الطاف حسین، ٹھاکر اور کراچی


\"aliدن بھر کی ہنگامہ آ رائی کے بعد سرِ شام ٹھاکر کی کراچی پریس کلب میں دبنگ انٹری اور پھر شاہباز کے ہاتھوں ممولے کر گرفتاری جیسا منظر۔ ٹھاکر کا فاروق ستار کو یوں لے کر جانا ستر کے دہائی کی فارمولا انڈین فلم کا کوئی سین لگ رہا تھا۔ فاروق ستار کہتے رہے کہ ان کو ایک وضاحت کا وقت دیا جائے جو ان کا آئینی حق ہے۔ مگر فلمی ٹھاکروں کے نزدیک کیسا حق اور کیسا آئین ؟

 بالاخر آٹھ گھنٹے بعد ٹھاکر کے مہمان خانے سے نکلتے ہی فاروق نے کو اپنا آئینی حق واپس مل گیا۔ ہم ان چوبیس گھنٹوں میں یا فاروق کے ٹھاکر کی میز بانی میں گزارے آٹھ گھنٹوں میں کیا ہوا ہوگا، کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ البتہ فاروق ستار کی وضاحت پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں اس کے کیا مضمرات ہوں گے۔

 بھائی، قائد، چیف،پیر صاحب ،اور اب قائد تحریک الطاف حسین بھائی کراچی کے نام کے ساتھ ایک لاحقہ سا بن گیا ہے۔ کراچی والے اب الطاف حسین کے چاہنے والوں اور نفرت کرنے والوں میں تقسیم ہیں۔ محبت اور پیار جس شدت سے موجود ہے وہاں نفرت کے آگ کی تپش بھی اسی شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ شاید انہیں خود سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہے اس لیٔے پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔

کراچی کا لالو کھیت جب لیاقت آباد بنا تو ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یہاں آباد ہوگیٔے۔ کبھی یہ شہر تین ہٹی تک کا شہر تھا جو لیاری ندی پرختم ہو جاتا تھا۔ کراچی کاپھیلاؤ تھا کہ اس نے رکنے کا نام نہ لیا۔ بنگلہ دیش سے دوسری بار ہجرت کرنے والوں کی آمد کے ساتھ ہی دنیا کی چوتھی بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن آباد ہوئی تو ساتھ میں ملک کے شمال مغرب سے آنے والوں نے بھی اپنی اپنی بستیاں بنا ڈالیں۔ کراچی میں ایک نیا کراچی بنا تو ایک سہراب گوٹھ بھی آباد ہوااس طرح کراچی کے وسائل کم ہوتے گئے اور شہری سہولیات ناپید۔ جب بنگلہ دیش میں گزشتہ کئی دہایئوں سے مہاجر کیمپوں میں پھنسے اردو بولنے والوں کو پاکستان لانے کی کوشش کی گئی تو سندھ کی طرف سےاس خدشے کے ساتھ مزاحمت ہوئی کہ وہ بھی آخر کراچی ہی آئیں گے۔ جس پر اس سلسلے کو روکنا پڑا۔

ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے کسی ایک علاقے یا شہر سے نہیں بلکہ پورے ہندستان سے یہاں آۓ تھے۔ پھر یہ ہجرت ان کی پہچان بن گئی اور سب مہاجر کہلانے لگے۔ وہ میٹھی امید لے کر پاکستان آے لیکن زمینی حقائق تلخ نکلے۔ لیاقت علی خان کی موت کے بعد انہیں دلاسہ دینے والا کوئی نہ رہا پھر ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاء نے ان کی محرومیوں میں مزید اضافہ کیا۔ اہل کراچی نے محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت اس امید پر کی تاکہ ان کی امیدیں پوری ہوسکیں۔ انہیں اس حمایت کا انعام لاشوں کی شکل میں ملا۔ دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو روزگار کے مواقع بھی کم سے کم اور آبادی زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔

سیاسی طور پر فاطمہ جناح کی حمایت کے بعد اہل کراچی یتیم ہوئے تو کچھ مذہبی جماعتوں نے انہیں متوجہ کرلیا۔ اب یہاں مذہبی بنیادوں پر ایک نئی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی نظام مصطفیٰ کی تحریک میں اہل کراچی نے بھر پور حصہ ڈالا۔ یہاں سے ہی نورانی ،اور پروفیسر غفور ، پروفیسر خورشید احمد جیسے کردار ابھرے۔ ابوالاعلیٰ مودودی کی جاۓ سکونت ہونے کے باوجود لاہور میں جماعت اسلامی کو کوئی نمایاں کامیابی نہ مل سکی۔ پھر یہ کامیابی جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں اسے کراچی شہر کے اپنے مئیر کے انتخاب پر ملی۔ یہ مذہبی سیاست ہی کا کرشمہ ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں یہ شہر فرقہ ورانہ فسادات کامرکزبن گیا۔ بھٹو کے دور میں ہونے والے لسانی فسادات نے یہاں اردو بولنے والوں کو کسی حدتک یکجا تو کیا مگر قیادت کا خلا رہا جسے ضیاء ہی کے مارشل لاء میں بننے والی جماعت ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے پر کیا۔

الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کو مذہبی تفرقہ بازی سے دور رکھا اور ان کو لسانی بنیادوں پر اکٹھا کیا۔ اُردو بولنے والوں میں سہل پسندی ختم کرکے عسکریت پسندانہ رجحانات کے فروغ کے ساتھ اسلحہ رکھنے اور اس کے استعمال کی روش بھی ایم کیو ایم ہی کی دین ہے جو اب کراچی میں معمول بن چکی ہے۔ الطاف حسین نے مہاجروں کو زبان ہی نہیں طاقت بھی دی کہ وہ کسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ 88 سے لیکر 2008 تک سیاسی حکومت کے بنانے کے لیٔے نائن زیرو کا طواف مناسکِ سیاست کا لازمی حصہ تھا۔ یہ طواف دن دھاڑے عزیز آباد کی گلیوں میں لوگوں کے سامنے ہوتا رہا۔ جب بھی سیاسی قائدین یہاں آتے رہے تو الطاف کےچاہنے والے ایک ہی نعرہ لگار ان کا استقبال کیا کہ منزل نہیں راہنما چاہیے۔ جب بھی ایم کیو ایم کے اندر کہیں بغاؤت کی بو آتی ہو تو کراچی شہر میں پوسٹر آویزاں ہوتے رہے ٌ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہےٌ، واقفان حال ِ درون کہتے ہیں کہ اعظیم احمد طارق، عمران فاروق سمیت کئی ایک کو یہ حق بطریق احسن منتقل کیا گیا۔

 بغیر الطاف حسین کے ایم کی ایم کی خواہش ایسی خواہش ہے جس پر واقعی دم نکلتا ہے۔ ایم کیو ایم کے اندر یہ حسرت رکھنے والوں کا نہیں معلوم کیونکہ اس نیت کے معلوم ہونے پر دم بند ہوجایا کرتا ہے۔ ہاں جن لوگوں نے علی الاعلان الطاف حسین کی ذات سے بغاوت کی ان میں عامر خان اور آفاق احمد تھے جنھوں نے 1993 کے فوجی اپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے دفاتر پر قبضہ کیا ، الطاف حسین کے ماننے والوں کا داخلہ بند کیا اور ایک حقیقی ایم کیو ایم بنا کر صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی جیتیں۔ مگر آج آفاق احمد اکیلے ہی رہ گیٔے ہیں کیونکہ عامر کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر ایسا ہے جیسا کراچی ایم کیوایم کے بغیر۔

کراچی بغیر الطاف کا منظر الطاف کی گرتی صحت کی خبروں کے ساتھ ابھرا اور مصطفیٰ کمال نے اس تصویر میں پاک سر زمین کی پارٹی سےرنگ بھرنے کی کوشش کی۔ مارچ کی تین تاریخ سے ابھی تک ما سواۓ چند لوگوں کے کمال ہاؤس میں کوئی نہ آیا۔ کراچی تو دور کی بات جو میر پور خاص میں پاک سر زمین پارٹی کا خاص استقبال ہوا اس کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھیوں کو الطاف کے بعد بھی کراچی میں چرنے کو گھاس ملے گی۔

اب ایک بات طے ہے، کراچی الطاف کے بعد بھی ایم کیو ایم کا ہی شہر رہے گا۔ اگر ایم کیوایم کے پچاس دھڑے بھی ہوں گے تب بھی ہر دھڑا الطاف حسین کو ہی قائد کہے گا اور اس کی تصویر لگاکر ہی سیاست کرے گا۔ اس بات کو فاروق ستار سے بہتر کوئی نہیں جانتا اس لیٔے وہ کوشش میں ہیں کہ ایم کیو ایم اور الطاف دونوں کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

 لیکن کیا ٹھاکر کو اس بات کی سمجھ ہے یا نہیں ؟

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments