فاٹا کا قیدی درخت


\"usman-afridi\"(محمد عثمان آفریدی)

آپ نے قیدی انسان یا جانور کے بارے میں تو سنا ہو گا۔ لیکن قیدی درخت؟
سنہ 1898ء کی بات ہے جب ایک انگریز آرمی آفیسر شراب کے نشے میں اپنے کمرے سے باہر آیا اور اپنے سٹاف کو حکم جاری کیا
“Everything should be quiet”
تو اُدھر موجود جتنے سپاہی تھے وہ سارے خاموش کھڑے ہو گے۔ اس آفیسر کو بڑی خوشی ہوئی لیکن تھوڑی دیر بعد ہَوا چلنے لگی جس کی وجہ سے اُدھر موجود ایک درخت کے پتے ہلنے لگے تو آفیسر کو بیت غصّہ آیا اور اُس کو اپنی توہین سمجھنے لگا اور حکم جاری کیا۔
Arrest this tree immediately
حکم کی تعمیل تھی کہ اُس درخت کو بھاری زنجیروں میں باندھ دیا گیا اور اس پر اک تختی سے لکھا گیا۔
“Arrested tree”۔
یہ واقعہ پشاور سے 52 کلومیٹر دور خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل چھاؤنی میں انگریز آرمی آفیسر جیمز سکوڈ کے ساتھ 1898ء میں پیش آیا۔

اس وقت تمام لوگ پورے ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ لیکن قبائلی علاقوں میں سخت مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جدوجہد کو دبانے کیلے قبائلی علاقوں کو “فاٹا”میں تبدیل کیا اور ساتھ میں سخت قوانین جاری کیے جن میں سے ایک ایف سی آر کا مطلب “فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن” تھا، جس کے مطابق اگر حکومت کسی بھی شخص کے جرم کی سزا اس کے خاندان یا قبیلے کو دے سکتی ہے۔ لوگوں پر بہت مظالم ڈھائے گے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان اور ہندوستان دو ملک قائم ہو گئے۔ لیکن آزادی کے 67 سال گزرنے کے باوجود قبائلی ایف سی آر کی زنجیروں میں اور وہ درخت اسی طرح لوہے کی زنجیروں میں قید ہے۔ بس صرف اتنا ہوا کہ درخت سے “Arrested tree” کی تختی ہٹا کے
\"captive-tree\"“I am under arrest” کر دیا گیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس قیدی درخت کو آزاد کرنا چاہیے لیکن اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس درخت کو اسی طرح رہنے دیا جائے اور اس کی حفاظت کی جائے تاکہ تاریخی درخت دیکھ کر لوگ خود سمجھیں گے کہ اگر برطانوی دورِ حکومت میں درخت قید ہو سکتا ہے تو انہوں نے انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔

درہ خیبر کو گیٹ وے ٹو انڈیا بھی کہتے ہیں۔ سکندر اعظم، محمود غزنوی، بابر، احمد شاہ دُرانی وغیرہ جتنے بھی حملہ آور تھے اسی راستے ہندوستان آئے اور آج کل دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی درّے میں لڑی جا رہی ہے لیکن درّہ خیبر کسی کے سامنے جُھکنے والا نہیں۔ اسی لیے تو حفیظ جالندھری نے فرمایا تھا۔

ہیں ناہموار چٹیل سلسلے کالی چٹانوں کے
امانت دار لا فانی پرانی داستانوں کے
ہوائے درّہ خیبر ہے محوِ انتظار اب بھی
کہ آ جائے کوئی رہوارِ وحشت پر سوار اب بھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments