی ہے اور بیچ میں کوئی دوسری ریاست حائل ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ کیا مرکز نے عوامی لیگ کی طرح اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے؟ نہیں۔

جو لوگ بندوق کی نال سے آزادی خواب دیکھ رہے ہیں ان کو جان لینا چاہیے کہ اس کے امکانات معدوم ہیں۔ پانچ ضروری عنوانات سے آزادی کے متوالوں نے یکسر صرف نظر کیا ہے۔ اول یہ کہ بالفرض بلوچستان آزاد ہو جاتا ہے تو اس سے خلق خدا کی نا گفتہ بہ حالت کس قدر بہتر ہو پائے گی ؟ معیشت جیسے بنیادی عنوان سے مکمل طور پر بے اعتنائی برتی گئی ہے اور خیالی جنت کی موہوم امیدیں دلائی گئی ہیں۔ دوم یہ کہ مفروضہ آزاد بلوچستان میں اس ادارہ جاتی استحکام کا کتنا امکان ہے جو کسی بھی معاشرے کے لنگڑا کر چلنے کے لئے بھی لازم ہوتا ہے۔ اس کے لئے افغانستان کے ثور انقلاب کی مثال سامنے ہے۔سوم، بین الاقوامی حالات کتنے سازگار ہیں؟ اقوام متحدہ کا کردار کیا ہو گا؟ عالمی سماج میں ملکوں کے ٹوٹنے کے امکان کی پزیرائی کتنی موجود ہے؟ ہمسایہ ممالک کا طرز عمل جو ظاہر پاکستان، افغانستان اور ایران پر مشتمل ہوں گے۔ ان کا طرز عمل کیا ہو گا۔ ہماری تاریخ اس پر بھی گواہ ہے کہ کسی ریاست سے الگ ہونے والی ریاست جب اس کے ہمسائے میں ہوتی ہے تو دونوں جانب سے امن کی امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں بلکہ ایک مستقل دشمن کو پالا پوسا جاتا ہے۔برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ جغرافیہ بدلنے صورت خوان آلود ہوتی ہے۔ چہارم ہمسایہ اقوام (پشتون، ہزارہ، سیٹلرز) کے بارے میں کیا سوچا گیا ہے؟ کیا مستقبل میں ایک اور اکثریت اور اقلیت کی لڑائی کی تمہید باندھی جا رہی ہے؟ خصوصا اس صورت میں کہ موجودہ سیاسی پس منظر نامے میں بھی پشتون بیلٹ سے آج تک کوئی پشتون وزیر اعلی تسلیم نہیں کیا جا چکا۔ اگر تو اس کا جواب اکثریتی نمائندگی ہے تو جان لینا چاہیے کہ اختر مینگل، نواب مگسی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کے وزارت اعلی پر براجمان ہونے کی بنیاد اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی جماعتیں تھیں۔ پنجم، بلوچ سماج کی اندرونی ساخت، بلوچوں کے آپس کے قومی و قبائلی تضادات، اس بات کی کسی قسم کی شہادت کی غیر موجودگی کہ بلوچ من حیث القوم جد وجہد آزادی کے مضمرات سے آگاہ ہیں یا اس پر کسی قسم کا اتفاق راے موجود ہے یا ممکن ہے؟

گزارش یہ ہے کہ یہ تو طے شدہ ہے کہ بلوچستان کے ساتھ عرصے زیادتی ہو رہی ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کیسے کرنی ہے؟ متوازی دھاروں کو اپنی آواز ایک کرنی چاہیے۔ سیاسی جدوجہد پر خود کمربستہ کیا جائے۔ ہمیں اہل اقتدار کی جواب دہی کرنی ہے۔ ہمیں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانی ہے۔ ہمیں ایک لمبی جدوجہد کرنی ہے۔ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ بندوق کی زبان میں جو بھی کلام کرے۔ ہمیں بندوق کی زبان میں بات کرنے والے کو یہ بتانا ہے کہ ہم اس کی بندوق سے خوفزدہ ہو کر اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے جنگ پر تین لازوال جملے کہے تھے۔ ’ جنگ ایک ایسی برائی ہے جو کبھی ضروری بھی ہو جاتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جنگ کتنی ضروری ہے یہ ہمیشہ برائی ہی رہے گی کبھی اچھائی نہیں بن سکتی۔ ہم کبھی امن سے نہیں رہ سکیں گے جب تک ہم ایک دوسرے کے بچوں کو قتل کرتے رہیں گے‘۔ لکھنے والا جانتا ہے کہ جواب میں دشنام آئیں گے مگر لکھنے یہ بھی جانتا ہے کہ اقلیم صورت کیا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ سچائی پر کسی گروہ کا اجارہ نہیں ہوتا۔

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments