پاکستانی فلم انڈسٹری کا زوال


\"Mohsin

پاکستانی فلم انڈسٹری جو ستر کی دہائی میں پہلے ہی گھسٹ گھسٹ کر چل رہی تھی، ضیاء دور کی پابندیوں نے اسکی رہی سہی سانسیں بھی چھین لیں۔ اردو فلم بینی کا رحجان جو پہلے ہی کم تھا مزید کم ہو گیا اور ایک ایسا خلاء پیدا ہو گیا جس کو پاٹنا اس چھوٹی سی صنعت کے بس میں ہی نہ رہا اور وہی ہوا جو اس طرح کے خلاء کی صورت میں ہوا کرتا ہے یعنی معیار کی جگہ مقدار نے لے لی، اور 1979ء میں بننے والی پنجابی فلم مولا جٹ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے اور 1977ء میں بننے والی اردوفلم آئینہ سے کہیں زیادہ کاروبار کیا اور یہ کاروبارپہلے سے ہی زوال پزیر اردو فلمی صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ مولا جٹ میٹرو پول سینما میں 130 ہفتے تک مسلسل کامیابی سے چلتی رہی۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی اہل اور قابل شخص کے بد قسمتی سے ناکام ہو جانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان کسی ناپسندیدہ اور نااہل شخص کے خوش قسمتی سے کامیاب ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے یہی سانحہ پاکستانی فلمی صنعت کے ساتھ اسّی کی دہائی میں ہوا۔ گوکہ پنجابی فلموں نے صنعت کو کافی حد تک سہارا دیا لیکن ایسی فلمیں بننا شروع ہو گئیں جن کے نام ہی سے تشدد کا تصور ابھرتا ہے مثلا وحشی گجر، جٹ دا ویر، ات خدا دا ویر، یار بدمعاش، اتھرا پتر، اشتہاری مجرم ، وحشی عورت اور اکّو دس نمبری اس دور میں بننے والی چند مشہور فلموں میں سے ہیں۔ ان فلموں کو دیکھ کرکون شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ ان فلموں میں دکھایا جانے والا کلچر پنجابی کلچر ہوتا تھا۔ رنجش اور دشمنی کس جگہ نہیں ہوتی لیکن کیا چند غنڈے بدمعاش اور ہر وقت کی بڑھکیں بھی کبھی کسی علاقے کا کلچر ہوئی ہیں؟ کلچر ہمیشہ جمہور اور اکثریت کا ہوتا ہے جب کہ ہم قلیل لوگوں برے افعال کو کلچر بنا کر پیش کر دیا۔

دوسری بات یہ کہ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے جو لوگ میدان میں اترے کیا وہ لوگ ہمارے کلچر کے نمائندہ لوگ تھے بھی یا نہیں۔ کیا پنجاب میں سارے لوگ سلطان راہی کی طرح درمیانے قد کے لوگ تھے؟کیا ہر پنجابی ہاتھ میں گنڈاسا لے کرگھومتا ہے؟ سلطان راہی کی اداکاری اپنی جگہ مسلم ہے لیکن کیا سلطان راہی سے زیادہ خوبرو مرد کوئی نہیں تھا پنجاب میں جو اداکاری کر سکتا ہو؟ کیا اس وقت پنجاب میں سب لوگ غریب کی مدد کرنے کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کو ہی ترجیح دیتے تھے؟ اگر شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے مان بھی لیا جائے کہ ایسا کرنا وقتی مجبوری تھی تو کیا اب بھی ہمارے پاس اپنی نئی نسلوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے؟ کیا اب جب کہ ہمارے اداکار بالی وڈ اور ہالی وڈ میں جا کر بھی اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ اب بھی سلطان راہی کی طرح شان ہی ہماری اردو اور پنجابی فلموں کا ایک ہی یونیورسل ہیرو ہو؟ کیا ہر پنجابی کے ماتھے پر شان کی طرح ہی تیوڑی چڑھی رہتی ہے؟ کیا پنجابی ہر وقت غصے کی حالت میں ہی رہتے ہیں؟ ہم نئی نسلوں کو کیا دینا چاہ رہے ہیں؟ میڈیا عوام کی رائے کی تعمیر و تخریب میں اہم کردار ادا کرتا ہے ہم اپنے کلچر کے بارے کونسی رائے بنانا چاہ رہے ہیں ہمیں دوبارہ سوچنا ہو گا۔

دوسری بات یہ کہ بلا شبہ اس خلاء کے دور میں آگے بڑھ کر آنے والوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا ہم نے ہمیشہ حالت جنگ میں ہی رہنا ہے؟۔ وہ اداکار جو اپنے جوہر دوسرے ملکوں میں کامیابی سے دکھاتے ہیں اپنے ملک میں انکی قدر کیوں نہیں کی جاتی۔

حقیقت یہ ہے کہ برسوں ہوئے دنیا فسانوں سے حقیقت پر منتقل ہو چکی ہے لیکں ہم ہیں کہ افسانوں سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ساری دنیا میں فلموں میں عوام کے مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں اور انکا حل پیش کیا جاتا ہے حال ہی میں بننے والی ہندی فلموں مثلا PK, THREE IDIOTS اور تارے زمیں پر کو کیوں دنیا بھر میں پزیرائی ملی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان فلموں میں عوامی مسائل پر بحث کی گئی ہے اور انکا حل بھی پیش کیا گیا ھے یہاں تک کہ حال ہی میں پنجابی کلچر پر بننے والی انڈین فلم انگریج سے بہتر شاید پنجابی کلچر کی عکاسی کبھی نہ ہو سکے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ہالی وڈ میں تو ٹیکنالوجی کا بھی بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ وہ لوگ کسی بھی ٹیکنالوجی سے مندرجہ ذیل تین حوالوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلا پہلے درجے پر وہ مخصوص ٹیکنالوجی جس خاص مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے وہ خاص مقصد پورا کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ ٹیکنالوجی ہالی وڈ کو بیچ دی جاتی ہے اور فلمیں بنا کر اس سے ایک تو اس ٹیکنالوجی کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے اوردوسرے اس سے فلم کی صورت میں بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ تیسرے مرحلے پر جب اس ٹیکنالوجی کی مانگ پوری دنیا میں بن جاتی ہے تو پھر اسے دوسرے ممالک کو بیچ دیا جاتا ہے۔

اور یہی مندرجہ بالا وجوہات ہیں جو پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کا سبب ہیں۔ ہم وقتی طور پر پیدا ہونے والے خلاء کو ہی اپنا کلچر بنا بیٹھے ہیں اور اس سے رتّی برابرآگے پیچھے ہلنے کو تیارہی نہیں۔ ہم نے ٹیکنالوجی کیا استعمال کرنی ہے ہم تو ماضی کو محبوب بنائے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمیں ضیاء دور میں پہنائی جانے والی زنجیروں سے ہی محبت ہو چکی ھے اور جب زنجیروں سے محبت ہو جائے تو آگے بڑھنا کون کمبخت چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments