اماں چھوڑو! تم کیا جانو کراچی کی سیاست


\"Afshanعمر گزر گئی ایک ہی رٹا رٹایا جواب سنتے \”اماں چھوڑو۔ تم کیا جانو۔ کراچی کی سیاسی ڈائنامِکس مختلف ہیں۔\” اور یہ کہنے والے اسی ملک کے باسی کہلواتے ہیں جہاں ہر سو کلومیٹر میں دو بار لوگوں کی بولی، پکوانوں کے نام و لذت، خوشی و سوگ کی رسومات اور خاندانی روایات بدلتی ہیں۔ \”پتہ کچھ کا نہیں اور باتیں کراچی کی سیاست کی۔\” ایسا کہنے والے آپ کو کشمیر سے لے کر پسرور تک کی گلی محلہ تھڑا سیاست پر تجزیہ دیتے پائے جائیں گے۔ دفاعی معاملات میں تو ایسے تاک کہ بس پوچھیے مت۔ کور کمانڈرز میٹنگ کا احوال یوں بیان کریں گے کہ مانو وہیں میز تلے گھسے کسی بوٹ میں تسمے پرو رہے تھے۔ تو ایسے میں کراچی کی حالیہ صورت حال پر تصویر کے اِس کونے کا ویو دیکھتے ہمارا حصہ ڈالنا بنتا ہے۔

چھ روز سے اربن سندھ میں اپنی مضبوط جڑیں اور الگ پہچان رکھنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھی تھی۔ ان کے تحفظات میں کارکنان کی گرفتاریاں، لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے علاوہ دیگر معاملات شامل تھے۔ جمہوریت پسندوں کے لیے یہ بات خوش آئند تھی کہ ایک جماعت جِس پر عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کا لیبل چسپاں تھا اب دھیرے دھیرے قومی دھارے میں ڈھنگ سے شامل ہوتی ہوئی سیاسی جماعت کا روپ دھار رہی ہے اور شاید یہ جمہوریت ہی کا سفر ہے جس کی وجہ سے قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ صاحب نے اس ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔ گزارشات و تحفظات سنے۔ وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت کا وفد اس کیمپ میں پہنچا۔ 22 اگست کی صبح تک خبریں تھیں کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب وزیرِاعظم پاکستان کی خاص ہدایت پر ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں آنے والے ایک وفد سے مِلے۔ دوسرا وفد وزیرِاعلیٰ سندھ سے ملاقات میں تحفظات بیان کرتا پایا گیا۔ اس ملاقات میں کنور نوید، خواجہ اظہار الحسن، سید سردار احمد، نثار کھوڑو، مولا بخش چانڈیو اور مرتضیٰ وہاب موجود تھے۔ یعنی صوبائی و وفاقی حکومتیں مذاکرات کرنے اور تحفظات دور کرنے کی جانب سنجیدگی سے راغب تھیں۔ ان تمام تر کاوشوں میں ایک سیاسی جماعت کی تکلیف سمجھنے کی راہ سجھائی دے رہی تھی کہ خبر آتی ہے کہ اس جماعت کے سربراہ نے ستاسی ہزارویں مرتبہ مستعفیٰ ہو کر کارکنان کی پُرزور اپیل پر خود کو حسبِ روایت بحال کرلیا ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو عوام اہمیت نہ دیتے لیکن اُنہیں یہ کیا سوجھی کہ پاکستان، پاکستان کے دفاعی اداروں اور میڈیا کے خلاف ہرزہ سرائی اور اشتعال آمیز تقریر کر دی، ایسے الفاظ کہے گئے کہ انہیں یہاں پر دہرانا مناسب نہیں ہے۔

اگرچہ ہم روزانہ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے کا سرکس دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس پرائم ٹائم منڈوے میں کوئی غدار ہے تو کوئی مودی کا یار، فلاں ایجنٹ ہے تو ڈھمکاں کافر اور کچھ نہیں تو صدرِ مملکت کو حقارت سے \”دہی بھلے بیچنے والا\” یا پھر کسی کو میٹر ریڈر، منشی کا ٹیگ لگانا اب دانشوری اور تجزیہ نگاری کہلواتا ہے۔ وہی گِنے چُنے چہرے اور وہی گھسے پِٹے موضوعات۔ لیکن الطاف حسین صاحب نے تو ملکی \”وقار\” کو لٹکانے کی بات کردی۔

پاکستان کے خلاف نعرے آزادئ اظہار کے زمرے میں رکھیے لیکن یہ یاد رہے کہ سقوطِ ڈھاکہ ہو، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یا پھر بینظیر بھٹو کی شہادت۔ ہر طرح کی تکلیف دہ صورت حال میں ریاست کے بارے میں ایسے نفرت بھرے نعرے کسی نے نہیں لگائے تھے۔ اور ایک نام نہاد معذرت نامہ جانے کِس نے جاری کروایا جِس کے چوبیس گھنٹوں کے اندر \”صاحبَ کیفیت\” ایک لیک ہونے والی فون ریکارڈنگ میں مبینہ طور پر بھارت سے معافی تلافی اور اسرائیل سے مدد کے طلبگار دکھائی دیے۔ یہ مسئلہ تو واقعی جذب کی کیفیت کا معلوم ہوتا ہے۔ بات بہرحال اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکسانے کی کرلیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کوشش نہ تو پہلی بار ہوئی اور نہ ہی صرف اسی ایک سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔

دو سال قبل اسلام آباد کے ریڈ زون کا سرکس یاد کیجیے۔ جنگ اور جیو نیوز کے دفاتر پر پتھراؤ، فیلڈ رپورٹرز کی ٹھکائی، پانی کی بوتلیں پھینک کر خواتین رپورٹرز/اینکرز کو ہراساں کرنا۔ دو ہزار چودہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کی دیوار اور گیٹ توڑا گیا، عدالتِ عظمیٰ کے جنگلوں پر شلواریں ٹانگی گئیں۔ یکم ستمبر دو ہزار چودہ کی صبح پی۔ ٹی۔ وی کی نشریات بند کروا کر دو پریشر گروپس \”فتح\” کا اعلان کرنے کے منتظر تھے۔ اور وہ لیکڈ آڈیو تو یاد ہوگی \”اچھا ہے اچھا ہے۔۔۔ ہمیں دکھانا ہے کہ صورت حال ان کے قابو سے باہر ہے۔ \” اس سے بھی کہیں پہلے 1999 کی ایک تصویر ہے جِس میں کچھ وردی والے اسی عمارت کا داخلی گیٹ پھلانگ کر شب خون مار رہے ہیں۔۔۔ راستہ کِس نے دکھایا؟ روایت کِس نے ڈالی اور سزا کب کِس نے بھگتی؟ یہ سوالات پھر سہی۔ کیا ایم کیو ایم کی جانب سے بھی کسی نے اعلان کیا یا دادِ شجاعت دی کہ ہمارے لوگ فلاں ٹی وی سٹیشن پر قابض ہوگئے ہیں؟ ایسا کیسے ممکن ہوا کہ اِدھر تقریر ہوئی اور اُدھر دس منٹ کے اندر مختلف سمتوں سے نقاب پوش ٹولیوں کی صورت اُمڈ آئے ؟ یہ تو فوٹیج میں ایک نجی ٹی وی چینل پر خواتین ڈنڈے لہراتی توڑ پھوڑ میں مصروف دکھائی دیں لیکن سڑکوں پر نقاب پوش کون تھے جو قومی پرچم جلاتے دیکھے گئے؟ ایسی تنظیم وہ بھی آناً فاناً، کمال ہے بھئی۔

معافی یا معذرت اگرچہ آدھا اقرارِ جرم ہوتا ہے لیکن مصطفیٰ عزیز آبادی کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ \”چند شیشے ٹوٹ گئے تو کیا قیامت آگئی۔ ہمارے کارکنان شہید ہوئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ \” کیا کہنے اِس منطق کے اور آفرین ہے اس دفاعی صلاحیت پر۔

یہاں تک کی تمام قسط میں محسوس ہو رہا تھا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق ایک کمیونٹی کو اون کرنے والی جماعت کے سربراہ نے \”کیفیت\” کے عالم میں سب کچھ ختم کر ڈالا ہے۔ لیکن بھلا ہو بھائی ٹھاکر کا کہ جِس طرح معزز اراکینِ قومی اسمبلی کو دھکیل کر پریس کانفرنس سے قبل حراست میں لے کر گئے۔ تو وہ آوازیں جو کچھ لمحے قبل تک قبیح نعروں اور تخریبی رویے پر لعن طعن میں مصروف تھیں انہیں موقع فراہم کر دیا کہ اپنی جماعت اور کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک پر واویلا مچائیں۔ نائن زیرو کو سیل کرنا اور حیدرآباد تک کے دفاتر سیل/مسمار کر دینے کا مقصد کیا ہے بھیا؟ کالعدم قرار دیا ہے کیا؟ اور جو ایسا کر بھی دیں تو کیا ایک سیاسی حقیقت کو یوں مٹایا جاسکتا ہے؟ ق لیگ لا کر کیا مسلم لیگ ن کو مِٹایا جا سکا؟ کوئی یہ بھی بتلائے کہ کالعدم مذہبی تنظیموں کے کتنے دفاتر اب تک آپریشنل ہیں اور کِتنوں پر قفل ڈالے گئے؟ ہم تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ کِس قانون کے تحت پکڑ دھکڑ اور تالہ بندی جاری ہے۔ کیونکہ پھر بات نصرت بھٹو کی تکالیف سے بھی پہلے کی کرنا پڑے گی۔ بے نظیر کے ساتھ ناروا سلوک بھی ہم نہیں بھولے۔ بیگم کلثوم نواز کی گاڑی والا واقعہ ہو یا پھر پوچھا جائے کہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر نواز شریف کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا۔ منتخب وزرائے اعظم کو جیلوں میں پھینکنا اور سیاسی کارکنان کی مونچھیں مونڈھ کر نیم برہنہ حالت میں تشدد سے ادھ موا کر کے سڑک کنارے پھینک جانا، خواتین کارکنوں پر تشدد، چیف جسٹس کو بالوں سے گھسیٹنا۔ اس بارے ایک گہرا سناٹا ہے۔ لہٰذا آپ اتنا یاد رکھیے کہ کسی نہ کسی موقع پر کوئی نہ کوئی پہچان والوں کی کمبختی آتی رہنی چاہیے۔ رونق میلہ لگا رہے تو کارگل، سانحہ بارہ مئی، آرمی پبلک سکول یا پھر سانحہ کوئٹہ۔۔۔ کسی بھی انسانی سانحے کو یاد رکھنے کا وقت اور ٹی آر پی دوڑ کہاں میسر آتی ہے جناب۔

اعلانِ لا تعلقی کی بھی خوب رہی۔ سال تھا شاید 1992 اور یہی کوئی تین ماہ تک فیصلہ سازی سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھائی جی کی واپسی شان سے ہوگئی تھی۔ لیکن آج کی صورت حال میں مارجن تو دینا ہی پڑے گا۔ تین دہائیوں میں پہلی بار کائنات کی مشکل ترین جاب پر بیٹھا شخص یہ جملہ نہیں ادا کر پایا، \”بھائی کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جارہا ہے۔۔ \” کچھ مہلت تو دینی ہی پڑے گی۔ جب ایک جماعت اپنی ہی اصلاح کی غرض سے مستقبل میں سنبھل کر اٹھنے کی کوشش کررہی ہے تو خوامخواہ کی ٹھاکرگیری کے ذریعے آپ ان کی خاموش سپورٹ میں اضطراب پیدا کرکے مزید پکا کرنے کا کارِ خیر سرانجام دیتے بھلے معلوم ہو رہے ہیں۔ لگے رہئے۔

باقی یہ کہ سارے قصے میں سمجھ یہ بھی آتی ہے کہ جِس طرح افغان سِموں کے آوارہ سگنلز گندے ہوتے ہیں یونہی ایک صوبے کی گورنری کے ڈالے دانے کو سگنلز سمجھ کر پکڑنا بھی خواری کا سبب بن سکتا ہے۔ پھر بندہ یوٹرن کے میدان میں اترنے پر مجبور ہو کر کانوں کو ہاتھ لگاتے سیاست سے بھی توبہ کرلیتا ہے۔

تو بھیا عرض صرف اتنی ہے کہ سیاست، ریاست، آمریت، جمہوریت، انسانیت، اور دیگر \” ست ویت \” کے علاوہ ہم جِس خطے میں رہتے ہیں یہاں کی سیاسی جماعتوں کی جبلت کے بنیادی اصول وہی ہوا کرتی ہے لہٰذا خوامخواہ کی خفت مٹانے کو ایسے جملے تراش کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی سے اجتناب مناسب ہے۔ بات کیجیے اور کرنے دیجیے کہ بہت سے معتدل مزاج اور آزاد سوچ رکھنے والوں کو آپ کی حقارت و نخوت سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ انہیں کیا پڑی ہے آپ کے ساتھ نا انصافی پر آواز اٹھا کر واہ واہ سمیٹیں کیونکہ جب آپ کی غلطی کی نشاندہی پر تذلیل ہی سہنی ہے اور وہی گھسا پِٹا جواب آنا ہے \”اماں چھوڑو! تم کیا جانو کراچی کی سیاست۔\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments