سیکولر اصولوں کی کھلی خلاف ورزی


\"edit\"فرانس میں نیس کے علاقے میں پولیس نے ساحل سمندر پر آرام کرنے والی ایک خاتون کو اپنے سامنے بے لباس ہونے پر مجبور کیا۔ خبر رساں ایجنسیوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے جو تصاویر سامنے آئی ہیں ان میں چار مسلح پولیس والے ایک خاتون کو جو ساحل پر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ بیدار کر کے اپنا لباس اتارنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس خاتون کو 38 یورو جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ پولیس کی یہ کارروائی اس علاقے میں مختلف کونسلوں کی جانب سے اس فیصلہ کے بعد دیکھنے میں آئی ہے جس میں ساحل سمندر پر برقینی پہننے کی ممانعت کی گئی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں 38 یورو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ جرمانہ عائد کرتے ہوئے جو وضاحت فراہم کی جاتی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ خاتون نے اخلاق باختہ اور سیکولرازم کے برعکس لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ فرانس کے 15 ساحلی علاقوں کی کونسلز اس قسم کا قانون منظور کر چکی ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مسلمان گروہ عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔ ملک میں اس حوالے سے شدید بحث کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ کوئی کونسل کس حد تک یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے کہ لوگ کیسا لباس زیب تن کریں۔

اس بحث سے قطع نظر برقینی پہننے پر جو پابندی عائد کی جا رہی ہے، اس میں پولیس کو کنٹرول کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن کسی قاعدہ یا قانون کے تحت پولیس کے کسی اہلکار کو کسی خاتون سے لباس اتروانے کا حق نہیں دیا گیا۔ نیس میں چار پولیس والوں نے اعلیٰ فرانسیسی اقدار اور سیکولرازم کی بنیاد پر جو اقدام کیا ہے، وہ درحقیقت سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔ سیکولرازم بقائے باہمی ، قبولیت اور احترام کا درس دیتا ہے۔ یہ اصول دوسروں کی توہین کرنے ، انہیں مسترد کرنے یا بے لباس کرنے کا پیغام نہیں دیتا۔ فرانس میں نیس پولیس نے جو حرکت کی ہے، اس پر فرانس کے سب باشندوں کو شرمندگی اور افسوس کا اظہار کرنا چاہئے۔ یہ رویہ معاشرے میں یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے کی بجائے، یہ ظاہر کر رہا ہے کہ فرانس کے سیاستدان اور ان کے اشارے پر کارروائی کرنے والی پولیس خود ان اقدار اور اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے، جن کے تحفظ کےلئے فرانس دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ کسی شخص نے کس حد تک قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔۔۔۔ یہ ایک عالمگیر اصول ہے کہ پولیس کا کام کسی ملزم کی نشاندہی کرنا، اسے پکڑنا اور جرم کرنے سے روکنا ہے۔ لیکن پولیس خود جج بن کر کوئی فیصلہ صادر کرنے اور اس پر عمل کروانے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اگر نیس میں پولیس نے یہ محسوس کیا تھا کہ مذکورہ خاتون قواعد کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے اور اسے وہاں اس لباس میں نہیں ہونا چاہئے تھا تو وہ اس سے وہاں سے جانے کے لئے کہہ سکتی تھی اور انکار کی صورت میں گرفتار کرنے کا حق ضرور رکھتی تھی۔ اسی طرح قواعد کے مطابق جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن کسی خاتون کو لباس اتارنے کا حکم دینا ہر مسلمہ انسانی و اخلاقی اصول کے خلاف حرکت ہے۔

یوں بھی تصاویر میں جو خاتون نظر آ رہی ہے، اس میں وہ برقینی BURKINI میں ملبوس نہیں ہے۔ اور اگر اس علاقے کی مختلف کونسلز کے حکم کی روشنی میں دیکھا جائے تو پولیس ساحل سمندر پر صرف برقینی میں ملبوس خواتین پر جرمانہ عائد کر سکتی ہے۔ یہ خاتون مغرب میں پہنا جانے والا عام لباس یعنی قمیض اور پتلون پہنے ہوئے تھی۔ اس نے سر پر جو ٹوپی لی ہوئی تھی، وہ بھی کوئی حجاب نما چیز نہیں تھی بلکہ ویسی ہی ٹوپی ہے جو فرانسیسی عورتیں عام طور سے روزمرہ کے لباس کے ساتھ استعمال کرتی ہیں۔ اس کے باوجود پولیس نے یہ انسانیت سوز حرکت کرنا ضروری سمجھا۔ ایک خاتون گواہ نے اخباری نمائندوں کو اس واقعہ کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ اس موقع پر ساحل پر موجود لوگوں نے تالیاں بجا کر پولیس کی اس شرمناک حرکت کا خیر مقدم کیا اور خاتون کو مخاطب ہو کر ’’گو ہوم‘‘ GO HOME کے نعرے لگائے۔ پولیس کو ان غیر متعلقہ لوگوں کی اس اشتعال انگیزی اور نسل پرستانہ نعرے بازی پر ہرگز کوئی تشویش نہیں ہوئی۔ نہ ہی پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو نعرے بازی کرنے اور اس خاتون کو عاجز کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی۔ گواہ خاتون کے مطابق پولیس کی حرکت اور لوگوں کی نعرے بازی کی وجہ سے اس خاتون کی کمسن بچی بری طرح رونے لگی۔ لیکن کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی۔

انسانی حقوق کے علمبردار ایک ملک میں ایک خاتون کے ساتھ ہونے والی یہ حرکت قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ فرانس اور دیگر مغربی ممالک کو یہ باور کرنا ہو گا کہ اس قسم کے امتیازی ، متشدد اور جارحانہ طرز عمل سے وہ انتہا پسندی اور نفرت میں کمی کرنے کی بجائے، دولت اسلامیہ جیسے گروہوں کےلئے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ داعش نے ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت یورپی ملکوں میں نوجوان مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھنسانے کےلئے انٹرنیٹ اور مواصلت کے دیگر ذرائع سے کام لینے کا آغاز کیا ہوا ہے۔ عام طور سے سماجی تنہائی اور معاشرتی تعصب کا نشانہ بننے والے نوجوان اس زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہوتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران جن نوجوانوں نے بھی یورپ و امریکہ میں مختلف دہشتگرد حملوں میں حصہ لیا ہے، وہ مذہبی رجحانات کے حامل نہیں تھے لیکن معاشرے کے رویوں سے ضرور بیزار تھے۔ داعش کے ہرکارے، نوجوانوں میں اس بے چینی اور نفرت کو اپنے مقصد کےلئے کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ اور انہیں اپنا آلہ کار بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں دولت اسلامیہ یا دیگر دہشتگرد گروہوں کی پالیسی واضح ہے۔ وہ مغربی معاشروں میں آباد مسلمان نوجوانوں کی محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مقصد کےلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

داعش اور اس کے ہم خیال گروہوں کا راستہ روکنے کےلئے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاتے ہوئے شام اور عراق میں بے دریغ بمباری کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس مقصد سے ان معاشروں میں مفاہمت، قبولیت اور آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ فرانس سمیت تمام مغربی ممالک کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ خوشحال گھرانوں کے باروزگار نوجوان اچانک اس ملک اور معاشرہ کے خلاف کیوں برسر جنگ ہو جاتے ہیں جو درحقیقت ان کا وطن ہے۔ یہ نوجوان ان ہی ملکوں میں پیدا ہوئے، یہاں کی زبان بولتے ہیں، اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور مقامی معاشرتی اقدار پر ہی عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ اچانک وہ داعش کے ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ گمراہ ہو کر تشدد پر اترے ہوئے نوجوانوں کا سراغ لگانے کے ساتھ مغربی حکومتوں کو ان عوامل کا جائزہ لینے اور انہیں دور کرنے کی بھی ضرورت ہے جو اقلیتی نوجوانوں کی بے چینی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر صرف تادیبی اقدامات کئے جائیں گے، ظالمانہ قوانین منظور ہوں گے اور پولیس نسل پرستانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قوانین کی آڑ میں اقلیتی عقائد کے حامل لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے گی تو معاشرتی بے چینی اور افتراق میں اضافہ ہو گا۔ یقین کیجئے داعش جیسے دہشت گرد گروہ بھی مغربی معاشروں میں یہی صورتحال پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اگر ان ملکوں کے سیاستدان بھی اسی راستے پر گامزن ہوں گے اور فرانسیسی ثقافت کے تحفظ کے نام پر پولیس کو بے لگام کرنے کا سبب بنیں گے تو یہ رویہ داعش کے طرزعمل جتنا ہی تباہ کن اور نقصان دہ ہو گا۔

برقینی خواتین کا ایسا سوئمنگ سوٹ ہے جو پورے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اسے پہننے والی خاتون کا صرف چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لباس کو آسٹریلیا کی ایک خاتون آہیدا زاتینی نے چند برس قبل ڈیزائن کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں بہت کم مسلمان خواتین سمندر میں پیراکی کےلئے آتی ہیں۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کےلئے یہ لباس تیار کیا ہے تاکہ وہ بھی پیراکی اور ساحل سمندر پر تفریح کے مشاغل میں شامل ہو سکیں۔ فرانس میں 2009 میں سب سے پہلے برقینی میں ملبوس ایک لڑکی کو ایک سوئمنگ پول میں نہانے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت حکام نے ایک قانون کا حوالہ دیا تھا جس کے تحت عام لباس میں سوئمنگ پول کو استعمال کرنا منع ہے۔ لیکن اس دوران برقینی دنیا بھر کی مسلمان خواتین میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے باوجود ساحل سمندر پر پیراکی کے لئے آنے والی مسلمان خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ 14 جولائی کو نیس کے علاقے پرومینا ڈی انگلیاس Promenade des Anglais میں ایک دہشتگرد نے ہجوم پر ٹرک چڑھا کر 85افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس سانحہ کے دو ہفتے بعد اسی علاقے کے نزدیک ایک ساحل پر بعض مسلمان خاندانوں اور دوسرے لوگوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس اس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ یہ لڑائی کسی خاتون کے برقینی پہننے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

اس کے باوجود ولے نیو لوبے Villeneuve-Loubet کی کونسل نے جہاں یہ ساحل واقع ہے، برقینی پہن کر ساحل سمندر پر آنے اور پیراکی کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد سے اس علاقے کی 15 کونسلز پیراکی کے اس لباس پر پابندی عائد کر چکی ہیں۔ ایک مقامی عدالت اس پابندی کو جائز قرار دے چکی ہے تاہم اس کے خلاف ریجنل کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہے۔ پابندی لگانے والی کونسلز کا موقف ہے کہ ایسا لباس زیب تن کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ایک خاص عقیدہ سے تعلق کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرح مقامی لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ برقینی جیسا لباس دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس لباس میں ملبوس فرد ان لوگوں جیسا ہے جو فرانس پر حملوں میں ملوث ہیں اور فرانس کے ساتھ برسر جنگ ہیں۔ یکے بعد دیگرے پندرہ علاقوں کی سیاسی انتظامیہ نے اسی قسم کا موقف اختیار کرتے ہوئے برقینی پر پابندی عائد کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس فیصلہ کو شخصی آزادی اور لباس کا فیصلہ کرنے کے حق پر حملہ قرار دیتی ہیں۔

اس دوران نیس میں اس مقامی قانون کا سہارا لے کر پولیس نے جو حرکت کی ہے، کوئی ذی شعور اسے درست قرار نہیں دے سکتا۔ فرانس کے سیاستدانوں اور دانشوروں کو یہ تعین کرنا ہو گا کہ وہ اپنی ثقافت کے تحفظ اور قانون کی عملداری کےلئے کوشش کر رہے ہیں یا مختلف دکھائی دینے والے اور مختلف عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف باقاعدہ مہم جوئی کی جا رہی ہے۔ جمہوریت کی بنیاد پر قائم اور سیکولر لبرل روایات پر استوار کوئی معاشرہ پولیس کو اس قسم کی قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر تعصب اور امتیازی رویوں کی بنیاد پر قانون سازی کا طریقہ شروع کیا جائے گا تو وہ معاشرے کی ان ہی سیکولر روایات پر حملہ ہوں گے، جن کے تحفظ کے نام پر یہ ناجائز قانون سازی کی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments