کشمیر کی شاکنگ صورتحال


اگر میں یہ کہوں کہ قیام پاکستان کے فوراَ بعد پیدا ہونے والی نسل کے لاشعور میں مسئلہ کشمیر بسا ہوا ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ خاص طور پر \"mahnaz2\"پڑھے لکھے والدین کی اولاد اس قسم کی سیاسی بحثیں سنتی ہوئی بڑی ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں ہماری سفارتی کاوشوں سے جلد حل ہو جائے گا ۔۲۱ اپریل ۱۹۴۸ء کو منظور ہونے والی سلامتی کونسل کی قراردادنمبر 47 کا بہت ذکر ہوتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کی خواہش ہے کہ ہندوستان یا پاکستان سے جموں اور کشمیر کے الحاق کا مسئلہ آزادانہ اور غیر جانبدار استصواب رائے کے جمہوری طریقے سے حل کیا جائے ۔ہندوستان اور پاکستان دونوں کے دلائل سننے کے بعد کونسل نے اس حوالے سے قائم کئے جانے والے کمیشن کے ارکان سے کہا تھا کہ وہ برصغیر جا کے اس خطے میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش کریں اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کا اہتمام کریں۔میری نسل نے اپنے والدین کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں ہمیشہ پر امید پایا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی امیدیں دم توڑتی چلی گئیں۔

آج کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے ،وہ نوم چومسکی کے بقول ’شاکنگ‘ اور کشمیر اور بقیہ ہندوستان کے درمیان ہونے والی گفتگو ’ ہسٹیریائی ہے۔ماضی میں جب وہ ہندوستان گئے تھے اور کشمیر کے مسئلے پر بات کی تھی تو اتنا ادھم مچا تھا کہ ان کے میزبان نے اصرار کیا کہ پولیس انہیں حفاظت فراہم کرے۔جولائی 2015ء میں چومسکی نے کہا تھا کہ ہندوستانی فوج کو کشمیر سے نکل جانا چاہئیے۔ان کا کہنا تھا کہ 80 کے جعلی انتخابات کے بعدکشمیر میں بہت مظالم ڈھائے گئے تھے۔انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے لئے وفاقی انتظامکا بندوبست کریں اور اسے ایک نیم خود مختار خطہ بنا دیں۔اور ایک دوسرے کے ساتھ ڈھیلا ڈھالا وفاقی تعلق رکھیں۔

اسی طرح ارون دھتی رائے کا بھی کہنا ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا مگر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعدجلد ہی بھارت نے ایک نوآبادیاتی طاقت کا روپ دھار لیا۔ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ 1930ء کے عشرے سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ کشمیری عوام کی نمائندگی کا حق کس کو حاصل ہے،راجا ہری چند کو یا شیخ عبدالہہٰ کو یا کسی اور کو۔یہ بحث آج بھی چلی آ رہی ہے کہ آیا یہ حق ’حریت ‘ کو حاصل ہے یا کسی اور پارٹی کو؟ لیکن کشمیری عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خود اپنی نمائندگی کر سکتے ہیں۔اس بیان پر کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا،وزارت داخلہ نے پولیس کو ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے لئے کہا مگر ارون دھتی رائے نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا تھا۔

راولپنڈی پریس کلب میں 2002ء میں مسئلہ کشمیر اور سوشلزم کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ایلن ووڈز، ایڈیٹر سوشلسٹ اپیل نے کشمیر کے مسئلے کی ذمہ داری برطانوی سامراج کی ’ لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر ڈالی۔گو کشمیری عوام کی اکژیت مسلمان تھی اور ہے مگر انگریزوں نے مہاراجہ کشمیر سے ساز باز کر کے اس وادی کو ہندوستان کے حوالے کر دیا جو آج تک زور زبردستی سے اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ نصف صدی سے زائد کے عرصے میں تین جنگوں اور مسلسل دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔ان کی رائے میں کشمیر کا مسئلہ صرف انقلابی طریقوں سے ہی حل ہو سکتا ہے۔کشمیر کے مزدوروں اور غریب کسانوں کو منظم ہو کر اپنی سماجی اور قومی آزادی کی لڑائی لڑنا ہو گی‘۔

جس طرح مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد، مذہبی بنیاد پرستی ، قوم پرستی اور اسی طرح کے دیگر تصورات عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتے ،اس طرح ’جمہوریت اور ترقی‘ کے حوالے سے بیان بازی بھی عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔

برہان وانی کی موت کے بعد سے کشمیر کی وادی میں بہت کشیدگی پائی جاتی ہے۔بہت سے لوگ جان سے گئے ہیں اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) کے پولٹ بیورو نے کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مظاہرین پر پولیس کے وحشیانہ تشدد کی مذمت کی ہے۔نہتے شہریوں کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت اور جابرانہ ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ موجودہ بے چینی کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کی روک تھام ضروری ہے مگر اسے پتھر پھینکنے والے مظاہرین پر وحشیانہ ظلم و ستم کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ساری سیاسی قوتوں کے ساتھ مکالمے کے سیاسی عمل کو شروع کرنا ضروری ہے۔جنگ اور دہشت گردی مسئلہ کا حل نہیں ہے،کشمیریوں کے ساتھ مکالمے کے سیاسی عمل کو شروع کرنا ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments