روپ نگر کے بندر اور جانبدار جمہوریت


\"wajahat\"مولانا محمد علی جوہر کون تھے؟ ہم نے تو انہیں مطالعہ پاکستان کے منظور شدہ نصاب میں پڑھا۔ ڈاک کے ٹکٹ پر ان کی تصویریں دیکھیں۔ کچھ مطائبات اور من گھڑت واقعات اخباری مضامین میں پڑھے۔ واللہ مولانا محمد علی جوہر ایسے نہیں تھے۔ مرشد والا صفات کی خوبی ہیچ مداں سے بیان ہونا مشکل ہے، عجز بیان حائل ہوتا ہے۔ جو جانتے تھے انہوں نے بتایا ہے کہ مولانا تین خوبیوں کا سہ آتشہ تھے۔ جذبہ، خلوص اور سلوک۔ کبھی اردو ادب کے اساتذہ کو محمد علی جوہر کی غزل سے گرد جھاڑنے کی توفیق ملی تو معلوم ہوگا کہ سیاست، صحافت اور خطابت کی فلک بوس چوٹیوں کی وادی میں کسی پایاب چشمہ کے کنارے ہری دوب پہ بیٹھا شاعر لکھتا تھا:

ہے یہاں نام عشق کا لینا

اپنے پیچھے بلا لگا لینا

میر کے بعد بلا کو کسی نے کیا ایسا باندھا ہو گا؟ بہت بعد کو البتہ محبوب خزاں آئے جنہوں نے لکھا

ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں

رفتگاں کی بلا اور زمانہ حاضر کا جھگڑا، کوئی مشکل سی مشکل ہے؟ دیکھئے جوہر پھر یاد آئے، چھنڈوارہ جیل سے چھوٹ کر آئے اور لکھا۔

چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا

زمانہ مسلسل بدل رہا ہے۔ سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ اسیر کون تھا اور سوئے زنداں جاتے ہوئے مقصد کی کیا متاع لے کر چلا تھا۔ اسیری بہر صورت ایک تعطل ہے، محن کی رات اور رہائی کی صبح کے درمیان زمانے گزر جاتے ہیں۔ انقلاب فرانس کے بعد باستیل سے جو قیدی رہا ہوئے ان میں ایک پیر فرتوت بوڑھا پیرس کی سڑکوں پر دیوانہ وار اس شہر کو ڈھونڈتا تھا جسے بدلنے کی خواہش میں پچاس برس پہلے داخل زنداں ہوا تھا۔ کبھی آصف بٹ، خالد چوہدری اور جاوید اقبال معظم سے پوچھیے گا کہ جب یہ ضیا الحق کی قید سے رہا ہو گئے تو لاہور میں واپس کیوں نہیں آئے؟ رہتے تو لاہور ہی میں ہیں مگر جس لاہور کو یہ جانتے تھے، اب وہ لاہور نہیں رہا۔ لوٹے ہیں تو اک دھوپ کا ٹکرا نہیں ملتا۔ دیکھئے جوہر صفت کی بات تھی اور گلی گلی گئی۔ عرض صرف یہ تھی کہ زمانے کا بدلنا محض اس سے نہیں جانچا جائے گا کہ ہمارے خدوخال بدل گئے۔ اور یہ کہ یہاں کچھ حادثے ہو گئے…. نیز یہ کہ جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر، وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ زمانے کا بدلنا اس آنکھ کا تقاضہ کرتا ہے جو یہ جانچ سکے کہ اصل میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ قائم اور تغیر میں فرق کرنا ہی وقت میں زندہ رہنا ہے۔

ہمیں دیکھئے چھ سو برس پہلے علم کی مبادیات میں جوہری تبدیلی آ گئی تھی۔ ہم نشاة ثانیہ کاحصہ نہیں تھے۔ اب ہر ایک کو جیب سے نکال کر ماضی دکھاتے ہیں کہ یہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ صاحب علم کی حویلی مکینوں کی چلت پھرت سے آباد ہوتی ہے۔ اہل مشرق نے اپنے علم پر تقلید کا تالا لگا دیا تو خالی حویلیوں میں آسیب اتر آئے۔ ہسپانوی مصور فرانسسکو گویا نے ایک تصویر بنائی اور عنوان رکھا، عقل سو جاتی ہے تو عفریت جنم لیتے ہیں۔ ہمیں علم کے بند کواڑ کھول کر سوال کو مدعو کرنا چاہئے۔ پھر یہ ہوا کہ قومی ریاست پیدا ہوئی۔ قومی ریاست سیاسی بندوبست کا ایک نیا ڈھب تھا۔ ہم نے اسے نہیں سمجھا، ہمارے قومی ترانے میں ایک مصرع ہے۔ قوم، ملک، سلطنت…. نتیجہ یہ کہ ہم قوم تعمیر نہیں کر سکے، ملک کو ترقی نہیں دے سکے اور سلطنت کا خواب مسلسل دیکھے جا رہے ہیں۔ سامنے کا لفظ ہے، سیکولر ازم۔ بنیاد اس کی یہ کہ فیصلے فہم عامہ کی روشنی میں ہوں گے۔ اور یہ کہ فہم پر کسی کا اجارہ نہیں۔ دنیا کی ہر ریاست آج اپنے جوہر میں سیکولر ہے۔ ہم البتہ سیکولر کے لفظ سے بدکتے ہیں چنانچہ پہلے امریکہ کا ہاتھ پکڑ کر لادین روس سے لڑنے چلے تھے۔ اب امریکہ استعمار ہو گیا ہے اور ہم نے دیوار چین کی پرلی طرف اجنبی دریاﺅں کے گھاٹ کا قصد باندھا ہے۔ گویا وہاں نسیم حجازی کے مجاہدین قطار اندر قطار بیٹھے ہیں اور تقدیس کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ امریکہ، روس اور چین سیکولر ملک ہیں اور سیکولر ہونے میں کوئی برائی نہیں۔ ہم اپنے وطن میں سیکولر بیانیہ کی تمنا کرتے ہیں تو مطلب یہ کہ ہمیں عقل کو بروئے کار لانا چاہئے۔ پاکستان کے سب شہریوں کو ایک جیسا رتبہ اور ایک جیسا تحفظ دینا چاہئے۔ یہ جو اولاد کی نعمت ہم نے بے شمار پیدا کر لی ہے اب اس کا تن ڈھانپنے کے لئے چار گرہ کپڑے کی سبیل کرنی چاہئے۔ اسے پڑھنے کو ایسی کتاب دینی چاہئے جو خط مرموز میں طبع نہ ہوئی ہو۔ یہ بچے بیمار ہوں تو دوا دارو کا کچھ بندوبست ہو۔ یہ بڑے ہوں تو رزق روزگار کے حیلے سے لگیں۔ بچے ہوں تو ہنسی انہیں نصیب ہو۔ جوان ہوں تو خواب ان کی آنکھ میں ہوں۔ بوڑھے ہوں تو شفقت ان کی انگلیوں میں اتر آئے۔ اس پر صاحبان عالی وقار ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ سیکولر فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں۔ عزیز بھائیو، غربت محرومی اور جہالت سے بڑی فحاشی کیا ہوگی؟

آج کا شکوہ یہ ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کا تاریخ ساز فیصلہ سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ ملک میں مٹھی بھر شہریوں کو چھوڑ کر کوئی ایسا نہیں جو پارلیمانی جمہوریت کے خد و خال چار سیدھے جملوں میں واضح کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اور اس پر ہماری حتمیت اور قطعیت کا عالم یہ ہے کہ بات بے بات تلوار کھینچ لیتے ہیں، قرولی بھونکنے کو لپکتے ہیں اورکشتوں کے پشتے لگا دینے کو سچ کا بول بالا کرنا جانتے ہیں۔ انتظار حسین نے بستی میں لکھا کہ روپ نگر اپنے تین بندروں کی قربانی دے کر بجلی کے عہد میں داخل ہو گیا تھا۔ ہم نے ملک میں بہت سی نئی سڑکیں بنا دی ہیں اور ان پرچمکتی گاڑیوں اور چنگھاڑتے موٹر سائیکلوں کے ساتھ نامعلوم کہاں پہنچنے کی عجلت میں اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ سوچنا چاہئے کہ ساٹھ ہزار جانیں پندرہ برس میں ہم نے اپنے پیاروں کی دیں۔ اب کتاب، کارخانے اور سڑک کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اور کتنی قربانی دینا ہو گی؟ ہم نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں دہشت گردی پیدا کرنے والے بیانیے سے کب نجات ملے گی۔ ہم جمہوریت کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں۔ ہماری جمہوریت اس ملک کے رہنے والوں کی جانب داری کب کرے گی؟

اہل مغرب کو جب کوئی پیچیدہ بحران آ لیتا ہے تو وہ تجویز کرتے ہیں کہ آیئے مبادیات پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ کھوج لگائی جا سکے کہ ہم سے کہاں غلطی ہو رہی ہے اور اس کا مداوا کیا ہوسکتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے ملک کی بساط پر چند نشان لگا دینے چاہئے۔ ملک کو سلامت رکھنا ہے، یہاں رہنے والوں کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے، اس کا مطلب ہے معیشت پر توجہ دینا ہو گی۔ معیشت نعرے بازی کا مزاج نہیں رکھتی۔ بیوپار کسی کا ہاتھ نہیں پہچانتا۔ معیشت اپنے مفاد میں دو ٹوک ہوتی ہے۔ ہمیں بھی معیشت کے ساتھ صاف صاف مکالمہ کرنا چاہئے۔ ہماری صحافت میں جذباتیت بہت ہے، اسے کم کرنا چاہیے۔ ہمارا سیاست دان، غلط یا صحیح، یہی سمجھتا ہے کہ چرب زبانی سے ہمیں احمق بنایا جا سکتا ہے۔ مجمع باز ایک متعین وقت کے بعد بھی لفظوں کا دانہ ڈالتا رہے تو مجمع بکھرنے لگتا ہے۔ سیاست مجمع بازی نہیں۔ سیاست زمین کے بندوبست کو تبدیل کرنے کا کام ہے۔ ہم جغرافیہ تبدیل کرنے کے در پے ہیں۔ کبھی رک کر سوچنا چاہئے کہ جغرافیہ کی خوشی وہاں رہنے والوں کے تحفظ اور ترقی سے جڑی ہے۔ ہمیں اپنے جغرافیے کی حدود اور ان حدود میں رہنے والی انسانوں کے ساتھ با معنی رشتہ درکار ہے۔ ہم لاتعلق ریاست سے غیر جانبدار ریاست کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے جمہوریت غیر جانبدار نہ ہو، اس ملک کے رہنے والوں کی جانب داری کرے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments