ایم کیو ایم اور میرے مشاہدات کا قرض


\"mubashir\"کئی واقعات مجھ پر میری زندگی، اور کسی حد تک پاکستان کی سیاسی زندگی کی تاریخ کا قرض ہیں۔ کمی بیشی معاف کہ یہ واقعات اک طویل عرصہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھے، کچھ دیری ہو چلی، مگر جو کہوں گا، سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔

یہ سنہء 2004 کی بات ہے۔ سنہ عیسوی اس لیے یاد ہے کہ میرے پاس ان دنوں نئی نئی لیز-زدہ سوزوکی آلٹو تھی۔ سیلف میڈ آدمیوں کی یاداشت کے حوالہ جات بھی بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ خیر، کسی پیشہ وارانہ حوالے سے ایمبیسیڈر ہوٹل، آبپارہ، اسلام آباد میں میری معراج محمد خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ان دنوں شاید تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل تھے۔ کیا خوب انسان تھے، اتنے خوب کہ ان کی عمومی ناکامی دیکھ کر، اپنے معاشرے کے چلن کا بخوبی اندازہ ہو جاتا تھا کہ جہاں ان جیسوں پر سیاسی، معاشرتی اور معاشی دروازے بند رہتے ہوں، اور بہت سے نابغوں پر ہر قسم کی ترقی گویا فرض ٹھہرتی ہو، راولپنڈی کے اک المشہور شیخ صاحب ہی دیکھ لیجیے۔ معراج محمد خاں سے ملاقات کے دوران، انہوں نے مجھے بتایا کہ سنہء 1983 میں اک طاقتور دفاعی ادارے کے کراچی کے سربراہ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور لسانیت کی بنیاد پر اک سیاسی جماعت بنانے کو کہا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ بنگلہ دیش کے واقعہ کے بعد، اردو بولنے والی اک کمیونیٹی میں مرکز گریز معاملات بڑھ رہے تھے، تو ان کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے، اور رکھنے کے لیے یہ لازم تھا کہ ان کی زبان کی بنیاد پر اک سیاسی جماعت تخلیق دی جائے۔ آس پاس کی چند باتوں کے بعد، معراج صاحب نے کیا کہا، ان کی زبانی سنئیے:

\”مبشر میاں، میں نے انہیں بہت واضح بتایا کہ تفریق کی بنیاد پر سیاست معاشرے میں تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں لاتی۔ سیاسی جماعت اور سیاسی کارکنان، چند دنوں، مہینوں اور برسوں کی بات نہیں ہوتے، یہ دہائیوں کی بات ہوتے ہیں۔ آپ اگر اک نظریہ پر اک گروہ کی Human Conditioning کر دیں تو یہ اثر کم از کم دو سے تین نسلوں تک چلتا ہے۔ یعنی، چالیس سے ساٹھ برس تک۔ آپ اگر ا س سال یعنی 1983 میں کراچی میں رہنے والوں کی لسانیت کی بنیاد پر یہ Human Conditioning کریں گے تو جناب، یہ اثرات پھر بہت لمبے چلیں گے۔ یہ بھی کہ کراچی میں تمام پاکستان سے آئے لوگ آباد ہیں، اور ایک ہی محلے میں آپ کو پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ اکٹھے رہتے ہوئے مل جاتے ہیں۔ اک زبان بولنے والوں کو اگر سرکاری سرپرستی میں دوسری زبان بولنے والوں پر فوقیت دی جائے گی تو، اک عرصہ کے بعد دو کام ہوں گے: اکثریتی کمیونٹی متشدد ہو جائے گی اور اقلیتی کمیونٹی، اپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے ردعمل دے گی، اور پھر ناکامی کی صورت میں جگہ چھوڑ کر اپنے \”نئے علاقے\” تشکیل دینا شروع کر دیں گے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اور بربادی اس شہر اور میرے لوگوں کا مقدر بنے گی۔ لہذا میں نے معذرت کر لی۔\”

مگر بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ اس سے اگلے چند مہینوں میں مرد مؤمن مرد حق محترم قبلہ سرمے والی سرکار فاتح افغانستان، ہند سندھ اور دنیائے کُل شہید غازی جناب پاکبازِ بے پایاں حضرتِ حضرتان، والئی پاکستان آقائے آقاں، سیدی ضیاءالحق نے کراچی کی مٹی پر اپنے مقدس پاؤں رکھے۔ اور یہی ڈول اب ان کی موجودگی میں معراج صاحب کے ساتھ پھر ڈالا گیا۔ اس مرتبہ معراج صاحب کو آفر کے ساتھ مرکز میں بھی کچھ کردار سونپنے کی دعوت دی گئی۔

اک بار پھر، معراج صاحب کی زبان میں سنئیے:

\”تو جناب، میں نے بنیادی طور پر جناب صدر صاحب سے بھی وہی کہا، جو میں نے ان سے پہلے ان کے دوسرے محترم ساتھی کو کہا تھا۔ اضافہ یہ کیا کہ سیاست اپنی اکائی میں سب کو ساتھ لے کر ان مسائل پر ساتھ چلتی ہے جو کہ تمام گروہوں میں مشترکہ ہوتے ہیں۔ آپ تفریقی سیاست اگر کرتے ہیں تو یہ سیاست نہیں، سازش ہو تی ہے، اور سازش، اک وقت آتا ہے کہ نہ صرف سازش کرنے والے کو کھاتی ہے، بلکہ یہ ایک وبائی بیماری کی طرح ہر کسی کو کھاتی ہے، کھائے چلی جاتی ہے۔ آپ اردو بولنے والوں کی اک جماعت بنانا چاہتے ہیں، کل کو کراچی میں پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی بولنے والے اپنی جماعتیں اور گروہ تشکیل دیں گے۔ پھر ان گروہوں میں موجود مرکزی لوگوں کے آپسی جھگڑے ہوں گے، اور یہ مل کر اک دوسرے کے ساتھ، اور اک دوسرے کے خلاف لڑیں گے۔ بہت خون بہے گا صاحب، بہت۔ اس طرف خدارا نہ آئیے۔ مگر جناب صدر پر تین بھوت سوار تھے۔ اک بھوت پیپلز پارٹی کے چند ایک بےکار نوجوانوں کی تنظیم، الذولفقار کا تھا۔ دوسرا، اپنے سیاسی جواز، اور تیسرا پیپلز پارٹی کو سندھ میں کمزور کرنے کا۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان جیسے کثیرالقومی ملک میں اک صوبے کے اکثریتی نوجوانوں کی ردعمل میں بنائی جانے والی تحریک، دوسرے مراکز میں اپنی جڑیں نہ بنائے پائے گی، لہذا، الذوالفقار کی پریشانی غلط ہے۔ سیاسی حلت (جواز) پر میں نے انہیں کہا کہ جناب، آپ نے اک سیاسی فیصلہ کیا ہے اقتدار پر قابض ہونے کا، تو یہ سیاست کے مزاج میں ہے کہ لوگ آپ کے حق میں ہوتے ہیں، خلاف بھی ہوتے ہیں۔ مخالفت برداشت کرنے کی عادت ڈالئیے۔ آپ کی مخالفت آپ کی حلت (جواز) پر بار نہیں، کیونکہ آپ قانون کی خلاف ورزی کر کے ہی آئے ہیں، تو لہذا، سیاسی حلالیئت کی بات ہی غلط ہے۔ اور پیپلز پارٹی کو کمزور مت کیجیے کہ جوبھی ہو، یہ وفاق کی سیاست کرے گی کیونکہ اس کے ماخذ اور مزاج میں نسل پرستی ہے ہی نہیں۔\”

سرمے والی سرکار نہ مانے۔ باقی تاریخ ہے۔

باقی قرض پھر کسی وقت۔ ان میں سے اک قرض یہ ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ کے دو رہنماؤں سے 2005 میں، پھر ایمبیسیڈر ہوٹل میں ہی ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں نام نہاد بڑی تحریک کے خوف سے کراچی سے فرار تھے، کہ بڑی تحریک ان دنوں جناب سید پرویز مشرف، عرف کمر درد والی سرکار، کی چھاتیوں سے چمٹی دودھ کشید کر رہی تھی۔ ان دونوں رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا۔ اک کو راولپنڈی کے خیابانِ سرسید کے علاقہ میں، جبکہ دوسرے کو اسلام آباد سے کراچی واپس جاتے ہوئے ائیر پورٹ کے بالکل باہر۔

جی ہاں، بقول کراچی کے معصوم بھائی کے کہ ان کی جماعت نے کبھی تشدد کی سیاست نہیں کی۔ بس کراچی کے لوگوں کو ہی گویا خود سے ہی گولیاں کھا کھا کر مرنے کا شوق تھا۔ اور یہ مؤا شوق ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ سو لوگو، مرتے رہو کہ تمھاری Human Conditioning  ہو چکی، جو شاید ابھی اک نسل اور چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments