کیا اے آر وائی پر حملہ ایم کیو ایم نے کیا؟


\"mujahidکراچی میں امن و امان کی بحال ہوتی صورتحال کو ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک کے ایک اہم ٹیلی ویژن پر حملہ کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ ملک میں اب بھی ایسے عناصر طاقتور اور حوصلہ مند ہیں، جو آزادی اظہار اور میڈیا کی خودمختاری کو صرف اس وقت تک تسلیم کرتے ہیں جب تک وہ ان کا آلہ کار بنا رہے۔ کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ رینجرز بھی ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں تمام تر کوششوں کے باوجود حالات پر پوری طرح قابو پانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ ہر سانحہ کے بعد رینجرز کے سربراہ کو شہریوں کو یقین دہانی کروانا پڑتی ہے کہ ہر قیمت پر ان کی زندگیوں اور کاروبار کی حفاظت کی جائے گی۔ لیکن آج اے آر وائی پر حملہ کے دوران ہلاک ہونے والے شخص کے اہل خاندان کےلئے یہ یقین دہانی کافی نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اگرچہ کوئی دہشتگرد حملہ نہیں تھا اور سیاسی ناراضگی کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اس میں دہشتگردی کے تمام عناصر موجود تھے۔ یہ لوگ قانون کی بالا دستی، نظام کے استحکام اور رائے سے اختلاف کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

پولیس ، رینجرز ، اے آر وائی اور صحافیوں کی بڑی تعداد اس حملہ کا الزام متحدہ قومی موومنٹ پر عائد کر رہی ہے۔ متحدہ کے لیڈر شروع میں خاموش رہنے کے اب تازہ دم ہو کر سیاسی وضاحتوں کے ساتھ میدان عمل میں کود چکے ہیں اور وضاحت کر رہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن تو اے آر وائی ARY کے دفتر کے باہر پرامن احتجاج کر رہے تھے لیکن انتظامیہ نے پارٹی کو بدنام کرنے کےلئے نامعلوم عناصر کو انتشار پیدا کرنے اور اے آر وائی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کےلئے بھیجا تھا تاکہ پارٹی کی پرامن تحریک کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس صورتحال کے بارے میں کبھی پورے حقائق سامنے نہیں آ سکیں گے۔ ایم کیو ایم کے لوگ پکڑے جائیں گے، ان کے چہرے ٹی وی فوٹیج میں شناخت ہو جائیں گے لیکن پارٹی بدستور اپنی بے گناہی کا اعلان کرتی رہے گی اور اپنی جہدوجہد کو پرامن قرار دیتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ صوبے کے وزیراعلیٰ اور ملک کے وزیراعظم مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے کر اپنا فرض بجا لائے ہیں۔ اب وہ مطمئن ہوں گے کہ پولیس اور رینجرز ان سب لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے جو اس حملہ میں ملوث تھے۔

ہو سکتا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف چند مزید ایف آر آر درج کروا دی جائیں، آنے والے دنوں میں بعض عدالتیں انہیں ایک بار پھر بھگوڑا اور اشتہاری قرار دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے برطانوی حکام کو مزید ایک خط لکھیں اور یہ مطالبہ کریں کہ ان کے ملک کا ایک شہری کراچی میں بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کی جائے یا اسے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ برطانیہ بھی اس ممکنہ خط کا ویسا ہی جواب دے سکتا ہے جیسا جواب برطانوی سرزمین پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں تعاون کے حوالے سے پاکستان دے چکا ہے۔ مقتول رہنما کے قاتلوں کو کئی برس تک حراست میں رکھنے کے باوجود پاکستان نے بدستور انہیں برطانیہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ اس طرح ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی پہیلی کا جواب برطانیہ کی کسی عدالت میں تلاش کیا جا سکتا تھا اور الطاف حسین کے مجرمانہ کردار کا پردہ بھی فاش ہو سکتا تھا۔ پاکستان اس قسم کی غلطی نہیں کر سکتا۔ الطاف حسین کے خلاف گواہ اور ثبوت کسی بھلے یا برے وقت میں کوئی سیاسی سمجھوتہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔ مجرموں کو برطانیہ کے حوالے کرنے سے ملک کے سیاسی حکمرانوں کو کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ سیاست ہے۔ اس میں ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے۔ شطرنج کی بساط پر چال احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک غلط مہرہ بازی الٹ سکتا ہے۔ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان سے بہتر، سیاسی بساط کے اس کھیل کو کوئی نہیں جانتا۔

اے آر وائی کے اینکر اور مبصر چلا رہے ہیں کہ الطاف حسین کی تقریر اور اس میں ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر حملہ کرنے کا حکم ۔۔۔۔ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ٹیلی ویژن اسٹیشن پر دھاوا بونے کےلئے آمادہ کر رہے تھے۔ صحافیوں کو سزا دینے کی فرمائش پر جب کارکنوں نے پوچھا: ’’بھائی آپ حکم کریں‘‘ تو بھائی نے ٹھنڈے پانی کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے رسان سے کہا: “بسم اللہ بسم اللہ‘‘۔ اس کے دس منٹ بعد کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں جمع ایم کیو ایم کے کارکن اے آر وائی کے دفتر پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ پولیس حسب مقدور ان کو روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن غصے سے بھرے اپنے لیڈر کے بہکائے ہوئے کارکن وہ کام پورا کرنے کےلئے تیار ہو کر آئے تھے جس کا وعدہ انہوں نے اپنے قائد سے کیا تھا۔ الطاف حسین اپنی لندن کی آسائش گاہ میں ان مناظر کے ٹیلی ویژن فوٹیج دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے کہ ان کے جیالوں میں اب بھی اتنا دم ہے کہ وہ رینجرز کے کئے کرائے پر پانی پھیر سکیں۔

سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی سے قطع نظر الطاف حسین یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وہ کسی وقت بھی کراچی کا امن و امان برباد کر سکتے ہیں۔ اب وہ اپنی آرام گاہ میں اپنے قریب ترین معتمدین کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے کر یہ طے کریں گے کہ آج اے آر وائی پر حملہ کی صورت میں جو تجربہ انہوں نے کیا ہے، کیا آئندہ کسی موقع پر اسے کوئی بڑا سانحہ رونما کرنے کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یا یہ ہنگامہ ان کی توقع اور امید سے کم تھا۔ یہ واقعہ انہیں کارکنوں کی وفاداری ، اپنی تنظیم کی کارکردگی اور اس مسلح گروہ کی قوت کا اندازہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا جو شروع دن سے الطاف حسین کی طاقت رہا ہے اور جس کے بل بوتے پر وہ کراچی کے ہر اخبار اور ٹیلی ویژن اسٹیشن کو دھمکا کر اپنی مرضی کی خبریں چلواتے رہے ہیں۔ کبھی کسی باضمیر صحافی میں اتنا حوصلہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خاندان کی زندگی خطرے میں ڈال کر الطاف حسین کی خواہش مسترد کرنے کا حوصلہ کر سکتا۔ کوئی صحافی یہ جرات کر بھی لیتا تو کمرشل مفادات کے اسیر مالکان کبھی یہ خطرہ مول لینے کےلئے تیار نہ ہوتے۔ آزادی اظہار اور صحافت کی سربلندی کے نعرے اس وقت بھی اتنی ہی قوت سے بلند ہوتے تھے۔

یہ تو الطاف حسین کی زبان بے وقت اور بے موقع پھسل گئی اور ڈی جی رینجرز اور فوج کے خلاف وہ ایسے کلمات کہہ گئے جو ان کے گلے کی پھانس اور پاکستانی میڈیا کےلئے یوم آزادی بن گئے۔ کراچی میں رینجرز نے ایم کیو ایم کی عسکری قوت کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا اور لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطابات کو براہ راست نشر کرنے کا سلسلہ بند کرنے کا حکم دے دیا۔ اس وقت سے الطاف حسین یہ پابندی ختم کروانے کےلئے تلملا رہے ہیں۔ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آج شام کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ڈی جی رینجرز کے بارے میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہاں درج کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر کارکنوں کو ایک نیک کام کی بسم اللہ کرنے کا حکم دے کر وہ مطمئن ہو گئے تھے۔

اب ان کے ہرکارے الطاف حسین کی عظمت اور ایم کیو ایم کی بے گناہی کےلئے دلائل دے رہے ہیں۔ نہ اس ملک کے صحافی اور ایڈیٹر اپنے طور پر کبھی یہ حوصلہ کر سکے تھے کہ وہ نشے میں دھت ایک مخبوط الحواس شخص کی تقریروں کو ایڈٹ کرنے اور براہ راست نشر نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے اور نہ ایم کیو ایم کے پڑھے لکھے معزز قائدین کبھی اس جرات کا مظاہرہ کر سکے تھے کہ وہ اپنے قائد سے کہتے کہ اس کی زبان درازی سیاسی بیان نہیں بلکہ تمام بنیادی اخلاقیات اور باہمی احترام کے اصولوں کے خلاف تھی۔ نہ ہی کسی لیڈر کو اتنا حوصلہ ہوا کہ وہ اپنے اس عظیم قائد کی ۔۔۔۔ جسے بھائی کہے بغیر پارٹی کا کوئی شخص بات شروع یا مکمل نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔ لغو بیانی کے دوران جلسہ سے اٹھ کر چلے جاتے اور الطاف حسین کو یہ پیغام دے سکتے کہ سیاسی منشور پر اتفاق رائے کا مطلب شخصی غلامی نہیں ہوتا۔

یہ سوال پاکستان کے ان تمام مدیران کو خود سے کرنا چاہئے اور قوم کو اس کا جواب دینا چاہئے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ سے قبل بطور ایڈیٹر کیوں الطاف حسین کی تقریروں کو براڈ کاسٹ کرنے سے انکار نہیں کر سکے۔ ان سطور میں اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ ایک جمہوری نظام میں کوئی عدالت کسی شخص کی زبان بندی کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ عدالت کسی بھی فرد کی طرف سے قانون شکنی کی صورت میں اسے قانون کے مطابق سزا ضرور دے سکتی ہے خواہ وہ الطاف حسین ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن میڈیا ہاؤسز کو یہ حکم نہیں دے سکتی کہ فلاں شخص یا سیاستدان کی گفتگو نشر نہ کی جائے، خبر شائع نہ کی جائے اور اس کا بلیک آؤٹ کیا جائے۔ البتہ کسی بھی ادارے کے مدیر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی خبر نشر کرنا ضروری ہے اور کون سی روکی جا سکتی ہے۔ لیکن کسی مدیر نے دہشت پر آمادہ سیاسی قوت کے سامنے دیوار بننے کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔

آج کراچی کے واقعات ملک میں آزادی اظہار اور سیاسی جمہوری نظام کے بارے میں سنگین اور سنجیدہ سوالات سامنے لائے ہیں۔ ان کے جواب صرف الطاف حسین پر الزام تراشی کے ذریعے تلاش نہیں کئے جا سکتے۔ اس صورتحال کو روکنے کےلئے عدالتوں کے بے بنیاد فیصلے بھی کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں گے۔ الطاف حسین کی سیاسی قوت کو توڑنا اور ایم کیو ایم کے ’’ناراض عناصر‘‘ پر مشتمل پاک سرزمین شاد باد قسم کی تحریک چلوانا بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یہ صورتحال صرف اس وقت تبدیل ہو سکتی ہے جب میڈیا اپنے حقوق و فرائض کو پہچانے اور خبر کی اشاعت کے حوالے سے اپنے حق پر کوئی سودے بازی کرنے سے انکار کر دے۔ سیاستدان الطاف حسین کی سیاسی قوت کا احترام کریں۔ ان کے ساتھ معاہدے کریں اور سیاسی عمل میں انہیں ان کا حصہ دیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ان کے کسی بھی جرم پر پردہ ڈالنے کے گناہ میں شریک نہ ہوں۔ بعض مجرموں اور شواہد کو سیاسی فائدہ اٹھانے کےلئے سنبھال کر رکھنے کا طریقہ ترک کر دیا جائے۔

پولیس کو سیاسی رسوخ سے پاک کیا جائے۔ اسے خود فیصلے کرنے اور مجرموں کر پکڑنے کی آزادی دی جائے۔ رینجرز اس اختیار کے تحت پوری ذمہ داری سے اپنا کام کریں جو آئین کی مختلف شقات کے تحت انہیں تفویض کیا جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ زیر حراست افراد کے بیانات میڈیا کو فراہم کرنے سے کسی سیاسی قوت کو ہراساں تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس طرح اسے گناہ کار ثابت کرنے کی بجائے سیاسی مظلوم کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ پولیس ہو، ایف آئی اے ہو یا رینجرز انہیں قانون کے دائرے میں جرم کی بیخ کنی اور مجرموں کا سراغ لگانے تک محدود رہنا ہو گا۔ اگر وہ اس مقدس فریضہ میں خود قانون شکنی کریں گے تو سماج کا گدلا پانی کبھی صاف نہیں ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments