میں نے ایم کیو ایم چھوڑ دی ہے


\"mustafaالسلام علیکم رحمتہ الله وبرکاتہ۔ میں پاکستان میں موجود اپنے تمام قارئین اور پاکستان سے باہر بھارت چین، افغانستان، اشرف غنی، رجنی کانت اور وہاں سے بھی آگے آسٹریلیا، شین وارن اور وہاں سے بھی آگے جنوبی افریقہ، برازیل، ریو اولمپک، یوسن بولٹ اور وہاں سے بھی آگے سعودیہ، متحدہ عرب امارت، سلطان قابوس، راشد المکتوم اور وہاں سے بھی آگے منگولیا، برما، آنگ سان سوچی، چنگیز خان اور وہاں سے بھی آگے امریکہ، برطانیہ، ملکہ برطانیہ، لارڈ نذیر اور وہاں سے بھی آگے مریخ، چاند اور اس کے چرخے پر بیٹھی نانی اماں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ایم کیو ایم چھوڑ چکا ہوں۔ اب میرا نہ اس جماعت سے کوئی تعلق ہے نہ تبلیغی جماعت سے۔ میں اپنی روح دل دماغ اور زبان کو ہر قسم کی سیاست سے آزاد کرتا ہوں۔

آپ کے دل میں یہ سوال ضرور اٹھے گا۔ جب سوال اٹھے گا تو زباں تک پہنچے گا۔ زبان کی ایک لطیف سی جنبش کی کروٹ لیتا ہوا نفیس لبوں تک آئے گا۔ لبوں سے نکل کر میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرائے گا اور پھر اس ٹکراؤ کے نتیجے میں لطافت اور نفاست کی ایک ایسی تہذیب جنم لے گی کہ جس کے سامنے نیل اور روما کی قدیم تہذیبیں بھی ایڑیاں رگڑتی نظر آئیں گی۔ بھئی ذرا زور سے کہئیے، سبحان اللہ، یہاں ایک چھوٹا سا وقفہ اور اس کے بعد تندی باد مخالف کی بات ہو گی اور میں آپ کو ظالم آن لائن کے سیگمنٹ میں ایک ایسے ظالم کا قصہ سناؤں گا جو ابھی بھی کہیں نہ کہیں آن لائن ہو گا۔ لہٰذا ایک وقفہ لیتے ہیں کیوں کہ میں پچھلے دو دن سے بہت تکلیف میں ہوں۔سویا بھی نہیں۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔ کیونکہ تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے۔ ہم نے کیا چاہا تھا اس دن کے لیے۔ لیتے ہیں ایک وقفہ۔

وقفے کے بعد حاضر خدمت ہوں اور واللہ بدستور تکلیف میں ہوں۔ مجھ سے میری اپنی تکلیف بھی نہیں دیکھی جا رہی۔ ایک بھاری دل کے ساتھ ساری حکایت کی حقیقت بیان کرتا ہوں۔ آپ یہی سوچ رہے ہیں ناں کہ میں نے اچانک ہمالیہ سے اونچا سمندروں سے گہرا اور ہجر کی راتوں سے بھاری فیصلہ کیوں کیا۔ کیسے مجھ ناتواں نے یہ پتھر اٹھا لیا۔ بس اٹھا لیا۔ ارے بھائی بس بہت ہو گئی، اب اٹھا ہی لیا۔ اب یہ سوال اٹھے گا کہ ایک ٹاک شو میں وقفے سے پہلے میں باجماعت تھا اور وقفے کے بعد اچانک لا جماعت کیسے ہو گیا۔ سوال اٹھے گا ناں۔ تم سوال اٹھاؤ گے ناں۔ اٹھاؤ سوال اٹھاؤ، دیکھتا ہوں کیسے اٹھاتے ہو یہ سوال۔ میں بہت دکھی ہوں۔ آپ نے وہ فلم تو دیکھی ہو گی۔ ارے بھئی کیا اچھا سا نام تھا۔ ہاں سنگھ از کنگ۔ اس میں یشپال شرما نے ایک دکھی کا کردار کیا تھا۔ آپ وہ فلم دیکھ لیں تو آپ کو میری حالت کا اندازہ ہو جائے گا۔ بس مجھے وہی دکھی بلکہ اب تو یشپال شرما ہی سمجھو۔

حالانکہ میں پنجتن کا غلام ہوں لیکن اتنا دکھی ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو کر اپنا موازنہ ایک اداکار سے کر بیٹھا ہوں جس کے لیے میں دل کی اس گہرائی سے معافی مانگتا ہوں جس میں دین کا یہ عاشق غوطہ زن ہو کر سراغ زندگی تلاش کرتا رہتا ہے۔ آئیے اب اسی موضوع کو دوبارہ ویسے ہی چھیڑتے ہیں جیسے کوئی اوباش کسی شریف زادی کو چھیڑتا ہے یا جیسے کوئی استاد ستار نواز اپنے فاروق کو چھیڑتا ہے۔ غلطی سے ستار سے پہلے فاروق لگا ڈالا۔ میں بجانے والے ستار کی بات کر رہا ہوں وہ جس میں سات تار ہوتے ہیں۔ ہمارے حضرت امیر خسرو کی ایجاد۔ وہ جسے پنڈت روی شنکر بجایا کرتے تھے۔ بہت مشکل کام ہے ستار بجانا انگلیاں چھل جاتی ہیں سیکھتے سیکھتے تب کہیں جا کے ہاتھ آتا ہے سر۔ ستار سیکھنا اور سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فاروق ستار سمجھنا۔

لیتے ہیں ایک وقفہ۔ وقفے کے بعد میں بتاتا ہوں کہ ٹاک شو کے وقفے میں کیا ہوا تھا۔ کیسے میرے سپنوں کا ست رنگا محل رنگا ڈاکو لوٹ کے چلتا بنا۔ میں آوازیں دیتا رہ گیا۔ روکتا رہ گیا الله رسول کے واسطے دیے لیکن وہ خودپسندی کے گھوڑے پر سوار تھا۔ نہیں رکا جب وہ نہیں رکا تو میں کیوں رکوں۔ جاؤ نہیں رکتا۔ نہیں لیتا وقفہ۔ جاری رکھتا ہوں اپنا بیان۔

مجھے غدار کہا گیا غدار۔ اب یہ مت پوچھو کہ کس نے کہا ورنہ میں بتا رہا ہوں میں دکھی ہو جاؤں گا۔ مجھے سکھی دیکھنا چاہتے ہو تو سوال نہ کرو۔ بس سنو کیا کہہ رہا ہوں۔ مجھ سے مت پوچھو کہ ایک بار اس جماعت کی پہلی رکعت میں صف توڑ کر نکل جانے کے بعد واپس کیوں آیا۔ اور اس وقت ہی کیوں آیا جب بہت سے نمازی خیابان سحر کی طرف رخ موڑ چکے تھے۔ اس وقت ہی کیوں تکبیر پڑھ کے ہاتھ باندھے جب امام تحریک کا لاؤڈ سپیکر ہی بند کر دیا گیا تھا۔ اور میں ہی تحریک کا سپیکر بن کے ہر ٹاک شو میں امام صاحب کا ضامن بنا ان کی بیگناہی کی ضمانتیں دیتا رہا۔ حتی کہ ابھی چند دن پہلے ہماری تحریک کے امام اور فلسفہ محبت کے مصنف نے محبت کو لپیٹ کے ایک دو چینلوں کے منہ پر دے مارا میں تب بھی یہی کہتا رہا کہ امام صاحب سے بات کرو ان کی من موہنی صورت دکھانے پر جو پابندی لگا رکھی ہے وہ ہٹاؤ ان کا لاؤڈ سپیکر کھولو تاکہ وہ اپنی قوم کے جوانوں کو آداب معاشرت و مباشرت کی وہ باتیں بتائیں جو اس ملک کا کوئی لیڈر نہیں بتا سکتا۔ مجھ سے مت پوچھو میرا دل دکھی ہے میرے ملک کا پرچم جلایا گیا ہے۔ جو 80 میں بھی جلایا گیا تھا لیکن میں ماضی کی بات نہیں کرتا۔ میں آج کا قصہ کہتا ہوں۔ مجھ سے مت پوچھو کہ میرے کیا کیا خواب تھے۔ کچھ کم عقل نمازی جو ہمیشہ بغیر وضو ہی جماعت پڑھتے ہیں وہ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں میں آخری رکعت میں دوبارہ اسی لئے شریک ہوا کہ میری امامت پر نظر تھی ان ظالموں کو یہی کہوں گا کہ کمبختو امام صاحب تو خطبے اور ہر نماز کے بعد مصلا بغل میں دبا کے نکل لیتے ہیں میں کیسے وہ مصلا سنبھال سکتا تھا۔ ابھی جب پریس کانفرنس میں ان کے موذن نے اعلان کیا کہ کثرت عبادت کی وجہ سے امام صاحب کو ذہنی دباؤ کا سامنا ہے ان کو ترتیب نماز یاد نہیں رہتی جہاں تکبیر کہنی ہوتی ہے وہاں سجدہ ٹھونک دیتے ہیں جہاں سلام پھیرنا ہوتا ہے وہاں نعرہ تکبیر بلند کر دیتے ہیں عیدین پر جنازے اور جنازوں پر عیدین پڑھا دیتے ہیں۔ اس لئے نمازی ساتھیوں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا ہے۔ تو مجھے تھوڑی امید بندھی کہ شاید مذہبی سکالر ہونے کے ناطے یہ سعادت میرے حصے میں آئے گی دوسرا یہ کہ حجرے میں ہونے والی کئی دوبدو ملاقاتوں میں امام صاحب نے اشارتاً مجھے امامت کا جھانسہ دیا تھا۔ لیکن عین وقت پر موذن قائم مقام امام بن بیٹھا میں نے پھر بھی صبر کیا لیکن 24 گھنٹے میں ہی صبر کا وضو ٹوٹ گیا اس سے پہلے کہ مجھ سے تیمم کی مٹی ہی چھن جاتی میں نے جماعت ہی چھوڑ دی۔

پروگرام کے آخر میں میں موذن اور سارے بے وضو نمازیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مصلا اب بھی امام کی بغل میں ہے اور اس کے پیچھے کھڑے تمام مقتدی باغسل بھی ہیں اور باوضو بھی ۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ، رہے امام زندہ جو حاضر بھی ہے اور لائن حاضر بھی۔۔۔۔

 

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments