ورتھ وائل ٹرانزیکشن


عین مغرب کے وقت میں جفت ساز پہنچا۔ افطار کا دسترخوان لگ رہا تھا۔ حاجرہ بی بی ایک فالتو بندے کو دسترخوان پہ دیکھ کر بالکل بدمزہ نہ ہوئیں۔ بڑی کام کی خاتون ہیں حاجرہ بی بی۔ شروع میں ہی ولید کو مل گئی تھیں۔ ان کا شوہر موچی تھا۔ ولید نے اس کو دکان پر ملازم رکھ لیا اور بی بی کو گھرداری سونپ دی۔ بی بی کچھ سال بعد بیوہ ہوگئی، لیکن یہاں ان کی روزی روٹی کا وسیلہ یوں جڑا تھا کہ آج تک قائم تھا۔ بی بی کی بیٹی کی شادی پچھلے سال ہی ہوئی تھی۔ بیٹا نسٹ میں پڑھ رہا تھا۔

انہوں نے بڑے پیار سے مجھے پوچھا۔ کھجور اور شربت سے روزہ کھولا۔ تازہ چپاتی اور اروی گوشت کا مزہ ہی اور تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں پاؤں پسارے نیند سے چور تھا۔ بچے سب خوشی خوشی اپنی کتابیں لے کر جا چکے تھے۔

بس کاشف کا انسائیکلو پیڈیا رہ گیا تھا۔
”کاشف نظر نہیں آیا۔ گھر گیا ہے ملنے؟“ میں نے پوچھا۔

”گھر نہیں گیا۔ گھر والوں کے ساتھ گیا ہے۔“ ولید نے رسان سے جواب دیا۔
”کہاں؟“

”لاہور۔“
”ہیں؟“ میں اٹھ بیٹھا تھا۔ ”کیوں؟“

”رمضان میں جاتا ہے ہر سال۔“
”لاہور ہے یا مکہ مدینہ جو رمضان میں ثواب کمانے جاتا ہے خاندان؟“

ولید مسکرا دیا۔
”ثواب نہیں کمانے جاتا۔ بس کمانے جاتا ہے۔ عید سے پہلے۔ ہر سال یہ ایک مہینہ کاشف گھر والوں کے ساتھ لاہور جاتا ہے۔“

عجیب مصیبت ہے ولید سے کوئی جواب اگلوانا۔ اب میں نے سیدھا سوال پوچھا، ”کیا کرتے ہیں لاہور جا کر؟“
”بھیک مانگتے ہیں۔“ اسی سکون سے جواب آیا۔

چند لمحے خاموشی سے رینگ گئے۔
”تم جانے دیتے ہو؟“ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔

ہم کھلے آسمان تلے، چھت پر چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ ولید نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے لمبا سا ہنکارا بھرا۔
”کیوں؟“ ، میں نے پوچھا۔
وہ میری طرف کروٹ لے کر بتانے لگا۔

”بہت سی وجوہات ہیں۔ اول، وہ اس کے والدین ہیں، اور میری پسند، ناپسند سے زیادہ ان کی رضا کا وزن ہے۔ میں اس کا استاد ہوں۔ میں اس کے لیے کیسے رشتوں کو آزمائش بنا دوں؟ جو استاد علم حاصل کرنے والے کا ادب کر نہ سکے، وہ خاک استاد ہوا!

دوم، میرا کام اس بچے کو اجازت دینا، نہ دینا نہیں ہے۔ میرا کام اس کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی سٹیج تک پہنچنے کے لیے شعور فراہم کرنا ہے۔ وہ میں اپنے تئیں کر رہا ہوں۔
اور سوم، میرا اندازہ اگر غلط نہ ہوا، تو یہ کاشف کا آخری ایسا پھیرا ہے۔ ”اندھیرے میں بھی اس کے لہجے میں مسکراہٹ کی جھلک دِکھ رہی تھی۔

”تمہیں کیسے پتہ ہے؟“

”اس لیے کہ اب کی بار وہ صرف اس لیے گیا ہے کیونکہ اس سے انکار ہو نہیں پا رہا تھا۔ اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔ دماغ نہیں اجازت دے رہا تھا۔ لیکن ابھی اپنی رائے، اپنی دلیل پر بھروسا نہیں تھا اسے۔ مجھے ہے۔ اگلے سال خیر سے بارہ برس کا ہوگیا ہو گا۔ میرے رب کا کرم شاملِ حال رہا تو اگلے سال یہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی روک لے گا۔“

”اتنا یقین؟“ میں اس کے فخریہ لہجے پر مسکرا اٹھا تھا۔
”بات میرے یقین کی نہیں، اللہ کی رضا کی ہے۔ اور اللہ کی رضا سے مجھے بڑی امید ہے۔ کاشف ماشاء اللہ بہت روشن ہے۔ اللہ بھاگ لگائے گا اسے۔ تمہیں پتہ ہے میں نے اس کے ساتھ جانے سے پہلے ایک گفتگو کی۔ آداب کے بارے میں۔“

”مانگنے کے آداب؟“
”نہیں۔ سوالی کو جواب دینے کے آداب۔ بات رولز آف بزنس سمجھنے کی ہے نا۔ سو میں نے اس سے کہا، بیٹے جو مرضی کرو۔ لیکن کرو طریقے سے۔ سلیقہ نظر آنا چاہیے۔“

”مانگنے کا سلیقہ؟“ میں ہنس پڑا۔

”ٹرانزیکشن کا سلیقہ۔ مانگنے کے آداب کے بارے میں وہ مجھے سکھائے گا واپس آ کر۔ ابھی میں نے بریفنگ دی ہے۔ سو دیٹ ہی انڈرسٹینڈز (So that he understands) کے جس سے وہ انگیج کر رہا ہے اپنی ٹرانزیکشن میں، وہ ورتھ وائل (worthwhile) ہے بھی یا نہیں۔“

”واہ۔ کیا شاہانہ اپروچ ہے! گداگری میں بھی آپ نے ریونیو ماڈل بنا لیا ہے۔“ میں نے اس کی ڈگری کے حوالے سے چوٹ لگائی۔
ولید کی آنکھیں اندھیرے میں چمک اٹھیں۔

”بس اسے ورتھ وائل ٹرانزیکشنز کی پہچان ہو جائے!“
”اینلائیٹن می!“ (Enlighten me! )

ولید چارپائی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔

”جب ہم کسی سے بھیک مانگتے ہیں نا، یا سوال کرتے ہیں، کوئی حاجت پیش کرتے ہیں، یا کوئی درخواست کرتے ہیں، تو دراصل ہم مرتبوں کے باہمی فرق کو ایکنالج (acknowledge) کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اصرار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم من چاہی نعمت کے کم تر مقام پر ہیں اور دوسرا برتر مقام پر ہے۔ دوسرے کی برتری اس مقام پر ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اپنی برتری میں عطا کر دینے کے درجے تک پہنچا ہوا ہے، اور یہ کہ عطا کر دینے سے اس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ اور ہم اس سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلائیں گے تو وہ ہماری ضرورت پوری کرے گا۔

یہ ہے پہلا باب۔

اب جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس یقین کو کس طرح سراہتا ہے۔ اس کی قدرت اور ظرف دونوں کا امتحان ہوتا ہے یہاں۔ بہت سے لوگ عطا کی قدرت نہیں رکھتے، پر ظرف رکھتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو قدرت رکھتے ہیں مگر ظرف سے محروم ہیں۔ بہت سے دونوں سے محروم ہیں۔ ”

