فاروق ستار کی بغاوت یا حکمت عملی


\"edit\"کراچی میں سوموار کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ایک طرف الطاف حسین نے اپنے کئے اور کہے کی معافی مانگی ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار نے پاکستان میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالنے اور لندن کی قیادت سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے بدستور الطاف حسین کو قائد تحریک کے طور پر مخاطب کیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ جو باتیں انہوں نے کل کہی تھیں، انہیں مستقبل میں پاکستان میں ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے دہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا موقف تھا کہ اگر الطاف حسین اس قسم کی اشتعال انگیز باتیں ذہنی دباؤ یا کسی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں تو پہلے اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے اور اس وقت تک پارٹی کے معاملات پاکستان سے چلائے جائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں رجسٹر سیاسی جماعت ہے اور وہ یہاں کے قانون اور آئین کا احترام کرتی ہے۔ اس طرح متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان میں قیادت نے عملی طور پر خودمختاری کا اعلان کرتے ہوئے الطاف حسین کو پارٹی معاملات سے بے دخل کر دیا ہے۔ تاہم فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی کس حد تک ملک میں پارٹی کے کارکنوں کو متحد رکھنے اور اپنے بیان کردہ مقاصد کے مطابق کام کرنے اور الطاف حسین سے قطع تعلق کو قبول کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔

اس دوران الطاف حسین کی طرف سے ایک ٹوئٹر بیان میں کل کی تقریر اور واقعات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے پاکستان دشمن باتیں کہنے، میڈیا پر حملہ کی صورتحال اور جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی ہے۔ اس بیان میں خاص طور سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر سے بھی معافی مانگی گئی ہے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں دیگر لوگوں کے علاوہ ان دونوں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے۔ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوانے کے علاوہ پاکستان کو دنیا کا سرطان قرار دیا تھا۔ پھر اپنے کارکنوں کو میڈیا ہاؤسز پر حملہ کےلئے اکسایا کیونکہ وہ ان کے قائد کی تصویر نشر نہیں کرتے۔ اس تقریر کے بعد ہی کراچی میں اے آر وائی کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ اس ہنگامہ آرائی میں ایک شخص ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے تھے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے میڈیا پر حملہ اور پاکستان دشمن نعروں کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ رات کے دوران پولیس اور رینجرز نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے ہیڈ کوارٹرز نائن زیرو کے علاوہ کراچی اور حیدر آباد میں پارٹی کے سارے دفاتر سیل کر دیئے تھے اور 50 سے زائد کارکنوں اور قائدین کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ سندھ اور وفاق کی حکومتوں نے واضح کیا ہے کہ ملک دشمن نعرے بازی کرنے والوں اور میڈیا پر حملوں میں ملوث کسی شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

الطاف حسین نے اپنے معافی نامہ میں حکومت سے اپیل کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کارروائی بند کی جائے اور اسے سیاسی طور پر تنہا نہ کیا جائے۔ ان کا موقف ہے کہ پارٹی کارکنوں کی تکلیفوں اور صعوبتوں کو دیکھ کر وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئے تھے، اس لئے ان کے منہ سے نازیبا الفاظ نکل گئے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی ایسی بدکلامی نہیں کریں گے۔ حیرت انگیز طور پر ڈاکٹر فاروق ستار نے اگرچہ بالواسطہ طور سے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا لیکن انہوں نے بھی پارٹی کو نشانہ نہ بنانے اور اس کے دفاتر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بھی الطاف حسین کے بیان کو مسترد کیا ور میڈیا پر حملوں کی مذمت بھی کی اور معافی بھی مانگی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ خود ایم کیو ایم ہیں۔ اب پارٹی کے فیصلے پاکستان سے کئے جائیں گے اور یہ صورتحال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک الطاف حسین کو لاحق مسائل کا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا۔ اس طرح انہوں نے الطاف حسین سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے بھی اس امکان کو برقرار رکھا ہے کہ ’’صحت مند‘‘ ہونے کی صورت میں وہ دوبارہ پارٹی کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔ یہ سوال مبصرین کےلئے دلچسپی کا سبب بنا رہے گا کہ ان دونوں لیڈروں کے بیانات میں یہ مماثلت اتفاقیہ ہے، دو مختلف زاویوں سے صورتحال کو دیکھنے کا نتیجہ ہے یا سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پاکستان میں ایم کیو ایم کو فی الوقت ’’آزاد‘‘ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں یا ہفتوں میں ہی سامنے آ سکے گا۔

اگر ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کی قیادت سے بغاوت کی ہے اور نفسیاتی مشکلات کے شکار قائد سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے تو آنے والے وقت میں انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ الطاف حسین کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پارٹی کارکنوں کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں اور انہیں بھی اپنے اس موقف پر قائل کر سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ آج پاکستانی میڈیا ، سیاسی پارٹیوں ، حکومت ، فوج اور عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہوگی کہ اپنے اس اقدام کے بعد کیا وہ کراچی میں پارٹی کارکنوں اور الطاف حسین کے درمیان رابطہ ختم کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ کام حکام کے تعاون سے سرانجام پاتا ہے تو الطاف حسین کے وفادار کارکن فوری طور سے فاروق ستار کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ قرار دے کر مسترد کر دیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنی قائدانہ صلاحیت، ایم کیو ایم کےلئے اپنی قربانیوں اور ملکی سیاست میں اپنی خدمات کی بنیاد پر واقعی کارکنوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ بوجوہ الطاف حسین اب پارٹی کی قیادت کرنے اور کارکنوں کی رہنمائی کے قابل نہیں رہے ہیں۔ اس لئے انہیں اب آرام اور علاج کی ضرورت ہے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

یہ خواب صرف اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، اگر الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار کے اعلان کے بعد خاموشی اختیار کرتے ہیں اور انہیں مسترد کرنے کےلئے کوئی بیان جاری نہیں کرتے۔ اس طرح وفادار کارکن بھی اسے وقت کی مجبوری سمجھ کر نئے لیڈر کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ یہ ڈاکٹر فاروق ستار کا صرف ایم کیو ایم پر ہی بہت بڑا احسان نہیں ہوگا بلکہ وہ پاکستان کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ ایک اہم اور انقلابی نظریات کی عوام دوست پارٹی ہے۔ لیکن تشدد کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی وجہ سے ہمیشہ اس کے مخالفین کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ وہ کراچی اور حیدر آباد میں عوام کی واضح اکثریت میں مقبول رہی ہے لیکن اس کے بانی لیڈر الطاف حسین نے اپنی اشتعال انگیزی اور حیران کن سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے گزشتہ کئی برس سے پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ پارٹی الطاف حسین کے مقابلے میں کوئی لیڈر سامنے نہیں لا سکی۔ اختلاف کرنے والوں کو علیحدگی اختیار کرنا پڑی لیکن پارٹی سے علیحدگی کے بعد ووٹروں نے بھی انہیں مسترد کر دیا۔ یہی الطاف حسین کی قوت اور طاقت کی اصل بنیاد ہے۔

ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ الطاف حسین نے مخالفانہ سیاسی فضا کو بھانپتے ہوئے رات کے دوران خود ہی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ پاکستان میں ڈاکٹر فاروق ستار کو معاملات چلانے کےلئے تیار کیا جائے، ٹیلی فون خطابات کا سلسلہ معطل کر دیا جائے اور وہ درپردہ پارٹی کے معاملات چلاتے رہیں۔ یعنی اصل فیصلے الطاف حسین کریں گے، فاروق ستار اور آج پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ بیٹھے لیڈر مہرے کے طور پر وہی کردار ادا کریں گے جو خاموشی سے انہیں تفویض کیا جائے گا۔ اس طرح کارکن بھی مطمئن رہیں گے اور پارٹی بھی بحران سے نکل کر اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنا سکے گی۔ تاہم یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ الطاف حسین تمام تر تجربہ اور سیاسی مہارت کے باوجود طویل عرصہ تک خاموش رول ادا کرنے پر متفق ہو جائیں گے اور اس دوران ڈاکٹر فاروق ستار کو بے توقیر کرنے کےلئے کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔

یہ دونوں امکانات مسترد کرتے ہوئے اگر تصویر کو ویسے ہی دیکھا جائے جیسی کہ وہ نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی واقعی الطاف حسین کی زیادتیوں سے تنگ آ کر اب انہیں بے دخل کر کے خود پارٹی چلانا چاہتے ہیں تو اس فیصلہ میں ان کی کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ الطاف حسین 25 برس سے ملک سے باہر مقیم ہیں لیکن کارکنوں کے ساتھ رابطہ و تعلق کے ذریعے انہوں نے پارٹی پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھا ہے۔ اسی لئے تمام معتبر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لیڈر بھی الطاف حسین کی بے سروپا باتیں سننے ، ان کے احکامات پر سر ہلانے اور انہیں قائد تحریک اور الطاف بھائی کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کسی بھی لیڈر کےلئے الطاف حسین کی اس قوت کو ختم کرنا آسان نہیں ہو گا۔ جس روز انہوں نے پارٹی کارکنوں سے رابطہ کا کوئی راستہ نکال لیا تو معاملات ان کی مرضی کے مطابق ہی طے ہوں گے۔

یہ بات درست ہے کہ قانونی طور پر پاکستان میں پارٹی فاروق ستار کے نام سے رجسٹر ہے اور وہی اس کے سربراہ ہیں لیکن کارکنوں پر جو اثر و رسوخ الطاف حسین کو حاصل رہا ہے، اگر وہ اسے استعمال کرنے پر اتر آئے تو فاروق ستار صرف ایم کیو ایم کے نام کے ہی قائد ہوں گے۔ ان کے ساتھ نہ کارکن ہوں گے اور نہ ہی ووٹر ان کا ساتھ دیں گے۔ ایسے میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی پسلی سے نکلنے والے ایک نئے گروہ کا ضرور اضافہ ہو جائے گا لیکن کراچی کی سیاسی صورتحال تبدیل نہیں ہو گی۔ یہ صورتحال صرف اسی وقت تبدیل ہو سکتی تھی اگر متحدہ قومی موومنٹ میں الطاف حسین کے علاوہ کوئی خود مختار احتساب اور جوابدہی کا نظام استوار ہوتا۔ اگر پارٹی کی نام نہاد رابطہ کمیٹی واقعی اسم بامسمی ہوتی اور پارٹی کے کارکن اور نچلے کیڈر کے لیڈر اسے جواب دہ ہوتے اور رابطہ کمیٹی، پارٹی لیڈر کو صورت حال سے آگاہ کرتی۔ موجودہ پارٹی انتظام میں تو الطاف حسین ہی چوراہے کی بتی ہیں۔ کارکن اور رابطہ کیٹی اسی کے گرد چکر لگاتی ہے۔

ماضی میں ایم کیو ایم کی سیاسی حیثیت ختم کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ الطاف حسین ملک سے دور ہونے، عمر بڑھنے اور متعدد عوارض کا شکار ہونے کے باوجود نہ تو پارٹی کا اختیار بانٹنے پر راضی ہوئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے متبادل قیادت کو ابھرنے دیا ہے۔ وہ اب ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ ان میں 25 برس پہلے والی توانائی اور صلاحیت بھی نہیں ہوگی لیکن ان میں یہ حیرت انگیز سحر بہرحال موجود ہے کہ جو نسل ان کی غیر موجودگی میں پیدا اور جوان ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے پوری طرح کنٹرول کرنے کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار جیسے لیڈر ان کا منہ تاکتے رہے ہیں۔ جب تک پاکستان میں ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کی اس صلاحیت کا جواب سامنے نہیں لاتے، وہ اپنے طور پر پارٹی چلانے کی قدرت نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments