کوئٹہ میں خوف کا سناٹا


\"abdul-hai-kakar\"عدالتی دربان نے آواز لگائی، فلاں بنام فلاں حاضر ہو۔
اندر بیٹھے جج نے جب کازلسٹ پر نظر دوڑائی تو آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے کیونکہ آج جس وکیل نے پیش ہونا تھا وہ چند روز قبل سول ہسپتال کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
انصاف کی کرسی پر بیھٹے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جمال خان مندوخیل کا یوں رونا دراصل عدالت کا رونا ہے۔
جج کا ہر فیصلہ، لفظ اور جملہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے اور اب چند آنسو بھی سہی، ویسے بھی بلوچستان تو خون ، آنسو اور محرومیوں کے سوا کوئی اور لوری سنا ہی نہیں سکتا۔
عطا شاد نے شاعرانہ الہام کے زیر اثر بلوچستان کی تعریف ایک شعر میں یوں کی تھی،

کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات ہوجائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے

وہ زندہ ہوتے تو شاید ایسا نہ کہتے۔
آٹھ اگست کے حملے کے بعد دوستوں سے ہر روز بات ہوتی ہےاور دلگُداز کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
کرچی میں زیرعلاج ایک وکیل صاحب رات کو اچانک ایک چیخ کے ساتھ جاگ اٹھتے ہیں۔ کہتے ہیں خواب میں فلاں فلاں دوست کو مرتے دیکھ رہا ہوں۔
ایک اور وکیل جو کسی زمانے میں منشی ہوا کرتے تھے، بعد میں خوب محنت کی اور قانون کی ڈگری حاصل کرلی۔ اب کمانا شروع کیا تھا، چھوٹی سی ایک پرانی الٹو خرید بھی لی تھی۔ دو بچیوں کے سر پر سایہ تھے۔ دھماکے میں ہلاک ہو گئے اور ان کی گاڑی آج بھی عدالت کے احاطے میں کھڑی ہے۔ گھر میں کوئی نہیں کہ ان کی گاڑی ساتھ لے جائیں۔

\"quetta-blast\"ہائی کورٹ کے جج کامران ملا خیل آٹھ اگست کو عدنان کاسی کی ہلاکت کی خبر سن کر ہسپتال جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ بھائی کا فون آیا کہ ہسپتال کی طرف نہ جانا کیونکہ وہاں دھماکہ ہوا ہے۔
دوستوں کی ہلاکت پر اتنے دلگیر ہیں کہ اس دن کے بعد عدالت کا رخ ہی نہیں کیا ہے۔
ایک اور جج ہیں ہاشم کاکڑ، ان کو ایک مقدمہ سننا تھا لیکن جب پتہ چلا کہ مقدمے کا وکیل باز محمد ایڈوکیٹ ہیں تو کچھ کہے بغیر کرسی سے اٹھے اور چیمبر سے باہر چلے گئے۔
کراچی میں علاج سے واپسی کے بعد بعض وکلا صاحبان منگل کو پہلی دفعہ بار روم گئے اور بقول دوست کے اُف۔اُف پوچھو مت،
ایک دوسرے کو چھوما جارہا ہے اور آنسو بھی رواں ہیں۔ ایک ایک سے بغل گیر ہو کر پوچھا جاتا ہے، تم بھی زندہ بچ گئے ہو، اوہ تم بھی، اوہ تم بھی اور تم بھی۔۔۔۔
کوئٹہ کی عدالتیں اور بار رومز سنسان پڑی ہیں۔
بقول دوست کے جنگ کے بعد نقل مکانی کا سا سماں ہے۔
بہت سناٹا ہے بھائی۔۔۔۔
موت کا سناٹا خوف کا سناٹا۔۔۔۔

( یہ تحریر پہلے مشال ریڈیو کی ویب سائٹ پر پشتو زبان میں شائع ہوئی تھی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments