آمریت سے جمہورت تک


\"Usmanفوجی آمریتوں اور جمہوری حکومتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آمریت سے جمہوریت تک پہنچنے کے پانچ مراحل سامنے آتے ہیں جنہیں پانچ اصطلاحات یا مراحل کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ترتیب وار جائزہ لیں تو بد ترین سے بہترین کی طرف کچھ یوں ترتیب بنتی ہے یعنی \’\’فوجی آمریت،سیاسی آمریت، سیاسی جمہوریت، پارلیمانی جمہوریت اور عوامی جمہوریت۔ \’

اب ان کو ذرا تفصیلی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ ہم پاکستانی اپنی انہتر سالہ محنت کے بعد ان میں سے کس اصطلاح یا کس مرحلے تک پہنچ پائے ہیں؟

  1. فوجی آمریت: ہم پاکستانیوں کے لئے سب سے معروف اصطلاح فوجی آمریت کی ہے جس میں فوج مکمل طور پر نظامِ حکومت پر قابض ہوتی ہے اور فوج کی مرضی کے بغیر کوئی بھی حکومتی امر سر انجام نہیں پا سکتا۔ پاکستانی قوم کو یہ مرحلہ کم و بیش چار مرتبہ درپیش آ چکا ہے اور اس قوم سے بہتر اس کی اذیت ناکیوں کو شاید ہی کوئی اور سمجھ سکے۔
  2. سیاسی آمریت: اس سے مراد یہ ہے کہ آمرانہ رویے فوجی چھاؤنیوں سے سیاسی ایوانوں کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ فوجی آمر کی طرح حزبِ اقتدار میں موجود طاقتور سیاسی شخصیات اپنی من مانی پر اتر آتی ہیں اور جمہوریت کے نام پر وہی کچھ کرتی ہیں جو فوجی آمر کرتا ہے۔ وہ خود کو عقلِ کل اور اپنی بات کو حرفِ آخر منوانے پر بضد رہتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مقدم رکھ کر عوامی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اس وقت ہماری سیاسی حکومتیں کر رہی ہیں۔ سیاسی آمریت فوجی آمریت سے تو بہتر ہے لیکن پھر بھی ایک ناقابلِ برداشت نظام ہے۔

3۔ سیاسی جمہوریت یا جماعتی جمہوریت: اس اصطلاح کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری روایات کو فروغ دیتی ہیں اور اپنے ارکان کو اہمیت بھی۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی مسائل کو ہٹ دھرمی کی بجائے جمہوری طریقے سے نمٹاتی ہیں اور اپنے منشور اور کارکردگی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہوئے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ سیاسی جمہوریت سیاسی آمریت کی نسبت ایک بہتر صورت حال ہے لیکن یہ بھی حقیقی جمہوریت کا روپ نہیں۔

4۔ پارلیمانی جمہوریت: اس سے سیاسی پارٹیاں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں جمہوری روایات کی پاسداری کرتی ہیں بلکہ پارلیمان میں موجود حریف پارٹیوں کے ساتھ بھی جمہوری انداز میں معاملات چلاتی ہیں۔ حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف دونوں اپنے مؤقف میں جمہوری روایات کو مقدم رکھتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت جب رائج ہو جائے تو پارلیمنٹ کی بالادستی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے، وزیرِ اعظم ہو یا وزیر و مشیر وغیرہ سب پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے ہیں اور خود کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔

5۔ آخری اصطلاح \’\’عوامی جمہوریت\’\’ کی ہے جس سے ہم پاکستانی انتخابی نعروں کی حد تک تو واقف ہیں لیکن حقیقت میں ہمیں کبھی اس کا حسن نصیب نہیں ہوا۔ اس اصطلاح کے مطابق اقتدار عوام کے فیصلوں کا مرہونِ منت اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہونے کے ساتھ بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں عوام شفاف الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے اور ریاستی حکومت عوامی خواہش کا احترام کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ عوام میں سے کوئی بھی قابل شخص بلا تفریقِ معاش و رتبہ اپنی کارکردگی اور بہتر منشور کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ الیکشن لڑ سکتا ہے بلکہ با آسانی جیت بھی سکتا ہے۔ اور اس طرح منتخب ہونے والا عوامی نمائندہ ریاستی حکام میں فیصلہ ساز حیثیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔

لیکن اگر آج ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو ہم اپنی انہتر سالہ تاریخ میں ابھی دوسرے مرحلے یعنی سیاسی آمریت تک ہی پہنچ پائے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابھی تو پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوری روایات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ موروثی سیاست آج بھی عروج پر ہے، یعنی ابھی ہم سیاسی یا جماعتی جمہوریت سے بھی کوسوں دور ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی طرف دیکھیں تو حالت یہ ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم اور وزرا صاحبان پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا تو دور کی بات ایوان میں آنا بھی گوارا نہیں کرتے، یقین نہ آئے تو قومی اسمبلی یا سینٹ کا حاضری ریکارڈ ہی چیک کر لیں۔ پسماندہ علاقوں سے منتخب ارکان کو اول تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو اس وقت ایوان کا کورم پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہاں جب حکومت دباؤ کا شکار ہو یا کسی مشکل میں پھنس جائے تو پھر جمہوریت کے تحفظ کے نام پر بھاگم بھاگ پارلیمنٹ کی طرف آتی ہے، اس وقت وزیرِ اعظم بھی پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں اور وزرا کو بھی اسمبلی آنے کی فرصت مل جاتی ہے۔ وفاقی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کی بھی یہی حالت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments