ڈنڈے کا جھنڈا


آصف زہری – جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی

\"asifجھنڈا، بغیر ڈنڈے کے ادھورا ہوتا ہے، تاہم ڈنڈے کی ذات گرامی کسی بھی جھنڈے کی محتاج نہیں، بلکہ اس کی طویل القامتی جھنڈے کو وقار عطا کرتی ہے نیز بغیر جھنڈا کے ڈنڈا حب الوطنی یا وابستگی کے بجائے غنڈہ گردی کی علامت بن جاتا ہے۔ غالبا ًیہ دنیا کا واحد ایسا ہتھیار ہے جس کا استعمال مختلف اور متضاد موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ مثلاً جانوروں کو ہانکنے، پیڑ سے پتیاں توڑنے، پولیس کے ذریعہ کسی معصوم کو مجرم ثابت کرنے تو کبھی انسپکٹر کے ہاتھوں میں جھنڈا تھما کر ڈنڈے سے انسپکٹر کی پٹائی کرنے کے بھی لیے ہوتا ہے۔ اگر مجرم کا تعلق بر سر اقتدار پارٹی سے ہو تو وہ اس کا استعمال پولیس کے گھوڑے کی ٹانگ توڑنے کے لیے بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے، محبان وطن اور مفکران وقت کو غدارِ وطن اور جاہل اعظم ثابت کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ دراصل  کلام بلھے شاہ :

     چار کتاباں اتوں لتھیاں، اتوں لتھیاں ڈنڈا        چار کتاباں کُج نہ کیتا، سب کُج کیتا ڈنڈا

(یعنی آ سمان سے چار کتابیں نازل ہوئیں پھر ڈنڈا نازل ہوا، لیکن ان چار کتابوں نے کچھ نہیں کیا، سب کچھ ڈنڈے نے ہی کیا) سے چند حضرات نے سب سے آخر میں نازل شدہ شئے کو معتبر ترین تصور کرتے ہوئے، ساری کتابوں سے منہ موڑ کر محض ڈنڈے پر ہی بھروسہ کر لیا۔ ایسی صورت میں کسی بھی پڑھے لکھے یا مفکر کا ”ڈنڈا ویر اے مسٹنڈیاں دا (ڈنڈا غنڈوں کا بھائی ہے) کہنا جاہل مطلق کی مہر لگوانے اور ”ڈنڈا سب دا پیر“ کو مدعو کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق ’ڈنڈا‘ آسمان سے نازل شدہ اشیا میں سب سے انوکھی شئے ہے۔ اب ان حالات میں اگر محاورہ:’ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے ڈنڈا‘ کانوں میں پڑ جائے تو فیصلہ کر پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ’انوکھا لاڈلا‘ کون ہے؟ ڈنڈا بردار؟ یا برادرِ ڈنڈا؟

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (دہلی)کے حالیہ واقعے نے ایک محاورے کا محلِ استعمال سکھا دیا کہ یہ حضرات’ عقل کے پیچھے ڈنڈا لیے پھرتے ہیں‘۔ لیکن بزعم خود وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ محب وطن ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ڈنڈے سے رقم کئے گئے سرٹیفکٹ ییل یونیورسٹی(Yale University)  سے حاصل کئے گئے جعلی سرٹیفکٹ اور بغیر ڈنڈے کے جھنڈے کے مانند، جلد ہی اپنا وقار کھو دیتی ہے۔ دراصل مذکورہ واقعے کے بعد \’محبان جھنڈا\’ نے سو گز کے ایسے جھنڈے کے ساتھ ریلی نکالی جو ڈنڈے سے عاری تھا۔ اس جھنڈے کو، ڈنڈے کی عدم موجودگی کی بنا پر خاطر خواہ مقبولیت نہیں مل سکی بلکہ ریلی میں شرکت کرنے والوں کے درمیان اہل حکومت کے جملوں کے مانند یہ چندجملے بڑی تیزی سے پڑتے رہے کہ ’ یار! کیا جھنڈے میں ڈنڈا ہو گا۔ پکڑنے کے لیے؟ اور ”بغیر ڈنڈے کا۔ وہ بھی ہمارا جھنڈا؟‘، ’اس لیے کہ ڈنڈا ہی، جھنڈے پر ہماری اجارہ داری کو ثابت کرتا ہے! کیا تمہیں وہ مثل نہیں معلوم: جا کو ڈنڈا، جا کو گائے۔ مت کرو کوئی ہائے ہائے (یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس)۔ ہم تو ہمیشہ ہی جھنڈے کے پس پردہ، ڈنڈے کو ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ تم خود دیکھ لو! جگہ کا نام ہم نے ’جھنڈے والان‘ رکھا ہے لیکن وہاں جھنڈے سے زیادہ اہمیت ڈنڈے کی ہے۔ ہم روز اس کو سلامی دیتے ہیں۔ اگر حالات ہمارے موافق ہوتے تو ہم کب کا اس کا نام \’ڈنڈے والان\’ کر چکے ہوتے۔ “

ڈنڈوت اور ڈنڈا گیری سے محفوظ، بچپن کی یادداشت، پر اگر آپ بھروسہ کر سکیں تو پرانے زمانے کے لوگ ٹیک لگانے کے لیے بھی اس کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن حال ہی میں راجستھان کے ایک ایم ایل اے نے اس کا ایک اور نیا استعمال بھی دریافت کر لیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی مدد سے کھائے گئے گوشت کی چھوٹی بڑی ہڈیوں، بیڑی سگریٹ کے ٹھونٹھے، بیر کے کین، شراب کی بوتلوں کی اعداد شماری کے علاوہ استعمال شدہ کنڈوم کی گنتی کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ آپ کے دلوں میں حب الوطنی کا ڈنڈا مستحکم طریقے سے نصب ہو نیز اس کا اوپری سرا آپ کے دماغ تک رسائی حاصل کر کے، غور و فکر کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رہا ہو۔ اعداد و شمار کے لیے استعمال کیے جانے والا یہ ہتھیار اور بھی کارگر ہو سکتا ہے اگر اس کے ایک سرے پر آپ کے وطن عزیز کا جھنڈا بھی نصب ہو۔ ویسے یہ اوزار لمبی موٹی مونچھوں پر خوب جمتا ہے۔ اس بات پر مزید ریسرچ کی ضرورت ہے کہ جھنڈے ڈنڈے اور مونچھ میں کیا تعلق ہے؟ تاہم ڈنڈے کے عتاب کا شکار ہونے والے یہی بتاتے ہیں کہ ڈنڈے کے ایک سرے پر جھنڈا تو دوسرے سرے پر ایک لمبی موٹی مونچھ ہوا کرتی ہے۔ لیکن ذرا رکیے۔ سنا ہے کی گاندھی جی مکمل طور پر \”فارغ البال ڈنڈا بردار‘ (بغیر داڑھی مونچھ اور بال کے) تھے۔ مونچھوں کی عدم موجودگی کی بنا پر ان کا ڈنڈا اپنی کارگزاری نہیں دکھا سکا۔ اسی لیے بقول ایک ریٹایرڈ جنرل، ’ان کے لاٹھی کھانے اور اہنسا سے بھارت کو آزادی نہیں ملی۔ بطور ثبوت موصوف جنرل یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ \”ڈنڈا تو بھینس بھی بہت کھاتی ہے تو پیٹ بھر ڈنڈا کھانے کے باوجود کیا بھینس نے آزادی حاصل کر لی؟\’\’ ان کے مطابق نہیں، بلکہ آزادی تو چاپلوسی اپنوں سے غداری، مخبری اور انگریزوں سے دست بستہ معافی مانگنے سے ملی ہے۔ اب یہ الگ، قابل غور مسئلہ ہے کہ آزادی ملی کیسے؟ اس کا حل، اہل ڈنڈا اور اہل جھنڈا سے گفتگو کرنے کے بعد ہی نکل سکتا ہے۔

گاندھی جی کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ ہمیشہ ڈنڈے کی مصاحبت میں رہتے تھے یہاں تک کہ ڈانڈی مارچ جیسے نہ جانے کتنے سفر انہوں نے ڈنڈے کی معیت میں انجام دیے۔ لیکن ان کے ڈنڈے کو جھنڈے کی رفاقت کبھی بھی نصیب نہ ہوئی۔ شاید اس کا جواز جھنڈے پر انگریزوں کی طرف سے عاید پابندی میں مل جائے۔ اس پابندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کی وفادار ایک ہندوستانی تنظیم، آزادی کے باون برس کے بعد تک صرف ڈنڈا ہی استعمال کرتی رہی۔ آثار و شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ابتدا ً ان کی محبت محض ’ڈنڈی ‘ تک ہی محدود تھی۔ آہستہ آہستہ ڈنڈے اور ڈنڈی کے مابین رشتے کا راز ان پر عیاں ہوتا چلا گیا اور انہوں نے \”ڈنڈی مارتے مارتے\”، \”ڈنڈا اٹھانے \”، پھر’ ڈنڈا مارنے‘ میں مہارت حاصل کر لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا پہلا ڈنڈا اسی جماعت پر پڑا جن کے زیر سایہ ان کی پرورش ہوئی تھی۔ اور پٹنے والی جماعت اب واویلا مچا رہی ہے کہ ”میں ہی پال کرا مسٹنڈا، موہی مارے لے کر ڈنڈا۔\” خیر ابتداً یہ ڈنڈی بردار تھے، پھر ڈنڈا بردار بنے پھر تقریباً ساٹھ سال کے بعد وطن عزیز کے اس جھنڈے پر ڈاکہ ڈال کر، جس کی متعدد بار وہ توہین کرچکے تھے، جھنڈا بردار بن بھی گئے۔ تاہم اس کہاوت کے دائرہ اثر سے اب بھی نجات نہیں پا سکے کہ ”پاسنگ کا چور تین جگہ ڈنڈائے۔ جھکتا تولے پاسنگ دکھلائے۔“ فطرت سے مجبور، اب بھی وہ ڈنڈی مارنے کے لیے ڈنڈا اٹھاتے ہیں اور ڈنڈا مارنے کے جھنڈا دکھلاتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس میدان میں ابھی وہ نو آموز ہیں اس لیے تا دم تحریر انہیں ڈنڈی اور ڈنڈا پر زیادہ اعتماد کرتے ہوئے ہی پایا گیا ہے۔ دراصل ایسے حضرات محاورے : \’نیا سپاہی مونچھ میں ڈنڈا\’ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق نئے ہیں، نئی نئی ملی سرداری کے سبب ہر جگہ ”سرداری کا ڈنڈا مونچھ میں اٹکائے پھرتے ہیں\” شاید ان ہی کو بندر قرار دیتے ہوئے مظفر حنفی کہتے ہیں:

مرغی آئی انڈا لے کر

بندر آیا ڈنڈا لے کر

اور ظفر کمالی ان کی عظمت پارینہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

دیکھیں اگر گدھے کو داغیں سلامی

ان کا جو بس چلے تو اس کی کریں غلامی

کتے کو دیکھتے ہی دوڑائیں لے کے ڈنڈا

اپنی بہادری کا لہرائیں خوب جھنڈا

جھنڈے اور ڈنڈے سے بچپن کا ایک دلچسپ کھیل\’ گلی ڈنڈا\’ کی یاد تازہ ہو گئی۔ واضح رہے کہ اس کھیل میں بھی بنیادی اہمیت ڈنڈے کو ہی حاصل ہے۔ گلی تو جھنڈے کے مانند ثانوی شئے ہے، تاہم ’ڈنڈے کے دوسرے سرے پر مونچھ ہوا کرتی ہے‘، والی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔ اگر آپ گلی ڈنڈا سے واقف ہیں تو مونچھ اور گلی کے درمیان مشابہت بآسانی سے تلاش کر سکتے ہیں، لیکن یہاں گلی کی زبوں حالی پر ترس آتا ہے، جو ڈنڈے کی متعدد ضرب کے باوجود ڈنڈے کی غلامی سے باز نہیں آتی۔ شاید بچپن میں ہی بیدار ہونے والی ایسی غلامانہ ذہنیت کو بھانپ کر حضرت مصحفی کو تشویش ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ:

کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا

ڈنڈ پیل آج ہو گیا مسٹنڈا

\’ڈنڈا\’ کے خاندان سے ہی تعلق رکھنے والی ایک شئے ہے: گنڈا، جس سے ملتی جلتی ایک شئے تعویذ بھی ہے۔ کچھ لوگ اسے ’تبیج‘ بھی کہتے ہیں۔ پنڈت اور مولوی یا مولبی پہلے تو تعویذ اور گنڈے سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان دونوں کے کارگر نہ ہونے کی صورت میں ساحر اور جادو گرنی کی تلاش شروع ہو جاتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ساحر اور جادوگرنی تک ان کی رسائی ہو پاتی ہے یا نہیں۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ witch hunting  کے عمل میں مریض یا مسحور شخص کی ہی لاٹھی ڈنڈے اور چپل سے تواضع کی جاتی ہے نیز نتھنوں میں مرچوں کا دھواں بھی دیا جاتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ گنڈا کے کام نہ کرنے کی صورت میں ڈنڈا ہی واحد سہارا بچتا ہے۔ شاید یہ وطن کے تئیں محبت بیدار کرنے اور اعتقاد کو بحال کرنے کی ایک کار آمد مشین ہے۔ خیر استعمال جیسا بھی ہو، اس نوع کی تمام اشیاء، خواہ گنڈا ہو یا ڈنڈا آنسو ضرور نکال دیتے ہیں۔

جس طرح کا تعلق ’گنڈے‘ کا’ انڈے‘ سے ہے اسی طرح کا تعلق ہریانہ کے جاٹوں کا ’ڈنڈے‘ سے بتایا جاتا ہے۔ یہ لوگ عظیم الجثہ اور طاقتور ہوتے ہیں شاید اس کا سبب، ان کی بچپن سے ڈنڈ پیلنے کی عادت ہے۔ ’ڈنڈ پیلنے‘ کی طرح’ ڈنڈا ڈولی کرنا‘ بھی ایک محاورہ ہے۔ اس محاورے کے مفہوم تک رسائی ہریانہ کے رزرویشن کی پر تشدد تحریک پر بنے ایک کارٹون کے سبب ہوئی، جس میں وزیر اعلیٰ کو ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہاں، اس کیس اسٹڈی میں بھی مونچھ اور ڈنڈے کا تعلق کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے، کہ خالق باری انسان بنانے والی فیکٹری کے سامنے بیٹھے ہوئے، فیکٹری کی مصنوعات کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک نیا پروڈکٹ: عظیم الجثہ موٹی موٹی مونچھوں والا ڈنڈا بردار انسان کی شکل میں ان کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے ملازمین کو ڈانٹا کہ اس کے اندر تم لوگوں نے دماغ نصب نہیں کیا؟ لے جاؤ!اور ایک اچھا سا دماغ ڈال کر O.K. کا لیبل لگاؤ۔ اس ڈنڈا بردار نے دریافت کیا کہ دماغ کیا ہوتا اور یہ کس جگہ لگے گا؟ تو جواب دیا گیا کہ سر کے اندر لگے گا۔ لفظ’ سر‘ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے پوچھا کہ اچھا یہ بتائیے کہ کہ مونچھ اور ڈنڈے کی اونچائی سے اوپر نصب کیا جائے گا یا نیچے؟ تو بتایا گیا کہ اوپر۔ تو اس کا جواب تھا ”پھر اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اصلی طاقت اور جادو تو مونچھ اور ڈنڈے میں ہوتی ہے۔ اس کے اوپر سب کچھ غیر اہم ہے“۔ اس کا نمونہ ہمیں گذشتہ دنوں نظر آیا جب رزرویشن کی مانگ کرنے والے ریل کی پٹریاں اکھاڑ کر، بسوں اور دکانوں کو آگ لگا کر، گرلز ہوسٹل میں چھاپہ مار کر رزرویشن تلاش کرتے نظر آئے۔ طاقت اور ڈنڈے کا سحر ان کے اوپر اس قدر طاری رہتا ہے کہ جاٹ برادری کے جو لوگ گوشت خور ہیں” مٹن بریانی“ کے بجائے ’ڈنڈا بریانی‘ زیادہ پسند کرتے ہیں، جو فیمر یعنی ران کی ہڈیوں سے تیار کی جاتی ہے۔

اب تک کی بحث سے یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ بھاری بھرکم مونچھوں میں ایک طرح کا جادوئی اثر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جادوئی اثر ڈنڈے میں بھی ہوتا ہے؟ یا نہیں؟ تو جواب ہے۔ یقیناََ، ہوتا ہے۔ ذرا دماغ پر زور ڈالیے، آپ نے جادوگروں کو ہمیشہ ڈنڈے کے ساتھ ہی دیکھا ہوگا۔ اس کے علاوہ آپ نے \’جادو کا ڈنڈا\’ جیسے کلمات بھی سنے ہوں گے۔ دراصل جادوگر اس قسم کے ڈنڈے کا استعمال دھوکہ دینے کے لیے کرتا ہے۔ وہ اپنے ڈنڈے کی مدد سے پھول کو کبوتر میں تبدیل کرنے کا اعلان کرتا ہے پھر ایسا کرتے ہوئے دکھتا بھی ہے۔ لیکن چند لمحوں کے بعد یہ ساری چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ نہ پھول رہتا ہے اور نہ ہی کبوتر۔ باقی بچتا ہے تو اعلان۔ کچھ ایسا ہی ہمارے سیاستداں الیکشن کے موقع پر کرتے ہیں۔ سننے والے کو گمان گزرتا ہے کہ پندرہ پندرہ لاکھ ہر فرد کی جیب میں آنے والا ہے۔ لیکن جادو کی پٹاری سے پندرہ لاکھ نہیں نکلتے البتہ سروس ٹیکس کی شرح میں  پندرہ فیصدی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ڈنڈے سے ملتا جلتا ایک اور کار آمد اوزار ’لاٹھی‘ بھی ہے۔ ویسے لاٹھی گجرات کے ایک قصبے کا نام بھی ہے۔ اس اوزار کو عموماً جسمانی طور پر مفلوج افراد استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس لاٹھی کو اگر ذہنی طور پر مفلوج حضرات استعمال کریں تو اس کانام بدل کر ڈنڈا ہو جاتا ہے۔ اور یہ اوزار اگر غیر مرئی ہو تو اس کو” خدا کی لاٹھی“ کہتے ہیں۔ اس کو چارج کرنے کی رائلٹی ذہنی طور پر مفلوج حضرات کے علاوہ اگر کسی کے پاس ہے تو وہ صرف پولیس اور فورس۔ اب ذہنی طور پر معذور، پولیس اور فورس کے درمیان رشتہ آپ خود تلاش کر لیں۔ ایک شاعر:خالد عرفان نے کچھ غلط نتائج اخذ کرلیے، اور انہیں کہنا پڑا:

ادھر ہے پتھر ادھر ہے لاٹھی ذرا یہ ٹوپی سنبھال رکھنا

میں اپنے سر کا خیال رکھوں تم اپنے سر کا خیال رکھنا

ایک دوسرے موقع پر، لا علمی یا کم علمی نے ان کا بیڑا ہی غرق کر دیا۔ دراصل وہ مخاطب خاتون کے لفظ تخاطب ” بچہ“ سے غچہ کھا گئے، پھر سر پر پڑی اور یہ کار آمد شعر برآمد ہوا۔ واہ! کیا کہنے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

پچاس کو وہ کراس کر کے کچھ اور خوانخوار ہو گئی ہے

اگر اسے انٹی کہو تو نگاہ میں ہسپتال رکھنا

لیکن اس کے وجود مرئی اور غیر مرئی میں تفریق کیے بنا، یہ نتیجہ اخد کیا جا سکتا ہے کہ ڈنڈے کے اثرات ہمارے خارج کے علاوہ ہمارے باطن پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ غالب کے درج ذیل شعر سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس شعر کو پڑھتے ہوئے گمان گذرتا ہے کہ وہ بھی عہد حاضر کے ٹی وی چینلوں اور اس کے کرداروں سے کما حقہ واقف تھے:

آواز تری نکلے اور آواز کے ساتھ

 لاٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو

غالباً اس طرح کے کسی موقع پر یہ محاورہ معرض وجود میں آیا ہوگا: ’لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے‘۔ خیر! ایک شاعر آثم پیر زادہ کے ذہن میں ملک کے سیاسی مباحثے اور مقبول عام ساس بہو سیریل اس قدر گڈ مڈ ہوئے کہ وہ ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے بر جستہ بول اٹھے:

ساس نے ڈنڈا اٹھایا اور سسر نے چپلیں

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ڈنڈے سے قطع نظر، جھنڈے کا ایک اور رخ بھی ہے کہ یہ کسی گروہ، ملک یا تنظیم کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈنڈا تو تمام ممالک کی پولیس کے پاس بھی ہوتا ہے لیکن اس پر بظاہر جھنڈا نہیں ہوتا، یہ جھنڈا اس کی پشت پر موجود قوت یا حکومت کے پاس ہوا کرتا ہے۔ بعینہ کچھ ڈنڈوں میں جھنڈے کی موجودگی رسما ًہوا کرتی ہے اس لیے کہ ان کی پشت پر موجود قوت، اس مخصوص جھنڈے کے بجائے کسی اور جھنڈے کے قائل ہوتی ہے۔ اس لیے یہ لوگ مارچ میں بغیر ڈنڈے کا جھنڈا استعمال کرتے ہیں لیکن کورٹ کچہری میں چھوٹے سے جھنڈے کے ساتھ بڑا سا ڈانڈا جوڑ لیتے ہیں تا کہ خوفزدہ ہو کر آپ ان کی حب الوطنی پر شک تک نہ کریں۔ اس کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ جھنڈا تو یکساں رہتا ہے البتہ اس سے ملحق ڈنڈے کا سائز حسب ضرورت بدلتا رہتا ہے۔ جیسے اشد ضرورت کے تحت وزارات برائے فروغ انسانی وسائل نے ہر یونیورسٹی میں دو سو سات فٹ کا جھنڈا لازمی قرارا دے دیا۔ چند روز کے کے بعد حب الوطنی پر لیکچر دینے آئے ایک ریٹارڈ جنرل نے یونیورسٹی میں طویل القامت جھنڈے سے ایک قدم آگے بڑھ کر ایک توپ رکھنے کی حمایت کر دی تاکہ اگر آپ سرکاری جھنڈے اور دو سو سات فٹ کے ڈنڈے سے بھی حراساں نہ ہوں تو یہ کام ایک توپ کو انجام دینا پڑے گا۔ جھنڈے کی اس بڑھتی ہوئی اہمیت اور اس کی بدلتی ہوئی شکلوں سے متاثر ہو کر عراق کے بغدادی کو خیال آیا کہ لائبریری دانش گاہیں اور یونیورسٹیاں چونکہ غداران وطن کی نرسری ہوتی ہے تو کیوں نہ ایسی تمام جگہوں پر اسلامک اسٹیٹ کا ایک ایٹم بم نمائش کے لیے رکھ دیا جائے۔ جوISIS  کے ایک ہیبت ناک جھنڈے سے مزین ہو۔ اس ڈسکورس یا وظیفہ سے’ جھنڈا بردار فورس‘ اور’ ڈنڈا بردار فورس‘ کے درمیان فرق آپ پر واضح نہ ہوا ہو تو یاد رکھیے کہ دہشت زدہ ماحول میں قیام امن کے لیے افواج ’جھنڈامارچ‘ یا’ فلیگ مارچ‘ کرتی ہیں مگر ووٹ کے لیے بسا اوقات انہیں ’ڈنڈا مارچ‘ کی اجازت بطور خاص دی جاتی ہے۔ اب تو، یہ دستور بنتا جا رہا کہ سرحدوں پر صرف جھنڈوں سے اور ملک کے اندر ڈنڈوں سے کام لیا جائے۔ ویسے، بندوق بھی ڈنڈے کی ہی ایک ہی شکل ہے۔ اس کی ایجاد کے وقت عوام کے درمیان اسے آگ اگلنے والا ڈنڈا یا لاٹھی کی حیثیت سے مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ ڈنڈے کی اہمیت اور افادیت کے قائل ہو گئے ہوں گے۔ تو آئیے! ڈنڈے کے سامنے سر نگوں ہو کر، دل کی گہرائیوں سے یہ گیت گائیں:

ڈنڈا اونچا رہے ہمارا

ڈنڈا اونچا رہے ہمارا

وجئی وِشو بے رنگا پیار

سدا شکتی برسانے والا

پریم سدھا کو بھگانے والا

ویروں کو مروانے والا

منو سمرتی کا تن من سارا

ڈنڈا اونچا رہے ہمارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments