شیخ السلام اور خفیہ کردار ساز فیکٹریاں


\"mujahidشیخ السلام طاہر القادری نے مسئلہ ہی حل کردیا ہے اور جو بات میاں نوازشریف کے سب سے بڑے سیاسی دشمن عمران خان نہیں کرسکے شیخ السلام نے پلک جھپکنے سے پہلے اُس کو اپنے فتوی کی مدد سے ثابت کردیا ہے۔ شیخ السلام کا فتویٰ ہے کہ میاں نواز شریف کو بھارت اقتدار میں لے کر آیا۔ ملکی اخبارات نے شیخ السلام کے اس فتوے کو جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ شیخ السلام کے احتجاجی جلوس میں شیخ رشید بھی شامل تھے ،جنہوں نے اعلان کیا کہ اب بھارتی وزیراعظم مودی بھی نواز شریف کو نہیں بچا سکتا۔ سرحد پار ہمدردی کا سیاسی الزام اس سے پہلے سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو پر بھی لگایا جاچکا ہے کہ اُنہوں نے سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو خالصتان تحریک میں شامل سکھوں کی فہرستیں فراہم کی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ الزام بھی شیخ رشید نے لگایا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت شیخ رشید کے ساتھ میاں نواز شریف بھی کھڑے تھے اور بے نظیر بھٹو کو غدار ثابت کررہے تھے۔ آج وہی شیخ رشید طاہر القادری کے ساتھ کھڑے ہیں اور نواز شریف کو غدار ثابت کیا جارہا ہے۔ اس الزام کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی خطرناک اشارہ بھی کیا جارہا ہے کہ جب بھی نواز شریف کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوتی ہے ملک میں دھماکے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر اس اشارے کو مزید سادہ بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم اپنے خلاف احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر ملک کے اندر دھماکوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اختلاف اس قدر گھٹیا انداز اختیار کرچکا ہے کہ اس کا اندازہ خود سیاست دانوں کو بھی نہیں۔

شیخ السلام جن کے پاس کوئی قابل قدر سیاسی طاقت نہیں پاکستان کی سیاست میں حالیہ برسوں میں کرائے کے اداکار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِنہیں احساس تک نہیں کہ وہ کب، کس وقت اور کہاں ’کرائے‘ پر استعمال ہوجاتے ہیں حالاں کہ اِن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ اچھا ’معاوضہ‘ طے کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ایک شہادت پروف کنٹینر میں بیٹھ گئے تھے اور اپنے تمام تر مذہبی علوم اور اس سے حاصل کردہ خطیبانہ طرز کے باوجود سیاسی طور پر کچھ بھی حاصل کرنے میں مکمل ناکام ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے اس معروف کنٹینر سے کئی سیاسی’خوشخبریاں‘ سنائیں، فتوے صادر کیے، پیش گوئیاں فرمائیں، دعوئے کیے اور نہ جانے کیا کچھ کہا لیکن پھر اچانک دھرنے کے ساتھ ہی شیخ السلام بھی غائب ہوگئے۔ اب پھر سنا ہے دھرنوں کا موسم آرہا ہے اور ساتھ ہی شیخ السلام بھی کہیں سے نمودار ہوگئے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اِنہیں لایا گیا ہے تاکہ منتخب حکومت کو گرایا جاسکے۔ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں قومی سطح پر مخصوص قسم کی ’کردارساز‘فیکٹریاں ایک عرصے سے اپنا پیداواری عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِن فیکٹریوں کی بھٹیوں سے جو مال پک کر تیار ہوتا ہے اس کا اولین فرض یہ قرار پایا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا ہر صورت میں راستہ روکے رکھیں اور اگر کہیں کوئی منتخب حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف یورش کردی جائے۔

بنیادی طور پر اس طرح کے کردار ایک ایسی ’خفیہ سوچ‘ کی پیداوار ہیں جس کو پہچاننا کوئی مشکل امر نہیں رہا۔ اِن کرداروں کے اجزائے ترکیبی بہت سادہ ہیں اور اِن کا تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سامنے جو نتائج آتے ہیں اُس کے مطابق خودساختہ حب الوطنی کے معجون مرکب سے ایسے کردار تراشے جاتے ہے جو کبھی کھلے عام آئین توڑنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی راتوں رات شہروں کے درودیوار پر فوج کشی کے نعرے آویزاں کروا دیتے ہیں۔ کبھی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور کبھی اپنے جیسے کئی دوسرے کرداروں کو اکٹھا کرکے منتخب حکومتوں کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے جوڑ توڑ کرتے ہیں۔ لوگ ان کو ووٹ نہیں دیتے لیکن وہ لوگوں کے ووٹوں کو یکسر مسترد کردیتے ہیں اور اپنی رائے کو مکرم گردانتے ہیں کہ جیسا وہ چاہتے ہیں ویسا ہی ملکی انتظام و انصرام ہو اور اگر اُن کی بات نہ مانی جائے تو سب کچھ تلپٹ کردیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے کرداروں کو کبھی سزا نہیں دی جا سکی اور نہ ان کا راستہ روکا جا سکا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے ہی اِنہیں حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے اوربعض اوقات یہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کو بھارت نوازی کے علاوہ ایٹمی معاملات میں بھی قابل بھروسہ نہیں سمجھا جاتا تھا حتی کہ اِنہیں وزیراعظم ہوتے ہوئے ایٹمی پلانٹ کے دورے سے باز رکھا گیا۔ میاں نواز شریف چوں کہ ایٹمی دھماکہ کرچکے ہیں اس لیے انہیں ایٹمی معاملات میں سیکورٹی رسک نہیں سمجھا جاتا لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی اِن کی خواہش کو بھارت نوازی قرار دیا جاتا ہے۔ ضیاالحق اچانک کرکٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کا دورہ کرے تو یہ کامیابی، مشرف پاک بھارت کشیدہ حالات میں بھارتی وزیراعظم واجپائی سے اچانک مصافحہ کرلیں تو بھی کامیابی لیکن اگر کسی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم مودی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرلیں تو اس کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ مودی اچانک پاکستان کا دورہ کرلے اور میاں نواز شریف کی کسی خاندانی تقریب میں شریک ہوجائے تو اِنہیں غدار کا لقب دے دیا جاتا ہے۔

طاہر القادری نے ملک کے وزیراعظم کو بھارت کی وجہ سے بنے وزیراعظم اور ملک میں ہونے والے دھماکوں کا منصوبہ بند قرار دے کر پاکستان کے عوام کی توہین کی ہے اور ملک کے وزیراعظم پر ایک ایسا الزام لگایا ہے جس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ السلام کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے عدالت لیجانا چاہیے تاکہ وہ اس خوفناک الزام کو ثابت کریں یا غلط الزام کی بنا پر جیل جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس ڈوری کو بھی تلاش کیا جانا چاہیے جو بار بار طاہر القادری کو پاکستان کھینچ لاتی ہے تاکہ وہ ایک منتخب حکومت کو نشانہ بنائیں اور ملک میں کنفیوژن پھیلائیں۔ شیخ رشید جیسے موقع پرستوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے جو ایک طرف پارلیمنٹ کے رکن ہیں دوسری طرف اُسی پارلیمنٹ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے کرداروں کا محاسبہ کرنا ہوگا جو ہر وقت ملکی آئین کو توڑنے کے لیے ساز باز کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام پوشیدہ کرداروں کو سامنے لانا ضروری ہے جو ریاست کے ملاز م ہیں لیکن ریاست کے نظام حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ملک کے منتخب وزیراعظم اور منتخب پارلیمنٹ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments