موت کے منہ سے لوٹنے والی ماں مجھے پانچ سو روپے دینا چاہتی تھی


رانی کے لئے بھی کچھ دوائیں ہسپتال سے ملی تھیں، نواب شاہ کی لڑکیوں کے میڈیکل کالج کی طالبات نے اسے اپنا خون دیا اور وارڈ میں لیڈی ڈاکٹروں نے خیرات زکوٰۃ کی مد میں جو رقم جمع کی تھی اس سے اس کے لئے قیمتی اینٹی بائیوٹک خریدی اور آپریشن کے لئے کچھ سامان حاصل کیے گئے تھے۔

اس کا آپریشن کرنا پڑگیا۔ پیٹ کھول کر تقریباً سڑی ہوئی بچہ دانی کو نکال دیا گیا اور چھوٹی آنت میں کئی سوراخ تھے۔ ان سوراخ زدہ آنتوں کے حصوں کو نکال کر بقیہ آنتوں کو جوڑدیا گیا۔ اسے چھ بوتل خون کی لگائی گئیں۔ آپریشن چھ گھنٹے تک ہوتا رہا۔ وہ زندگی اور موت کے سرحد کے درمیان جھولا جھولتی رہی۔

پتہ نہیں وہ کیسے بچ گئی تھی۔ عام طور پر ایسے مریض بچتے نہیں ہیں۔ شاید اس کے اندر کی ہمت تھی، جینے کی لگن، زندہ رہنے کی خواہش، یہ شدید احساس کہ اگر وہ مرگئی تو گھر پر رہ جانے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہوگا، جسمانی زخموں کو اس نے شکست دے دے تھی۔ مجروح زخمی روح کے زخموں کو کون گنتا ہے، کس کے پاس وقت ہے جو غریب کے درد کو محسوس کرے۔ خودبخود ہونے والے ابارشن کے بعد، اسقاط حمل کرانے والی لڑکیاں اورمس کیرج کی شکار عورتیں فطری طور پر یاسیت کا شکار ہوجاتی ہیں، جسمانی درد و تکلیف کے ساتھ نفسیاتی طور پر حالت اتنی خراب ہوجاتی ہے کہ وہ خودکشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ہیں۔

آپریشن کے دس دن کے بعد یکایک اس کا بستر گیلا ہونا شروع ہوگیا۔ مجھے فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ پیشاب کی تھیلی میں لگے ہوئے کالے نشان جن پر خون جما ہوا تھا وہ گل کر جھڑگئے ہیں اور اسے فسٹیولا بھی ہوگیا ہے، پیشاب کی تھیلی میں سوراخ جہاں سے پیشاب مسلسل بہتا رہتا ہے۔

جب دائیاں شہر کی کچی آبادیوں اور چھوٹے شہروں میں، قصبوں میں چوری چھپے اپنے زنگ زدہ اوزاروں سے بچہ گراتی ہیں تو وہ نہ صرف یہ کہ بچہ دانی میں بھی سوراخ کردیتی ہیں بلکہ پیشاب کی تھیلی بھی محفوظ نہیں رہتی ہے۔ رانی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ زندگی کے گھاؤ کتنے گہرے ہوتے ہیں، اس کا اندازہ رانی کو دیکھ کر لگایا جاسکتا تھا۔ وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ اس کے مزید بچے نہ ہوں مگر ہمارے نظام نے اسے تقریباً ماردیا تھا۔ اس کی بچہ دانی نکال لی گئی، اس کی آنتوں کو کاٹنا پڑا اور اس کی پیشاب کی تھیلی میں سوراخ ہوگیا۔ اس کے جسم سے چلتے پھرتے پیشاب کی بدبو آنے لگی۔

تین ہفتوں کے بعد اسے گھر بھیج دیا گیا اس مشورے کے بعد کہ وہ آٹھ ہفتوں کے بعد دوبارہ آئے تو پھر اس کے پیشاب کی تھیلی کے سوراخ کو ایک آپریشن سے بند کردیا جائے گا۔

وہ آٹھ ہفتوں میں نہیں چار مہینے کے بعد آئی، اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ۔ وہ پندرہ سولہ سال کا جوان ہوتا ہوا لڑکا تھا، میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ جب اس کے آنے کا وقت ہوا تو فصلیں کٹنے کو تیار تھیں اورہاریوں کے سارے خاندان اس وقت مصروف ہوجاتے ہیں۔ کیا صحت مند کیا بیمار، کیا چھوٹے کیا بڑے، کیا مرد کیا عورت ہر ایک کو کام کرنا ہوتا ہے۔ پیٹ کھانا مانگتا ہے، روٹی اور قرض دینے والے قرض واپس مانگتے ہیں جو فصل کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے۔ فسٹیولا ہے تو کیا ہوا، پیشاب بہہ رہا ہے تو بہتا رہے۔ فصل کٹنی ضروری ہے۔

اس نے بھی خود ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ فصل کے بعد آپریشن کرانے جائے گی۔ ویسے ہی بیماری سے قرض چڑھ چکا ہے اسے کون اتارتا۔
سچی بات یہ ہے کہ میں اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کس طرح سے اس نے کام کیا ہوگا۔ اتنے بڑے آپریشن کے بعد، اتنی زیادہ بیمار رہنے کے باوجود۔ میں صرف سوچتا ہی رہ گیا۔

فسٹیولا کا آپریشن آسان تھا۔ آپریشن کے بعد اسے چودہ دن ہسپتال میں رہنا پڑا۔ چودھویں دن جب پیشاب کی نلکی نکالی گئی تو پیشاب کی تھیلی میں ہونے والا سوراخ بند ہوچکا تھا۔ وہ واپس اپنے گاؤں جانے کے لئے تیار تھی۔

دوپہر دو بجے جب میں ہسپتال سے باہر نکلا تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ وارڈ کے باہر میرا انتظار کررہی تھی۔ وہ اور اس کا بیٹا دونوں میرے سامنے کھڑے تھے۔ اس کے ہاتھوں میں سو سو روپے کے پانچ مُڑے تڑے نوٹ تھے جو وہ مجھے دینا چاہ رہی تھی۔

”تو نے میری جان بچائی ہے، مجھے زندہ کردیا ہے۔ “ اس نے آہستہ آہستہ بڑبڑاتے ہوئے سندھی میں کہا۔ اس کے بیٹے نے کہا کہ ماں نے فصل پر کام کرکے یہ روپے تمہارے لئے بچائے ہیں۔ بڑا احسان ہے تمہارا۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہے وہ اخلاقاً نہیں ہے بلکہ اس کے دل میں بھی یہی ہے۔

میں وہ نوٹ کیسے لے سکتا تھا۔ ایک غریب کسان کی لٹی ہوئی بیوی سے۔ جو میں نے کیا اس کی تو سرکار مجھے تنخواہ دیتی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا۔ بڑی مشکلوں سے ان دونوں نے روپے واپس لئے تھے۔ میں نے ان دونوں کو سمجھایا کہ یہ پیسے وہ اپنے آپ پر خرچ کرے، اپنے خاندان پر خرچ کرے۔

اس نے میرا ہاتھ چوما اور اس کا بیٹا میرے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میرا دل رو رہا تھا۔
نہ جانے کب ان غیرت مند غریبوں کے سروں سے بے غیرت حکمرانوں کا سایہ چھٹے گا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2