”اور ان کا کیا وہ جو دونوں قدرت اور ظرف رکھتے ہیں؟“ میں نے بیچ میں ٹوکا۔

”ان سے تو سوال کیا ہی نہیں جاتا۔ انہوں نے بِن کہے اپنے ذمے عطا لے رکھی ہوتی ہے۔ سوال تو آزمائش ہے۔ امتحان ہے۔ بے خبر کو ہوشیار کرنے والی گھنٹی ہے۔ جاگو! خبردار ہو! تم سے امید لگائی گئی ہے، تمہیں قابل سمجھا گیا ہے۔

اب جو قدرت نہیں رکھتا پر ظرف رکھتا ہے، وہ قابلیت کے اس دعوت نامے پر عاجزی سے دوہرا ہو جائے گا۔ عطا کرنے کا موقع ہو، اور عطا کی توفیق نہ ہو، بھلا اس سے بڑی اور کیا کم نصیبی ہو سکتی ہے؟ آپ مالک کی نقل کر سکتے تھے، نہیں کر پا رہے۔ وائے محرومی! سو وہ کسرِ نفسی سے خود کو اس سچویشن سے منہا کرتا ہے۔ معذرت طلب کرتا ہے۔ شرمسار ہوتا ہے۔ اپنے چھوٹا پڑ جانے پر نادم ہوتا ہے۔ اسے برتر مانا گیا، صرف یہی احساس عاجزی کا سوتا بن جاتا ہے۔ ”

”جو قدرت رکھتے ہیں مگر ظرف سے محروم ہیں، وہ کیا کرتے ہیں پھر؟“

”فیل ہو جاتے ہیں۔ دے کر بھی فیل ہو جاتے ہیں، روک کر بھی فیل ہو جاتے ہیں۔ جو نخوت سے عطا کر دیتے ہیں، سوالی کا سوال پورا کر دیتے ہیں، وہ اس پوری ٹرانزیکشن کو اور اس کا پروٹوکول سمجھے بغیر، اس سچویشن میں اپنے کردار کو سمجھے بغیر موقع ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ یہ درک کر ہی نہیں پاتے کہ ان کو دینے کی توفیق دیکر، اوپر والے نے ان پر نوازش کی ہے، بندگی کا در کھولا ہے۔ وہ اپنی بے نیازی کی دھن میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ کس وقت تکبر کی پٹڑی پر چڑھے، انہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ سو ان کا دینا بھی ان کی چارج شیٹ کا حصّہ بن جاتا ہے۔ رہ گئے وہ جو جھڑک کر دینے سے انکار کر دیتے ہیں، ان کا لہجہ ان کے تکّبر کی گواہی بن جاتا ہے۔“

”ہمممم۔ اچھا اب وہ والی ٹائپ رہ گئی جو قدرت سے بھی محروم ہے اور ظرف سے بھی۔ اس کا کیا ہوتا بنتا ہے؟“

”میرے والا حال!“ ولید عجیب سے پر تاسّف انداز میں مسکرایا۔ ”جو لوگ کسی بھی ٹرانزیکشن میں نہ دینے کی قدرت رکھتے ہیں نہ ظرف، وہ دوسرے انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے ہیں۔ اور وہ انسان جو دوسرے انسان کے لیے آزمائش بن جائے، اس کا کیا بننا ہے؟ یہ شیطان کا وعدہ تھا انسان کو رب کی راہ سے بھٹکانے کا۔ اگر اپکا طرزعمل ایسا ہو کے آپ کی وجہ سے کوئی شکرانے کی کیفیت سے دور ہو جائے، آپ کی وجہ سے رب سے ناخوش ہو جائے، تو بندیاں توں تے کھیہ کھٹی فیر دنیا اچ، لخ لعنت ایہو جے جیون تے۔“

”کیا مطلب؟“ کچھ نیند کا غلبہ تھا کچھ یہ احساس کے بات کی نوعیت بدل گئی ہے، میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔

”بات بہت سادہ ہے یار۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی سوال کرے یا آپ سے امید باندھ لے تو اس نے آپ کو ایک مرتبہ عطا کر دیا ہے۔ اب اگر آپ میں اس مرتبے کے مطابق دینے کی استطاعت نہیں ہے یا حالات اجازت نہیں دیتے تو short coming آپ کے end پر ہے۔ اس بات کا احساس سر کو جھکا دینا چاہیے۔ اگلے نے آپ کو داتا مانا، آپ کی پوہنچ آپ کو داتا بننے کی اجازت نہیں دیتی۔ فائن۔ عاجزی سے، شرمساری سے اپنا آپ چھوٹا پڑنے پر معذرت طلب کر لینی چاہیے۔ محدود ثابت ہونے والے کے پاس شرمندہ ہونے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ شیطان آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے پے چھوٹا پڑ گیا تھا پھر اکڑ گیا اپنے ظرف کی تنگی پر۔ دے سکنے کی سکت ہونا، نہ ہونا قابلِ گرفت نہیں ہے، دے سکنے یا نہ دے سکنے کو اپنی انا کی تسکین کے لیے استعمال کرنا قابلِ گرفت ہے۔ جو دیتے ہوئے شکر گزار نہ ہو، اور منع کرتے ہوئے شرمسار نہ ہو، ایسی ٹرانزیکشن ورتھ وائل نہیں۔ یہ سمجھایا تھا میں نے کاشف کو۔ اتنا سمجھ لے گا تو انشاء اللہ ورتھ وائل ٹرانزیکشنز کرنے والے رب کو بھی پہچان لے گا۔“

ہم دونوں کے درمیان خاموشی بوگن بیلیا کی بیل کی طرح پھیل گئی۔
”کاشف کو سمجھ آ گئی ہیں یہ باتیں؟“ چند لمحوں بعد میں نے پوچھا۔

”شاید۔“ وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ ”علم کے اولین اسباق میں سے ایک توقف ہے۔ سمجھ، دانائی، ہوشمندی، قیام کے ساتھ مشروط ہیں۔ اگر آگے بڑھنے کوسرپٹ بھاگے گا نہیں، تو انشاء اللہ کامیاب رہے گا۔ ٹھہراؤ شرط ہے بندگی کی۔ اور بندگی ہی تو زندگی ہے۔ “

”عجیب بندے ہو!“ میں نے پیار سے اس کھچڑی سر والے ولید کو دیکھا جس کو سمجھنا میرے بس سے باہر تھا۔

ولید ہنس پڑا۔ ”تم اگر انسانوں کا کھوج لگانے کی خواہش کو ایک لمحے کو سائڈ پر رکھ چھوڑو تو تمہارا بوجھ بہت ہلکا ہوجائے گا۔ کریدنے کے لیے کائنات کا نظام ہے۔ انسان کو کیا کھوجنا؟“

”انسان کو نہ کھوجوں تو پھر کیا کروں؟“

”انسان سے صلہء رحمی کرو، اس کی ذات سے بے نیاز ہو کر۔ معبود نے جس تخلیق کو عبد کا سٹیٹس دے دیا، تم میں کون ہیں اس میں ٹوہ رکھنے والے؟ اپنا کام تو صرف بندگی ہے۔ ان کنڈیشنل سبمشن (unconditional submission) ہے۔ سبمٹ کر دینے سے ہی تو زندگی میں رومانس پیدا ہوتا ہے۔ “

میں ایبٹ آباد کے تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا رہا۔ نوری سال کے فاصلے پر دمکتے ان تاروں کی روشنی کیا اتنا سفر کرپاتی ہے جتنا قیام کا مرتبہ سمجھ لینے والی روح؟ کیا یہ تارے اتنے ہی روشن ہیں جتنی معبود کے سامنے سپردگی سے سرشار روح؟

کیا میری روح اس ورتھ وائل ٹرانزیکشن کرنے والے کو کبھی پہچان پائے گی؟
کون جانے! کون جانے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments